نیا پاکستان بمقابلہ پرانا پاکستان

المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں اس وقت سچ اگلنا شروع کر دیتی ہیں جب وہ اپوزیشن کا حصہ ہوں. اور جب یہی پارٹی حکومت میں آجاتی ہے تو "صم بکم عمی" بن جاتی ہے. تحریک انصاف بھی تو وہی کررہی ہے. کچھ زیادہ ظلم تو نہیں کر رہی.کل تک جو اعتراضات عمران خان اٹھا رہے تھے اور اپوزیشن آگ بگولہ ہو رہی تھی. آج جب وہی اپوزیشن والی پارٹیاں حکومت میں ہیں تو وہی سوالات عمران خان پر اٹھانے لگے ہیں. اور عمران خان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی.اگر موجودہ حکومت کی کارکردگی افسوسناک ہے. مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں بنتا کہ پرانے پاکستان میں حکومتی مشینر ٹھیک تھی. ماضی قریب کی چند سالوں پر نظر ڈالی جائے تو کچھ اندازہ ہوجائے گا.قصور کی بے قصور بیٹی زینب کے غمزدہ والد کا مائک شہباز شریف نے جب بند کیا تھا اسے بولنے کی آزادی نہ تھی. بینظیر بھٹو پرانے پاکستان میں قتل ہوئی تھی. آرمی پبلک سکول یا باچا خان یونیورسٹی پر حملہ ہوں یہ سب کچھ پرانے پاکستان میں سبھی نے دیکھے ہیں. نقیب اللہ محسود کے قاتل زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا. کچھ پتہ اگر چل بھی گیا ہوں تو بھی نہیں چلا. کیونکہ بعض کارندوں کا پتہ چل بھی جاتی ہے لیکن کسی کا بس نہیں چلتا کہ پوچھ کے دکھائے.

الیکشن کے قریبی ایام خون کی ندیاں بہا دی گئی. بشیر بلور کی شہادت کا سراغ بھی نہ مل سکا. مساجد کے اندر دھماکے کئے گئے. شاید سبھی کو یاد ہوں جب پرانے پاکستان میں خاص طور پر زرداری کے دور میں ملک کے ہر شھر میں روز دھماکے ہوتے تھے. 5, 6 دھماکے پشاور میں آئے روز ہوتے تھے. ٹارگٹ کلنگ پرانے پاکستان کا مانا جانا لفظ ہے جس نے بے شمار زندگیوں کو گل کر رکھ دیا.

سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کا خمیازہ آج بھی پاکستان کے ویران کرکٹ گراونڈز بھگت رہے ہیں. نواز شریف کی نااہلی کے بعد ان کی ریلی کے گاڑی نے زندہ انسان کو کچل ڈالا. کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں سرفراز نامی نوجوان کو مارنے کی ویڈیو پاکستانی نیوز چینلز پر پوری دنیا دیکھ چکی ہے جسمیں وہ اپنی زندگی کا بھیک مانگ رہا تھا. تاریخ ان طرح کے بیشمار ظلم کے واقعات سے خون آلود ہے. مگر کسی وزیراعظم یا وزیراعلی صاحب نے استعفے نہیں دئیے. آج کس منہ سے استعفے مانگے جا رہے ہیں. پی پی پی والے ساہیوال واقعہ پر تنقید کر رہے ہیں مگر افسوس کہ ان کی پانچ سال حکومت گزرنے کے باوجود وہ اپنی لیڈر بینظیر بھٹو کے قتل کا معمہ حل نہ کر سکے. دل شکنی کی بات یہ ہے کہ عمران خان کو وزیراعظم کی کرسی تک پہنچانے والوں نے عمران خان کا نیا پاکستان نہیں دیکھا. اگر دیکھا بھی نیا پاکستان تو اس میں غریب کو ننگا اور بھوکا دیکھا. مگر دوسری جانب پرانے پاکستان میں بھی غریب روٹی کپڑا اور مکان کیلئے ترستا دیکھا. پرانے پاکستان میں ہم سب نے بے شمار زندگیوں کے چراغ گل ہوتے دیکھا. اور سیاسی میدان میں تنقید کا سماء دیکھا. تڑپتے چراغوں کو بے یار و مددگار مرتے دیکھا. آسمان کو بن برسے گرجتے دیکھا. زمین کو بن ہلے لرزتے دیکھا. رلانے والوں کو قہقہوں کی گونج میں دیکھا اور ہنسانے والوں کو روتے بھی دیکھا.بہت سارے تعلیم یافتہ جاہلوں کو دیکھا. شاہ کے کتے کو عیاشیوں میں دیکھا اور غریب کے لخت جگر کو بھوک سے مرتے دیکھا. پردہ داروں کو بےپردہ ہوتے دیکھا. حکومت بچانے کی فکر میں حکمرانوں تو کیا ان کے ایمان کو بھی لرزتے دیکھا یہاں انسان کو انسان کا شکار کرتے دیکھا. قوم کے محافظوں کو قوم پر مسلط ہوتے دیکھا چوروں کے چہرے پہ داڑی کو دیکھی اور بن داڑی ولی کو دیکھا. یہاں استاد کو ہتھکڑیوں میں دیکھا اور قاتلوں کو آزاد گھومتے دیکھا. گھر کے بھیدی کو آگ لگاتے دیکھا. قلم کی نوک کو مروڑتے دیکھا. مگر مروڑنے والے کو تخت دار پہ نہیں دیکھا. پاکستان کو بنتے دیکھا مگر اپنے ہی غلطیوں کی وجہ سے پیارے وطن کو دو ٹکڑوں میں تقسیم پوتے بھی دیکھا. ذوالفقار علی بھٹو کو شاید اسی کارنامے پر ہمیشہ زندہ دیکھا. کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لڑکیوں کو زندہ دفنایا جاتا تھا مگر پرانے اور نئے پاکستان میں ان کے ساتھ ان کی عزت کو بھی دفناتے دیکھا. پنجاب پولیس کی کارکردگی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے.,پچھلی حکومت یا موجودہ حکومت. پچھلی حکومت اپنی ہاتھ کی بنائی گئی پولیس ڈیپارٹمنٹ پر انگلی اٹھا رہی ہے جبکہ موجودہ حکومت طوطی کی زبان بول رہی ہے کہ بدل رہا ہے پاکستان. مگر پاکستان ہے بدلنے کا نام تک نہیں لے رہا. نئے پاکستان میں بھی وہی کچھ ہو رہا ہے جو پرانے پاکستان ہورہا تھا. نئے سال پر نیا سورج نہیں نکلتا بس ایک ہندسہ بدل جاتا ہے. بالکل اسی طرح پرانے پاکستان کے ایک چہرہ بدلنے پر نیا پاکستان نہیں بن سکتا. کیونکہ وزیراعظم بدل گیا ہے. باقی چہرے تو اکثریتی طور پر پرانے ہی ہیں. تو یہاں غلطی کس کی ہے. شاید عوام کی ہے. جو کہ پاکستان کو بدلتا دیکھنا چاہتے ہیں مگر خود پرانے والی سوچ رکھتے ہیں. بار بار ذلیل و خوار ہونے کے باوجود اپنی من پسند پارٹی کو سپورٹ کرتے ہیں.

Sajid ALi Salarzai
About the Author: Sajid ALi Salarzai Read More Articles by Sajid ALi Salarzai: 2 Articles with 1658 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.