کسی بھی ملک کے قوانین و ضوابط کا پاس و لحاظ رکھنا
اس ملک کے ہر شہری اور دیگر ممالک کے شہریوں کیلئے جو وہاں کسی وجہ سے
مقیم ہوں ضروری ہے۔ اسلامی ممالک میں بھی شریعت مطہرہ کے مطابق اسلامی
قوانین کا نفاذ لاگو ہو تو پھر یہاں پر موجودہ حکمرانوں کی جانب سے
اسلامی قوانین کے برخلاف ،غیر اسلامی تہذیب و ثقافت اور ظلم و بربریت
کا ماحول ہو تو اس کے خلاف آواز اٹھانا ایک سچے محب وطن اورمسلمان شہری
کیلئے ضروری ہے۔ خلفائے راشدین کے دور پر نظر ڈالتے ہیں تو اس بات کا
پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین نے کس طرح حق
و باطل کے درمیان فیصلہ فرمانے کیلئے قاضی وقت کو مکمل اختیار دے رکھا
تھا ۔خلیفہ رسول ﷺ کے خلاف بھی قاضی (جج) کو شریعت کے مطابق فیصلہ
فرمانے کیلئے پورا اختیار تھا اور وہ بغیر کسی ڈرو خوف کے فیصلے فرماتے
تھے۔یہی وجہ تھی کہ خلفائے راشدین کے دور اقتدار تک اسلامی پرچم دنیا
کے کونے کونے میں لہرانے لگا ۔ لیکن آج اسلامی ممالک بشمول سعودی
عرب،مصر،عراق، پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش وغیرہ میں حکمرانوں اور
سیکیوریٹی ایجنسیوں کے تئیں شہریوں میں ڈرو خوف پایا جاتا ہے ۔ سعودی
عرب جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی وجہ سے عالمِ اسلام کیلئے مرکزی
حیثیت رکھتا ہے یہاں پر قانون شریعت نافذ ہے لیکن موجودہ دور میں حالات
کشیدہ ہوچکے ہیں اسلامی تہذیب و تمدن کے خلاف یوروپی و مغربی کلچر کو
حکومت کی جانب سے فروغ دیا جارہا ہے جس کے خلاف حرمین شریفین اور مملکت
کی دیگر مساجد کے ائمہ و خطباء نے حق و صداقت کے ذریعہ غیر اسلامی
ماحول کے خلاف آواز اٹھائی تو انہیں گرفتار کرلیا گیا اور نہیں معلوم
ان حق و صداقت کے علمبرداروں کے خلاف انہیں حراست میں رکھ کرکس قسم کی
سختی برتی گئی اور برتی جارہی ہے۔حرمِ مکمہ معظمہ کے امام و خطیب اور
جج مکہ مکرمہ فضیلت الشیخ صالح بن محمد آل طالب کی گرفتاری جنہوں نے
سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے ویژن 2030کے تحت سعودی عرب میں مغربی و
یوروپی تہذیب کے فروغ کے خلاف ’’منبرحرم مکی‘‘ سے مغربی تہذیب واقدار
سے اجتناب کرنے کی تلقین کرتے ہوئے اعمال صالح بجالانے کی نصیحت فرمائی
تھی اور مردو خواتین کے اختلاط کی محفلوں اور ناچ گانے والی جگہوں سے
بچنے کیلئے تلقین کی تھی اور کہا تھا کہ یہ اس ملک کیلئے شرمندگی ہوگی
اور رسوائی ہوگی اور بہت ہی خطرے کی بات ہے جو یہ حکومت اپنے نوجوانوں
کو پیش کررہی ہے ۔ انہوں نے ان حالات پر متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا تم پر
حسرت ہے اور عنقریب تم پر با اخلاق لوگ اور وہ عملہ غالب آکر رہے گا جو
پاکیزہ اقدار، اخلاقی قدریں اور قرآن کریم کے یاد کرنے والے ہونگے۔اسی
طرح گذشتہ برس مسجد نبوی ﷺ کے امام شیخ احمد العماری جو جامعہ اسلامیہ
مدینہ منورہ میں قرآن کالج کے سابق سربراہ و معروف مبلغ و مذہبی رہنما
کوانکی رہائش گاہ سے انکے قریبی معاون اور اسلامی اسکالر صفر الحوالی
کے ہمراہ حراست میں لیا گیا تھا ۔68سالہ صفر الحوالی کو تین ہزار صفحات
