بنیادی طورپر جمہوریت عوام پر عوامی نمائندوں کے
ذریعے عوام کی حکومت کا نام ہے۔ حکمراں عوام کے انتخاب سے مقرر ہوتے
ہیں اور وہ عوام کے سامنے اپنے افعال کے بارے میں جواب دہ بھی ہوتے
ہیں۔اس حدتک کہا جا سکتا ہے کہ اسلام جمہوری نظامِ حکمرانی کے قریب ہے۔
اسلام خاندانی بادشاہت کا قائل نہیں۔ خلیفہ کا انتخاب عام مسلمانوں کی
رائے سے ہوتا ہے اور وہ اپنی عوام کے سامنے جواب دہ بھی ہوتا ہے، لیکن
موجودہ جمہوریت اور اسلام کے تصورِ حکمرانی میں دو اساسی فرق ہیں؛
جمہوریت میں عوام کو ہر طرح کی قانون سازی کا حق ہوتا ہے ، گویا تحلیل
و تحریم کی کلید ان لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے جن کو عوام نے منتخب کیا
ہے۔ اسلام کی نظر میں اصل سرچشمۂ قانون کتاب اﷲ اور سنتِ رسول ہے ، اور
اس کی تشریح کا حق ان لوگوں کو حاصل ہے ، جو براہِ راست قرآن و حدیث پر
نظر رکھتے ہوں ۔ البتہ مجلسِ شوری کو انتظامی مسائل میں قانون سازی اور
مشورے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ یہ نہایت دو ر رس نظریاتی اختلاف ہے ۔دوسرے
جمہوریت میں عددی اکثریت کا حاصل کرلینا حکمراں اور حکمرانی کا حصہ
بننے کے لیے کافی ہے۔ اس کے لیے کوئی لیاقت و اہلیت ضروری نہیں۔ ہمارے
ملک میں پارلیمنٹ اور اسمبلی کے متعدد ایسے ناخواندہ ارکان رہے ہیں، جو
اپنے دستخط بھی خود نہیں کرسکتے اور نشانِ ابہام سے کام چلاتے رہے ہیں،
اور اس وقت ملک کی متعدد مجالس قانون ساز میں ایک تہائی سے زیادہ ایسے
ارکان موجودہیں جو پولس کے نامزد سنگین مجرم ہیں، اور بعضوں پر ایک
درجن سے زیادہ قتل کے مقدمات ہیں۔ لیکن جو پولس کل ان کا تعاقب کرتی
تھی ، آج ان کی حفاظت کے لیے آگے پیچھے ہوتی ہے۔ اسلام اس کا قائل نہیں۔
اسلام میں ایسی اعلیٰ ذمے داریوں کے لیے ایک مقررہ معیار ہے ، اور رائے
بھی اصحابِ رائے کی معتبر ہے۔ اس کو مختصر طور پر یوں کہا جاسکتا ہے کہ
اسلام میں معیار کے ساتھ مقدار مطلوب ہے اور موجودہ جمہوریت معیار پر
مقدار کی فتح سے عبارت ہے ۔تاہم ایک ایسا ملک جہاں مختلف قومیں اور
مختلف مذاہب کے ماننے والے برابر کی سطح پر رہتے ہیں، جمہوریت ایک نعمت
ہے ، اور ان حالات میں اس سے بہتر کوئی نظامِ حکومت نہیں ہوسکتا ۔ رسول
اﷲ ﷺ جب مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں مسلمان ، یہودی اور مشرکین تینوں
اقوام تھیں ، اور آپ ﷺنے ان میں یہی معاہدہ کرایا کہ یہ سب بقائے باہم
کے اصول پر مدینہ میں رہیں گے۔ ہر ایک کو اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی
ہوگی ، اور مدینے پر کوئی حملہ آور ہو تو سب مل کر دفاع کریں گے۔
ہندستان اور ان جیسے ممالک میں دراصل اسی اصول پر ہم باہم مل جل کر رہ
رہے ہیں۔(کتاب الفتاویٰ)
