ناموَری یا خس وخاشاک

میں غریب باپ کا بیٹا ہوں۔ میں نے ہر چیلنج کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنا ہے۔وجہ ایک ہی ہے کہ چیلنجز غریبوں کو ہی درپیش ہوتے ہیں اور ان سے نمٹنا بھی غریب ہی جانتے ہیں۔دنیا کے ہر فیلڈ کے بڑے شخص کا بچپن اور جوانی جھونپڑوں میں ہی گزری ہے یعنی بڑی شخصیات کیساتھ کسمپرسی اور جھونپڑیاں لازم وملزوم ہیں۔

جی ہاں میں نے تو فیصلہ کرلیا کہ
*میں نہیں ہارونگا۔میں چیلنج قبول کرونگا۔*
قدرت کا معمول ہے کہ وہ کسی کو بڑا بنانا چاہتی ہے تو اس کے سامنے چیلنجز کریٹ کرتی ہے۔بلکہ مختلف چیلنجز کا دربار لگتا ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ انسان کھبی بڑا نہیں بنا جس کے سامنے K2 جتنا بڑا چیلنج نہ تھا۔۔مجھے چیلنج قبول کرنا ہے۔۔ اور جیتنا ہے۔۔ میں ہار نہیں سکتا۔۔ ہارنے سے پہلے یا ہار تسلیم کرنے سے پہلے مجھے دنیا سے رخصت ہونا چاہیے۔۔۔ مجھے ابھی جانا نہیں دنیا سے۔لہذا میں ہر وہ چیلنج قبول کرنے جارہا جو مجھے ہرانا چاہتی۔۔۔أپ بھی ہر اس چیلنج کا سامنا کیجے جس نے أپ کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔جس نے أپ کے خواب چور چور کیے ہیں۔

زندگی میں سینکڑوں بالز أپ سے چھوٹ جاٸیں گے۔ ہزاروں وکٹ گر جاٸیں گی مگر أپ پچ پر کھڑے رہے۔ أپ وکٹ بھی بچاٸیں گے اور پھر گیند پر گیند کو بھی کیچ کرتے جاٸیں گے۔

میں غریب باپ کا بیٹا ہوں۔ میں نے ہر چیلنج کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنا ہے۔وجہ ایک ہی ہے کہ چیلنجز غریبوں کو ہی درپیش ہوتے ہیں اور ان سے نمٹنا بھی غریب ہی جانتے ہیں۔دنیا کے ہر فیلڈ کے بڑے شخص کا بچپن اور جوانی جھونپڑوں میں ہی گزری ہے یعنی بڑی شخصیات کیساتھ کسمپرسی اور جھونپڑیاں لازم وملزوم ہیں۔۔۔ أپ جاٸزہ لیجے گا۔۔ امیر زادے بڑے لوگ نہیں بن سکتے کیونکہ ان کی زندگی میں کوٸی چیلنج نہیں ہوتا۔۔وہ سونے کے چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوتے اور پھر کسمپرسی یا بے نامی میں دنیا سے چلے جاتےہیں۔

یہ فطرت کا طے شدہ اصول ہے کہ وہ کامیاب اور بڑا أدمی اسکو بناتی جو چیلنج قبول کرے اور پھر سر ٹکراٸے مگر پیچھے نہ ہٹے۔
اللہ نٕے بھی یہی فرمایا کہ
*قل ربی اللہ ثم استقم*
اللہ نے مزید بھی فرمایا کہ
*إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ* [الأحقاف:13]
یعنی جو لوگ اللہ سے Love لگاتے ہیں اور اس پر استقامت بھی اختیار کرتے ہیں ان پر کسی قسم خوف اثر نہیں کرتا بلکہ وہ ہر خوف کا مقابلہ کرجاتے ہیں خوف پر فتح حاصل کرلیتے ہیں اور فوز و فلاح کی سیڑھیاں چڑھتے جاتے ہیں۔

قدرت نے تمام انبیا ٕ کو بڑا بنانا تھا اور انہیں دیگر لوگوں کے لیے أٸیڈیل بنانا تھا اس لیے ان کی زندگیوں میں نٸے نٸے چیلنجز پیدا کیے اور وہ کمال مجاہدوں اور مشکلوں سے گزر گٸے اور پھر کندن بن گٸے۔ انبیا ٕ نے کھبی ہمت نہیں ہارا اس لیے وہ اَمر ہوگٸے۔اور یاد رہے جن جن لوگوں نے چیلنجز کا سامنا نہیں کیا قدرت نے انہیں نشان عبرت بنا کر رکھ دیا۔

قدرت چیلنجز اور مشکلات کے ذریعے ہمارا امتحان لینا چاہتی ہے۔ اگر ہم اس میں سرخرو ہوٸے تو پھر ہم دنیا کے ناموروں میں شمار ہونگے بصورت دیگر ہم خس وخاشاک میں بہہ جاٸیں گے۔
تو بتاٸیے!

أپ نے اَمر ہونا ہے یا پھر خس وخاشاک میں بہہ جانا ہے۔میں نے تو ٹھان لی ہے کہ میں فطرت کے اصولوں کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ أپ بھی عہد کیجے اور پھر ہر خوفناک چیلنج کا سامنے کرتے جاٸیے اور اپنی ناموری کی ایک خوفناک کہانی دنیا کے لیے مثال بناکر چلا جا۔لوگ أپ کی محنت اور جہد مسلسل کی مثالیں دیں۔ أپ اس دنیا میں نہیں ہونگے مگر أپ کی ناموری کے ڈنکے چار سو بجیں گے۔ تو
احباب کیا کہتے ہیں؟
 

Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 443 Articles with 383436 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More