پر مشتمل کتاب کی اشاعت کے بعد گرفتار کیا گیا تھا جس میں انہوں نے
سعودی ولیعہد محمد بن سلمان اور شاہی خاندان کو اسرائل کے ساتھ تعلقات
پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔مسجد نبوی ﷺ کے 69سالہ امام شیخ
احمدالعماری جو گذشتہ دنوں حراست کے دوران انتقال کرگئے ۔ ذرائع ابلاغ
کے مطابق سوشل میڈیا گروپ پریزنس آف کنسائس کے مطابق شیخ احمد العماری
گرفتاری کے چند ماہ بعد حراست میں انتقال کرگئے ۔ لندن سے تعلق رکھنے
والی انسانی حقوق کی تنظیم القسط کے ڈائرکٹر یحییٰ اسیری نے امام مسجد
نبوی ﷺ کے انتقال پر کہا کہ امام کو قید تنہائی میں رکھا گیا تھا اور
انہیں اچانک برین ہیمبرج کے بعد 2؍ جنوری کو ذھبان کی جیل سے شاہ عبداﷲ
میڈیکل کامپلکس جدہ منتقل کیا گیا تھا انہوں اس یقین کا اظہار کرتے
ہوئے کہا کہ یہ معاملہ طبی غفلت کے بجائے دورانِ حراست قتل کا ہے۔
سعودی عرب میں جاری دو سال سے کریک ڈاؤن میں کئی مذہبی رہنماؤں، آئمہو
خطباء اوردانشوروں کو گرفتار کرنے کی رپورٹس ذرائع ابلاغ کے ذریعہ منظر
عام پر آتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ شاید مستقبل میں بھی جاری رہیگا۔
پاکستان میں دہشت گردی کا ماحول
پاکستان میں دہشت گردی کا ماحول صرف شدت پسند گروپس کی جانب سے ہی نہیں
بلکہ بعض درندہ صفت سیکیوریٹی عہدیداروں کی جانب سے بھی بڑھتا جارہا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے صوبہ پنجاب کے
شہر ساہیوال میں محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی کارروائی پر
اپنے ٹویٹ میں کہا کہ جن کے والدین کو ان کی آنکھوں کے سامنے گولیوں سے
بھون ڈالا گیا وہ ان سہمے ہوئے بچوں کو دیکھ کر صدمے کی کیفیت میں ہیں،
ان کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں اچھا کام
کیا ہے لیکن قانون کے سامنے سب جوابدہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ اپنے بچوں
کے بارے میں ایسی صدمہ انگیز صورتحال کے تصور ہی سے کوئی بھی والدین
پریشان ہوجائیں گے۔ ساہیوال میں سی ٹی ڈی نے جس طرح ایک کار میں سوار
چار افراد کو نشانہ بناکر انکے بچوں کے سامنے ہلاک کردیا اس کے خلاف
سوشل میڈیا پر کئی سوالات گردش کرنے لگے تھے۔ وزیر اعظم عمران خان اور
پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے اس واقعے کی مختلف سطح پر تحقیقات کا حکم دیا
ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ کے بعد حکومت نے ہلاک ہونے والے خلیل انکی بیوی اور
13سالہ بیٹی اریبہ خلیل کوبے گناہ قرار دیا ہے۔بی بی سی ذرائع ابلاغ کے
مطابق اس مبینہ انکاؤنٹر میں بچ جانے والے معصوم بچوں میں سے ایک کا
کہنا تھا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ بورے والا گاؤں شادی میں جارہے تھے
اور انکے ساتھ انکے والد کے ایک دوست تھے۔ بچے نے مزید بتایا کہ فائرنگ
سے پہلے انکے والد نے کہا کہ پیسے لے لو ہم کو چھوڑ دو لیکن انہوں نے
فائرنگ شروع کردی۔ بعد میں جو مر گئے انہیں گاڑی میں ڈال دیا اور ہمیں
اپنے ساتھ پتہ نہیں کہاں لے گئے اور پھر ایک پٹرول پمپ پر چھوڑ دیا۔بچے
کا یہ بھی بیان ہے کہ اس کے بعد ایک شخص آیا اس نے کہا کہ میں آپ کو