مسلمان عہد و پیمان کا پاس و لحاظ رکھنے والی قوم ہے، جس کی شہادت سے
تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں، اس کے باوجود جا بجا ان کی وفاداری کو شک
کے گھیرے میں لانے کی کوششیں بعض شر پسندوں کی جانب سے کی جاتی رہتی
ہیں، جب کہ شریعتِ اسلام نے ازخود مسلمانوں کو عہد و پیمان کا لحاظ
رکھنے کی تعلیم دی ہے، جسے قومِ مسلم نے عظیم سرمایہ تصور کیا ہے۔اس
وقت مسلمانوں کی وفاداری کی داستان سپردِ قلم کرنا مقصود نہیں، البتہ
نہایت اختصار کے ساتھ شریعتِ اسلامی کا وہ رخ رو بہ رو لانا مقصود ہے،
جس سے دستور اور حکومت کی پاس داری کے معاملے میں مسلمانوں کا اصل تصور
واضح ہوگا۔ یومِ جمہوریہ چوں کہ دستورِ ہند کے نفاذ کا دن ہے، اسی
مناسبت سے یہ مضمون پیش کیا جا رہا ہے۔ پہلے یہ جان لیں کہ جمہوریت کا
بنیادی اصول کیا ہے؟
قومی کونسل اردو کی جانب سے شائع شدہ اردو انسائیکلوپیڈیا کے مطابق
جمہوریت کا بنیادی اصول فرد کی آزادی اور مساوات ہے۔ یہ مان لیا گیا ہے
کہ (۱)ہر فرد کو اپنی شخصیت کو نشو و نما دینے اور اپنی صلاحیتوں کو
ظاہر کرنے کے مواقع ملنے چاہئیں۔ اس کے لیے اسے چند امور میں سوچنے اور
کام کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ جیسے اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے،
اپنے خیالات کا اظہار کرنے، دوسرے افراد سے مل کر مشترکہ مقاصد کو رو
بہ عمل لانے کے لیے منظم گروہ بنانے کی آزادی(۲)چوں کہ یہ آزادی ہر فرد
کے لیے تسلیم کی جانی چاہیے، اس لیے سب انسان مساوی ہیں۔ اس آزادی کی
بنا پر ہی شخصیت کی نشوو نما ہو سکتی ہے(۳)ہر فرد کے لیے یہ آزادی اس
لیے ضروری ہے کہ قدرت نے اسے عقل عطا کی ہے اور وہ سوجھ بوجھ کی صلاحیت
رکھتا ہے۔ ان ہی تصورات کی وجہ سے آج کل کی جمہوریت کو حریت پسند
جمہوریت Liberal Democracy کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ ’یومِ جمہوریۂ ہند‘ ایک قومی تعطیل ہے، جسے ملک بھر
میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کی اہمیت اس لیے ہے کہ اس دن سے دستورِ ہند
کی عمل آوری ہوئی۔ دستورساز اسمبلی نے دستورِ ہند کو مکمل طورسے
۲۶؍نومبر ۱۹۴۹ء کو مرتب کیا اور۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء کو اسے عمل آوری کے لیے
پاس کردیا گیا، جس سے ہندوستان میں جمہوری طرزِ حکومت کی عمل آوری
ہوئی۔ہندوستان میں عوامی تعطیلات کے اہم اور لازمی تین تعطیلات میں سے
ایک یوم جموریہ ہے، بقیہ دو؛ یوم آزادیِ ہنداور گاندھی جینتی ہیں۔ہر
ریاست، ضلع یہاں تک کہ چھوٹے بڑے اسکول اور مدارس میں بھی یہ تقریب
منعقد کی جاتی ہے بلکہ ملک کے باہر، وہ ممامک اور مقامات جہاں
ہندوستانی عوام رہتے ہیں، اس دن کو خاص انداز میں مناتے ہیں۔
