بات دل کو لگی تھی، کیونکہ قوم کے دل کی آواز تھی۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ ہم بچت کریں گے اور
ساتھ ساتھ قوم کو اس بچت سے آگاہ کریں گے۔ تب سے اب تک قوم ایڑیاں اٹھا
اٹھا کر دیکھ رہی ہے، کہ کوئی ہرکارہ اقتدار کے ایوانوں سے آتا دکھائی دے،
اونچے ٹیلے پر کھڑا ہو کر اعلان کرے کہ یہ ہے بچت کی ماہانہ رپورٹ۔ یا پھر
سہ ماہی رپورٹ ہی پیش کردیتے، شاید اب ششماہی رپورٹ میں بتایا جائے گا کہ
ہم نے فلاں فلاں کاموں میں فضول خرچی کو ختم کرکے سادگی کی روش اختیار کر
لی ہے۔ مگر ابھی تک آنکھیں یہ منظر دیکھنے اور کان اس قسم کے الفاظ سننے کے
منتظر ہیں۔ حکومت نے آتے ہی انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے چند بھینسیں اور ان کے
ساتھ کچھ کَٹّے فروخت کئے، بہت سی گاڑیاں دکھا کر چند بیچ دیں۔ بھائی ! قوم
بچت کے واضح آثار مانگتی ہے، کس شعبہ میں پہلے کتنے اخراجات تھے، ان میں سے
کس قدر کم ہوئے۔ یہ نہیں کہ ہم نے بچت شروع کردی ہے، ہم سادگی اپنا رہے ہیں،
قناعت پسندی کا دامن تھام لیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ حکومت کی کارکردگی دیکھ کر
ایک جملہ عام بولا جاتا ہے کہ حکومت نے ’’ہوم ورک‘‘ نہیں کیا۔ ظاہر ہے جب
ہوم ورک نہیں ہوتا تو اس کے پیچھے دو ہی عوامل ہو سکتے ہیں، سخت مجبوری یا
پھر نااہلی (جسے نالائقی بھی کہا جاسکتا ہے)۔
اگر حکومت ایک ہی حکم نامہ جاری کرے ، کہ سرکاری گاڑیوں کا استعمال صرف
سرکاری کام کے لئے ہی کیا جائے گا، دفتری اوقات کے بعد گاڑیاں سڑک پر
دکھائی نہ دیں ۔ تو یقینا اس حکم سے ایک دن میں کروڑوں روپے کا پٹرول بچ
سکتا ہے، جو سرکاری طور پر قومی خزانے سے ڈلوایا جاتا ہے۔ بچت کے لئے جہاں
بہت سنجیدگی سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، و ہاں البتہ قربانی کا جذبہ ہی
ایسے کام کروا سکتا ہے۔ اقتدار ، اختیار اور رمراعات کا نشہ جب سر پر سوار
ہو جا تا ہے تو قربانی دم توڑ جاتی ہے۔ قانون اور اصول تو حدود کی پابندی
مانگتے ہیں، ریاستی معاملات میں کامیابی کا پہلا گُر تو قانون پر عمل داری
میں پنہاں ہے۔ اپنے ہاں چونکہ قانون پر عمل کروانے اور کرنے کا زیادہ چلن
نہیں ہے، اس لئے جب کوئی کبھی قانون کے نفاذ کی بات کرتا ہے، تو اس کے
راستے میں مشکلات آڑے آجاتی ہیں۔ اس کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ جب قانون
نافذ کیا جائے تو سب کے لئے یکساں نفاذ ہو۔
سبز نمبر پلیٹ کی گاڑیوں کو جب لوگ صبح بہت بڑی فیس والے سکولوں، شام کو
مہنگی مارکیٹوں اور رات کو بڑے ہوٹلوں کے باہر کھڑی دیکھتے ہیں تو اُن کا
خون کھولتا ہے، عوام کے پیسوں سے حکومت کا چلایا جانا تو سمجھ میں آتا ہے،