گھر چھوڑ دوں اور اس نے ہاسپتل پر چھوڑدیا۔جبکہ محکمہ انسداد دہشت گردی
نے اس معاملے کی رپورٹ آئی جی پنجاب جاوید سلیم کو پیش کرنے کی ہے جس
کے مطابق بتایا جارہا ہے کہ ساہیوال سی ڈی ڈی ٹیم نے حساس ادارے کی
جانب سے ملنے والی موثر اطلاع پر آپریشن کیا جس کے نتیجے میں کلعدم
تنظیم داعش سے منسلک چار دہشت گرد ہلاک جبکہ انکے قبضے سے اسلحہ اور
دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا۔ رپورٹ کے مطابق بتایا جارہا ہے کہ 19؍
جنوری ہفتہ کی دوپہر بارہ بجے کے قریب ساہیوال پلازہ کے نزدیک محکمہ
انسدادِ دہشت گردی کی ٹیم نے موٹر سائیکل پر سوار دہشت گردوں کو روکنے
کی کوشش کی تو انہوں نے ٹیم پر فائرنگ شروع کردی جس پر ٹیم نے اپنے
تحفظ کے لئے جوابی فائرنگ کی جب فائرنگ کا سلسلہ رکا تو چار دہشت گرد
جن میں دو خواتین شامل تھیں اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک جبکہ ان کے
تین ساتھی موقع سے فرار ہونے میں کامیاب رہے۔ سوال پیدا ہوتا ہیکہ کیا
بچوں کا بیان سچ ہے یا محکمہ انسداد دہشت گرد کی رپورٹ سچ پر مبنی ہے۔
خیر ساہیوال کا یہ دردناک واقعہ ان معصوم بچوں کیلئے سانحہ عظیم ہے
جنکے سامنے انکے والدین اور بہن کو گولیوں سے بھون دیا گیا اب دیکھنا
ہیکہ حکومت پاکستان تحقیقاتی رپورٹ کے بعد خاطیوں کو کیفرکردار تک
پہنچاتی ہے یا نہیں۔ محکمہ انسدادِ دہشت گردی کے مبینہ انکاؤنٹر کے
نتیجے میں ہلاکتوں کے بعد مشکوک پولیس مقابلے میں ملوث عہدیداروں کو
تحویل میں لے لیا گیا ہے ۔دیکھنا ہیکہ انکے خلاف کس قسم کی کارروائی کی
جاتی ہے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اس واقعے میں زخمی اوریتم
ہونے والے بچوں کی کفالت کے تعلق سے کہا کہ حکومت پنجاب انکی کفالت کرے
گی اور وہ خوداس واقعہ کی انکوائری کی نگرانی کریں گے۔اس کے علاوہ
پاکستان میں ایک اور واقعہ کی گونج ہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ امور
شہریار آفریدی نے وزیرستان کے علاقے خیسور واقعے میں مبینہ طور پر ملوث
اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کروائی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے
مطابق گذشتہ تین چار روز سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں
مبینہ طور پر خیسور سے تعلق رکھنے والا ایک کمسن لڑکا حیات خان نے
الزام لگایا ہے کہ سیکیوریٹی اہلکار نے مبینہ طور پر اس کے گھر بغیر
اجازت داخل ہوئے ہیں۔ حیات خان کے مطابق انکے والد اور بڑے بھائی کو
چار ماہ قبل مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز اپنے ساتھ لے گئیں تھیں۔بچے
کا کہنا ہے کہ وہ (سیکوریٹی فورسز )ان کے گھر آتے ہیں، چار پائی اور
تکیے طلب کرتے ہیں اور پھر وہاں بیٹھ جاتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس
بچے نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میرے ابو اور بھائی کو بے شک نہ
چھوڑیں ، لیکن سیکیورٹی فورسز کو چاہیے کہ وہ ہمارے گھر آنا بند
کردیں۔تاہم سوشل میڈیا پر حیات خان کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پشتون
