تحریر:سعدیہ خان
اس افسوسناک سانحہ پر عقل اب تک دنگ ہے اور دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ کچھ
سمجھ نہیں آرہی کیا لکھوں، دل و دماغ چیخ رہے ہیں، لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ
رہے ہیں۔ ایک لمحے میں ہنستا بستا گھر اجاڑ دیا درندوں کے دل نہیں کانپے
معصوموں کے سروں پر یتیمی کا تاج سجاتے ہوئے۔اْف خدایا! بچوں کے سامنے ان
کے ماں باپ کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ سلام ان بہادر محافظوں کو! اچھا
ہوتا بچ جانے والے بچوں کو بھی ماردیتے تا کہ تم محافظوں کے جو گندے بھیانک
چہرے دیکھیں ہیں جن آنکھوں نے وہ بھی ساتھ دفن ہو جاتیں۔ والدین نے ان کے
معصوم ذہنوں میں امن دینے والے محافظوں کا جو نقشہ بنایا تھا اس کا بھرم رہ
جاتا۔ بڑی غلطی کی ان کو زندہ چھوڑنے کی کیونکہ جب تک وہ زندہ رہیں گے تم
جیسے محافظوں کے بھیانک چہرے لوگوں کو دکھاتے رہیں گے۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی میں درد اور غم کی شدت اور غصے میں ہونے کے باوجود بھی
اس پر اتنے دنوں بعد کیوں آواز اٹھا رہی ہوں؟ پتا ہے کیوں؟ کیونکہ وہ ننھی
پریاں میری بہنیں نہیں ہیں۔ مرنے والے سے میرا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ بچوں کے
سامنے ان کے والدین کو گولیوں سے بھون دیا گیا اور خود کو معصوم ثابت کرنے
اور غلطی پر پردہ ڈالنے، لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ان پر
دہشتگردی کا الزام لگا دیا گیا۔ کیونکہ ایسے درندے جانتے ہیں پاکستانی عوام
اندھے بہرے گونگے ہیں پڑھی لکھی جاہل قوم ہے اس لیے کچھ بھی الزام لگا لیں
وہ مان لیں گے اور حق کے لیے کبھی آواز نہیں اٹھائے گی کیونکہ ان کے ضمیر
مر چکے ہیں۔
کشمیر، فلسطین، برما یہ تو چلیں یتیم لاوارث ہیں نا لیکن پاکستان تو لاواث
نہیں ہے نا پھر ادھر ایسا دل د ہلا دینے والا ظلم کیوں؟ کشمیر، برما،
فلسطین پر ہوتے ظلم وستم دیکھ کر اندھے بہرے بن جاتے ہیں۔ چلیں ٹھیک ہے
لیکن یہ تو پاکستان کے معصوموں پر ظلم ہوا ہے پھر گونکے کیوں بن گئے اگر آج
آواز نہیں اٹھائی تو کل میری آپ کی باری آجائے گی۔ جب بچوں کے سامنے اْن کے
بے گناہ معصوم ماں باپ کو دہشتگردی کا الزام لگا کر بے رحمی بے اور دردی سے
گولیوں سے بھون دیا جائے تو ایسے بچے جوان ہوکر ڈاکٹر انجینئر یا معلم تو
نہیں بنتے بلکہ باغی ضرور ہو جاتے ہیں۔ پھر ان کے اندر بغاوت کی جو آگ
بھڑکتی ہے وہ کبھی ٹھنڈی نہیں پڑتی اور نہ تھمنے کا نام لیتی ہے۔ جب وہ
اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو ان کو دہشتگرد قرار دے کر کچل دیا
جاتا ہے اور ایسا لوگوں کے دوہرے معیار کی وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ جب کسی
بڑے انسان کو چوٹ پڑتی ہے تو ان کی چوٹ چوٹ ان کا درد، درد۔ ان پر ہوا ظلم
زیادتی ان کا انصاف کے لیے لڑنا جہاد اور خود وہ دودھ کے دھلے مجاہدین جیسے
سمجھے جاتے ہیں۔جب کسی غریب عام شہری مظلوم کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے وہ
اپنے حق کے آواز اٹھاتے ہیں تو بغاوت کا نام دے کر تو ان کو انتہا پسند،
شدت پسند اور دہشتگرد کہا جاتا ہے۔
لیکن لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کو بغاوت پر کس نے اکسایا ہوتا ہے؟
دنیا کا کوئی بھی انسان نہ تو برا پیدا ہوتا اور نہ ہی وہ اپنی خوشی سے قلم
چھوڑ کے ہاتھ میں ہتھیار پکڑتا ہے۔ اندھا قانون معاشرے کی بے حسی اور بے
انصافیاں انہیں ایسا بننے پہ مجبور کرتیں ہیں۔ یہ کوئی نیا سانحہ نہیں ہے
ہر دوسرے دن ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں ہر بار کی طرح اب بھی زیادہ سے
زیادہ کیا ہوگا۔ لوگ سڑکوں پہ نکلیں گے پھر کوئی بڑا آدمی ہمارے لیڈر اعلان
کریں گے کہ ان کو انصاف ملے گا اور پھر اس انسانیت سے گرے ہوئے شخص کو
گرفتار کر کے احسان کریں گے اور لوگ ایسے خوشی خوشی گھروں کو لوٹ جائیں گے
جیسے سچ میں وہ انصاف دلاوا آئے ہیں۔پھر کیا کورٹ کچہری تاریخ پہ تاریخ اور
کچھ مہنوں بعد وہ جیل سے بری۔کیونکہ وہ قانون کے اور قانون ان کا۔
لیکن میرا دل کچھ اور کہہ رہا کہ اس بار لوگ اپنا انصاف لینے کا طریقہ
بدلیں۔ ان معصوم بچوں کے ساتھ ڈٹ کے کھڑے ہوں اور مطالبہ کریں حکمرانوں سے
کہ ’’بس اس بار کوئی کورٹ کچہری، کوئی جج، وکیل، کوئی جیل والا کھیل نہیں۔
اس بار کان کے بدلے کان، عزت کے بدلے عزت، مال کے بدلے مال اور جان کے بدلے
جان والی بات پر عمل کرتے ہوئے ان درندوں کو چوک میں لٹکا کر ایسی ہی بے
دردی سے مار کر انصاف کی انوکھی داستان رقم کی جائے تاکہ لوگ عبرت حاصل
کریں۔ ایسا کرنے سے ان بچوں کا درد تو کم نہیں ہو گا لیکن بڑے ہو کر ان کے
دلوں میں ناانصافی کی جو خلش ہوتی ہے وہ نہیں رہے گی۔
آئے دن ایسے دل دہلا دینے والے سانحے اور بغاوت کے خاتمے کے لیے نا انصافی
کا خاتمہ ضروری ہے۔ جس شخص کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی ہو وہ اگر تشدد کا
راستہ اختیار کر لے تو اس کے لیے صرف اسے زیادہ مورد الزام ٹھہرانا مشکل
بات ہے کیونکہ اگر ہر کسی کو انصاف اس کی دہلیز پر مل جائے تو شاید ہی کوئی
ہوگا جو تشدد کی راہ اختیار کرے اور یہ تب ممکن نہیں جب تک آپ چپ کا روزہ
نہیں توڑیں گے۔ خدارا اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے پوری قوم
کے ساتھ اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑی ہو اور انسانیت سے گرے ہوئے لوگوں کو بتا
دو کہ بس اب اور نہیں ظلم کا حساب دو۔ دنیا کو بتا دو کہ اپنے حق کے لیے
آواز اٹھانا بغاوت نہیں ہوتی۔
|