27جنوری کو ایک امریکی دہشت گرد
کی جانب سے 3پاکستانی نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان
تعلقات انتہائی گھمبیر صورتحال اختیار کر چکے ہیں اور اب تک کی برآمدہ
اطلاعات کے مطابق امریکہ نے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی تک پاکستان سے کسی بھی قسم
کے تعاون اور بات چیت سے انکار کر دیا ہے۔اس بات سے قطع نظر کہ اس کیس کا
کیا فیصلہ ہو گا یہاں ہم حکومت کو بہرحال خراجِ تحسین پیش کریں گے کہ اس نے
اب تک عوامی خواہشات اور انصاف کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھا ہے جس کے
باعث تاحال ریمنڈ کی رہائی ممکن نہیں ہو پائی ہے اگرچہ بعض اطلاعات کے
مطابق پیر کے روز ریمنڈ کی رہائی کا فیصلہ کیا جاچکا تھا لیکن اس دوران ایک
مقتول فہیم کی 18سالہ جوان بیوی شمائلہ جو کہ حاملہ بھی تھی کہ خودکشی کے
افسوس ناک واقعے نے ''رنگ میں بھنگ''ڈال دی اور بعض مبصرین کے مطابق حکومت
حال ہی میں تیونس اور مصر میں امریکی پٹھوﺅں کے خلاف برپا ہونے والے عوامی
انقلاب کو دیکھتے ہوئے بھی امریکی حکم کی تعمیل میں تذبذب کا شکار ہے لیکن
وجہ جو بھی ہو یہ بہرحال حقیقت ہے کہ ریمنڈ اب تک پاکستان کی حراست میں ہے
اور امریکہ اس دفعہ ویسے نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے جیسا کہ وہ اس
سے قبل اپنے متعدد ''سفارت کاروں ''کی گرفتاری پر حاصل کرتا رہا ہے جن میں
سے چند واقعات کا تذکرہ میں نے اپنے گزشتہ کالم''ریمنڈ کی رہائی انقلاب کا
پیش خیمہ ثابت ہو گی''میں کیا بھی تھا۔بات کو آگے بڑھانے سے قبل ہم یہاں اس
گرفتاری کے بعد امریکہ اور پاکستان کی طرف سے اس ضمن میں جاری ہونے والے ان
بیانات پر ڈالتے ہیں ۔
ریمنڈ کو ویانا کنونشن کے تحت سفارتی استثناء حاصل ہے اسے گرفتار نہیں کیا
جا سکتا،امریکی سفارتخانہ (31جنوری)
دباﺅ کے باوجود ریمنڈ کو امریکہ کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔صدارتی
ترجمان(2فروری)
ریمنڈ کی گرفتاری عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے ،امریکی سفارتخانہ(4فروری)
ریمنڈسفارتکار نہیں اس نے حد سے تجاوز کیا ،ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ
(5فروری)
ریمنڈ کے جنوبی وزیرستان میں پاکستان مخالف دہشت گرد گروپوں سے رابطوں کا
انکشاف ہوا(6فروری)
حکومت سے انصاف کی توقع نہیں ، مقتول فہیم کی بیوی شمائلہ نے خودکشی
کرلی(7فروری)
ریمنڈ کو رہا کیا جائے،امریکی سفیر فیصلہ عدالت کرے گی،زرداری(8فروری)
امریکہ نے ریمنڈ کو رہا نہ کرنے پر پاکستان سے تمام مذاکرات معطل کر
دیئے(9فروری) ڈیوس کا معاملہ عدالت میں ہے وہی فیصلہ کرے گی
،کورکمانڈرز(10فروری)
اس کے علاوہ 10فروری کو ہیلری کی طرف سے پاکستان کو اپنا بوجھ خود اٹھانے
کی نصیحت اور پینٹاگون کی طرف سے القائدہ کی سینئر قیادت کا پاکستان میں
ہونے کا بیان بھی دراصل اسی سلسلے ہی کی ایک کڑی ہے کہ امریکہ پاکستان پر
دباﺅ ڈالنے کیلئے ایسے بیانات'' بوقتِ ضرورت''جاری کرتا ہی رہتا ہے اور ''مقصد''
حاصل ہو جانے کی صورت میں ''سب اچھا'' ہوجاتا ہے۔اسی تناطر میں ایک اور
قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ 27جنوری کو ریمنڈ کی گرفتاری کے بعد پاکستان
میں ہونے والے بم دھماکوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا گیا ہے جس کا اندازہ
اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی گرفتاری کے بعد فقط دو ہفتوں میں
44بم دھماکے ہو چکے ہیں جس سے عسکری ماہرین کے اس خیال کو تقویت ملتی ہے جو
پاکستان میں ہونیوالی دہشتگردی کی اکثر وارداتوں میں امریکی خفیہ ایجنسیوں
کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں اس لحاظ سے حالیہ دنوں میں آنیوالی بم دھماکوں کی
یہ لہر بھی ریمنڈ کی رہائی کیلئے امریکی مطالبے پر پاکستان کے غیر متوقع
ردِعمل کا ردِعمل دکھائی دیتی ہے۔ ان تمام حالات کے تجزیہ کے بعد اب سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس امریکہ کیلئے اتنی اہمیت کیوں رکھتا ہے کہ
اس نے اس کی رہائی کیلئے اس قدر دھما چوکڑی مچا رکھی ہے اور نوبت یہاں تک
آن پہنچی ہے کہ وہ اپنے دیرینہ''دوست اور اتحادی''کے ساتھ یکدم قطع
تعلقی(کاش ایسا ہو جائے)پر بھی اتر آیا ہے؟ اس کا ایک سادہ سا جواب تو یہ
ہے کہ ہرملک اپنے شہریوں اور خصوصاََ سفارتکاروں کیلئے فکرمند ہوتا ہی ہے
لیکن یہاں معاملہ اتنا سادہ دکھائی نہیں دے رہا کہ خود امریکی رپورٹوں نے
ہی قاتل کے بارے میں خاصے شکوک و شبہات پیدا کر دیئے ہیں اس ضمن میں بعض
معتبر ذرائع ریمنڈ کو اسرائیلی خفیہ ادارے سے وابستہ ایک اہم ترین شخصیت
بھی قرار دے رہے ہیں جس کے ہاتھ میں اُن پاکستان دشمن گروپوں کی کمان ہے جو
پاکستان میں کاروائیاں کرتے ہیں بہر حا ل ریمنڈ جو بھی ہے اُس نے
پاکستانیوں کو برسرِعام قتل کیا ہے اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ قاتل کو اس
کی سخت سزا دی جائے کہ''کسی امریکی کا خون پاکستانی خون سے ہرگز قیمتی نہیں
ہے'' |