تحفظ موومنٹ نے اتوار کو شمالی وزیر ستان کے علاقے خیسور میں بڑا جلسہ
کیا اور مطالبہ کیا کہ مذکورہ بچے حیات خان کے والد اور بھائی کو رہا
کیا جائے اور واقعے میں ملوث اہلکاروں کے خلاف تحقیقات کی جائیں۔تنظیم
نے ایک ہفتہ کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایک ہفتہ میں انکے یہ
مطالبات حل نہیں ہوئے تو سخت احتجاج کریں گے۔ مختلف تنظیموں اور افراد
کی جانب سے سخت بیانات آرہے ہیں ، عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سکریٹری
میاں افتخار حسین نے اپنے ویڈیو پیغام میں خیسور واقعہ کو دردناک بتاتے
ہوئے کہاکہ پشتون تو مر مٹنے کیلئے تیار ہوتے ہیں، لیکن عزت پر کوئی
آنچ آئے یہ کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ امور
شہریار آفریدی نے قومی اسمبلی میں ارکان اسمبلی کے سوالات کا جواب دیتے
ہوئے کہا کہ وہ اس واقعہ میں ملوث اہلکار کے خلاف کارروائی کریں گے ۔
انکاکہنا تھاکہ کتنا بڑا افسر ہی کیوں نہ ہو جس نے میرے پشتون اور
پاکستانیوں کی تذلیل کی ، اس کو ہم مثال بنائیں گے۔ کیا یہی وہ اسلامی
ملک پاکستان ہے جہاں پر دہشت گردانہ ماحول بنا رہتا ہے کبھی عوام شدت
پسند تنظیموں کا شکار ہوتے ہیں کبھی سیکیوریٹی اہلکاروں کی جانب اغواء
کئے جاتے ہیں یا پھر انکاؤنٹر میں ہلاک کردیئے جاتے ہیں ۔
افغانستان میں طالبان کی کارروائیاں اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات
افغانستان میں دہشت گردکتنے مضبوط ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا
جاسکتا ہے کہ گذشتہ دنوں افغان مسئلہ پر امریکہ اور افغان طالبان کے
درمیان قطر میں مذاکرات جاری تھے کہ اسی دوران دارالحکومت کابل کے قریب
میدان وردگ کے صدر مقام شارمیں انٹیلی جنس ایجنسی کی ایک چھاؤنی پر
طالبان کی جانب سے حملہ کردیا گیا۔ جس میں کئی درجن افراد ہلاک ہونے کی
اطلاعات ہیں۔ پیر کو ہونے والے اس حملے کو افغان انٹیلی جنس ایجنسی پر
اب تک ہونے والا سب سے بڑا اور خطرناک حملہ بتایا جارہا ہے۔ طالبان کی
جانب سے یہ حملہ قطر میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے اجلاس سے چند گھنٹے
بعد ہی ہوا، اس حملے میں پہلے بارود بھری گاڑی اڑائی اور پھر کم از کم
دو حملہ آوروں نے فائرنگ شروع کردی ۔ افغان انٹیلی جنس ایجنسی کے مطابق
انہو ں نے حملے کیلئے آنے والی بارود سے بھری دوسری گاڑی کو ناکارہ
بنایا اور اس گاڑی کے ساتھ تین ممکنہ خودکش حملہ آوروں کو مار دیا۔ اس
حملہ سے متعلق افغان امور کے ماہر سمیع یوسف زئی نے بتایا کہ اس حملے
کو مذاکرات سے جوڑنا اس لئے بھی غلط ہوگا کیونکہ ان حملوں کے لئے کئی
کئی ماہ تیاریاں ہوتی ہیں، انہوں نے اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ
حملہ آوروں کو مذاکرات کے دن ہی حکم ملا اور انہوں نے کردیا۔ تاہم سمیع
یوسف زئی کے مطابق ایسے حملوں کا مقصد یہی ہے کہ طالبان امریکہ اور
افغان حکومت کو یہ دیکھادیں کہ وہ کتنے طاقتور ہیں۔ان ہی کے مطابق قطر
کے حالیہ مذاکرات میں نہ صرف مثبت باتیں ہوئی ہیں۔ طالبان ذرائع کے
مطابق ان مذاکرات میں افغانستان سے بیرونی افواج کا انخلاء ، جنگ بندی،