بھارتی مسلمانوں کے نزدیک دستورِ ہند کی پاس داری نہایت ضروری ہے۔ اس
لیے کہ قرآن مجید میں سورۂ مائدہ کی پہلی آیت میں تمام معاملات اور
معاہدات کی پابندی اور ان کے پورا کرنے کی جو ہدایت آئی ہے‘ یہ ایک
ایسا جامع جملہ ہے کہ اس کی تشریح و تفسیر میں ہزاروں صفحات لکھے
جاسکتے ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے :یٰا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۔ اے ایمان والو اپنے معاہدوں کو پورا کیا
کرو۔(المائدۃ)
اس میں پہلے ’یا ایھا الذین امنوا‘ سے خطاب فرما کر مضمون کی اہمیت کی
طرف متوجہ کردیا گیا کہ اس میں جو حکم ہے وہ عین ایمان کا تقاضا ہے ،
اس کے بعد حکم فرمایا ’اوفوا بالعقود‘۔ لفظ’ عقود‘ عقد کی جمع ہے ، جس
کے لفظی معنی باندھنے کے ہیں اور جو معاہدہ دو شخصوں یا دو جماعتوں میں
بندھ جائے اس کو بھی عقد کہا جاتا ہے ، اس لیے بہ معنی عہود ہوگیا۔
امامِ تفسیر ابن جریر نے مفسرین صحابہ وتابعین کا اس پر اجماع نقل کیا
ہے ۔ امام جصاص نے فرمایا کہ عقد کہا جائے یا عہد و معاہدہ‘ اس کا
اطلاق ایسے معاملے پر ہوتا ہے، جس میں دو فریقوں نے آیندہ زمانے میں
کوئی کام کرنے یا چھوڑنے کی پابندی ایک دوسرے پر ڈالی ہو اور دونوں
متفق ہو کر اس کے پابند ہوگئے ہوں۔ ہمارے عرف میں اسی کا نام معاہدہ ہے
، اسی لیے خلاصۂ مضمون اس جملے کا یہ ہوگیا کہ باہمی معاہدات کا پورا
کرنا لازم و ضروری سمجھو۔(معارف القرآن،ملخصاً)
رسول اﷲﷺ کا ارشادِ گرامی ہے :السمع والطاعۃ علی المرأ المسلم فیما أحب
و کرہ، ما لم یؤمر بمعصیۃ، الحدیث۔مسلمان آدمی پر واجب ہے کہ (حاکم کی)
اطاعت کرے ، خواہ وہ اسے پسند ہو یا نہ، جب تک کہ اُسے کسی معصیت کا
حکم نہ دیا جائے۔ (بخاری، مسلم)معلوم ہوا کہ شریعت کی حدود میں جاری
سرکاری احکامات کی پابندی لازم و ضروری ہے۔شیخ یوسف قرضاوی رقم طراز
ہیں:ان الذین یخالفوں القانون الذی یحفظ الحقوق و یقر العدل و یقیم میز
انہ، ھٰؤلاء یعتبرون شرعاً مخالفین للدین نفسہ، لأن الدین یأمر بطاعۃ
مثل ھٰذہ القوانین التنظیمیۃ مادامت بالمعروف و فی غیر معصیۃ۔جو سرکاری
قوانین شریعت کے مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں، ان کی مخالفت گویا دین و
شریعت کی مخالفت ہے ۔(فتاویٰ معاصرہ)
حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ رقم طراز ہیں:جب مسلمان رعایا بن کر
ہندوستان میں رہے اور حکام سے(اس بات کا) عہد و پیمان کر چکے کہ کسی
حاکم یا رعایا کے جان و مال میں دست اندازی نہ کریں گے ، اور کوئی امر
خلافِ اطاعت نہ کریں گے ، تو مسلمانوں کو عہد و پیمان کے خلاف کرنا یا
حکام کی کسی قسم کی مخالفت یا خیانت کرنا ہرگز درست نہیں، اور نہ ہی
رعایا کے ساتھ عہد کے خلاف اور خیانت کرنا درست ہے ۔(اسلام اور سیاست)
٭٭٭٭
|