مگر عام لوگوں کے پیسوں سے انہی کے سامنے عیاشیاں کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔
ایسے افسران تنخواہ اور مراعات کی مد میں لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں،
سکولوں اور مارکیٹوں تک بھی ان کے اہل و عیال ذاتی گاڑی میں جانا گوارا
نہیں کرتے۔ مُفتا لگا ہوا ہو تو کس کو برا لگتا ہے؟ بہت سے افسران کے
نوجوان بچے سرکاری گاڑی پر شہر کی سڑکیں ناپ رہے ہوتے ہیں، یقینا ان کے
افسر والد اس عمل کو بے ایمانی تصور نہیں کرتے ہوں گے۔ گاڑیوں کا ناجائز
استعمال تو مکمل طور پر جائز ہی تصور کیا جاتا ہے۔ حیرت ہے کہ یہ نوجوان
عام لوگوں کو تو دکھائی دیتے ہیں، مگر قانون نافذ کرنے والے کسی اہلکار کو
نظر نہیں آتے۔ ان میں بہت سی گاڑیاں ایسی ہوتی ہیں، جن میں نیلے ہوٹر بھی
پڑے ہوتے ہیں، جنہیں بوقت ضرورت گاڑی کی چھت پر رکھ لیا جاتا ہے۔ یہ نوجوان
سبز پلیٹ کے ساتھ نیلی بتی کا استعمال کرنے سے نہیں کتراتے۔ سرکاری گاڑیوں
کے ایک ضلع سے دوسرے ضلع جانے پر پابندی ہوتی ہے، مگر جو اضلاع ایک دوسرے
کے قریب ہیں، وہاں یہ تفریق نہ ہونے کے برابر ہے، افسران (چھوٹے ہوں یا ذرا
بڑے) بڑے سکون کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر سرکاری گاڑی پر دوسرے ضلع جاتے
اور شام کو گھر لوٹتے ہیں۔ بعض اوقات سرکاری پرچی پر ’صاحب‘ کے دوست بھی
گاڑی میں پٹرول ڈلوانے کی سہولت سے مستفید ہو لیتے ہیں۔ سبز پلیٹ والی ایک
ایسی گاڑی بھی سڑک پر پائی گئی ہے، جو اپنے ڈیوٹی والے علاقہ سے نکلتے ہی
رنگ بدل لیتی ہے، یعنی سبز سے عام سادہ نمبر پلیٹ والی گاڑی بن جاتی ہے۔
وزیراعظم نے چونکہ اپنے پنجاب کے وزیراعلیٰ کی تعریفوں کے پُل باندھنے کا
سلسلہ تاحال جاری رکھا ہوا ہے، چند روز قبل پنجاب کابینہ نے بہاول پور میں
اپنا اجلاس کرکے انفرادیت قائم کرنے کی کوشش کی، شہر کے لئے اس عذاب کو
اعزاز قرار دیا گیا، ایک لحاظ سے یہ شاید پہلا اجلاس تھا جس کی صدارت عمران
خان نے نہیں کی اور وزیراعلیٰ اپنی تعریفوں سے محروم رہ گئے۔ اس اجلا س کے
موقع پر ڈویژن بھر کے تین اضلاع کے افسران وہاں پہنچے، تینوں اضلاع کی
پولیس آئی، ٹی اے ڈی اے ملا ، وزراء آئے ، سیر سپاٹا ہوا، کسی نے سوچا کہ
یہی اجلاس لاہور میں ہی ہوتا تو کتنے کروڑ بچ جاتے؟ اب سادے (اور سیدھے)
وزیر اعلیٰ جہاں بھی جاتے ہیں وہی منظر ہوتا ہے جو پہلے ہوتا تھا، پہلوں پر
تنقید کرنے سے قبل اپنے گریبان میں جھانکنا ضروری ہوتا ہے۔ سبز پلیٹ گاڑیوں
کو دفتری اوقات کے بعد پابند کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا نشہ کے عادی سے نشہ
چھڑوانا، تاہم حکومت اگر دعوے کرتی ہے تو کچھ عمل بھی کرکے دکھائے۔
|