طالبان رہنماؤں کے نام بلیک لسٹ سے نکالنا ، قیدیوں کا تبادلہ اور
اعتماد کی بحالی پر بحث ہوئی لیکن اس ذرائع کے مطابق کوئی پیشرفت نہیں
ہوئی۔ امریکہ گذشتہ سال جولائی سے کوشش میں ہے کہ وہ نہ صرف طالبان سے
مذاکرات کریں، بلکہ افغان طالبان، افغان حکومت کے ساتھ بھی مذاکرات
کیلئے بیٹھیں۔ طالبان گذشتہ کئی ماہ میں متعدد مرتبہ امریکہ کے ساتھ
ملے ہیں، بات چیت بھی ہوئی ہے لیکن اب تک طالبان نے افغان حکومت کے
ساتھ مذاکرات کرنے پر آمادگی کا اظہار نہیں کیا۔ اب دیکھنا ہیکہ افغان
انٹیلی جنس ایجنسی کی چھاؤنی پر طالبان کے حملے کے خلاف افغان حکومت
اور فوج کس طرح کارروائی کرتی ہے۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہیکہ طالبان کے
بعض لیڈرس نہیں چاہتے کہ افغان حکومت کے ساتھ بات چیت ہو ۔ افغانستان
کے عوام کئی برسوں سے جس طرح کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اس کا ہمیں
اندازہ نہیں ۔ انکے اوپر ہمیشہ موت کی تلوار لٹکی رہتی ہے ،ایک طرف
انہیں طالبان کا ڈرو خوف لگا رہتا ہے تو دوسری طرح فوج اور سیکوریٹی
ایجنسیوں کا ڈروخوف کہ کہیں انہیں طالبان سمجھ کر نشانہ نہ بنایا جائے۔
کاش عالمِ اسلام کے ان ممالک میں مسلمانوں کو سکون میسر ہوجائے ۔
امریکہ چاہتا ہیکہ اسکی فوج کسی نہ کسی طرح افغانستان سے نکل جائے تاکہ
وہ اپنی ہاری ہوئی جنگ سے مزید نقصان نہ اٹھاسکے۔ کاش امتِ مسلمہ کے
رہنماء اور حکمراں اپنے بھائیوں کی سلامتی کیلئے دشمنانِ اسلام کی
سازشوں کو سمجھ پاتے اور ان کے ناپاک عزائم کے خلاف متحدہ حکمتِ عملی
کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکی سازشوں کو ناکام بناتے۰۰۰
یمن میں بچے مزدوری پر مجبور
یمن ان عرب ممالک میں سب سے زیادہ غریب ممالک میں شمار کیا جاتا ہے جس
میں جاری جنگ کی وجہ سے حالات مزید خراب ہوگئے ہیں۔ ہزاروں افراد ہلاک
اور لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ حوثی باغیوں کا صدر عبدربہ منصور
ہادی کے خلاف بغاوت نے صدر کو سعودی عرب فرار ہونے پر مجبور کیا تھا جس
کے بعد صدر نے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے تعاون کی درخواست کی
تھی جس کے بعد سعودی عرب اور دیگر اتحادی ممالک نے حوثی باغیوں کے خلاف
حملے کرتے ہوئے صدر عبدربہ منصور ہادی کو تعاون فراہم کیا اور وہ
دوبارہ یمن پہنچے۔ 2011سے جاری اس خانہ جنگی میں لاکھوں معصوم بچے
غذائی اجناس سے محروم اورکئی مہلک بیماریوں خصوصاً ہیضے کا شکار ہوگئے
اور ہیضے کی بیمارے ایک بحران کی شکل اختیار کرچکی ہے۔یمن کے بچے
اسکولوں کے بعد مزدوری کرنے پر مجبور ہیں وہ اپنے والدین کا ہاتھ بٹا
رہے رہے ہیں جبکہ بعض خاندانوں میں صرف بچے ہی اپنے خاندان کا واحد
سہارا بنے ہوئے ہیں۔ کاش مسلم ممالک کے حکمراں خصوصاً سعودی عرب اور
دیگر اتحادی ممالک کے حکمراں جنہوں نے اس غریب ملک کے عوام پر حوثی
بغاوت کے نام پر کئی مقامات پر فضائی حملے کرکے غریب عوام ، معصوم بچوں
کی زندگیوں کو موت کے منہ پر لاکھڑا کیا ہے کاش انکا کوئی پرسانِ حال
نہیں۔ آخر اس خانہ جنگی کا خاتمہ کب ہوپائے گا اس کا بھی کوئی پتہ نہیں
۰۰۰
*** |