صرف ہم نہیں امریکہ بھی ہمارا محتاج ہے

تحریر محمد اسلم لودھی
اس میں شک نہیں کہ افغانستان میں مفادات کی تکمیل اور طالبان سے جان چھڑانے کے لئے امریکہ کو پاکستان کی اشد ضرورت ہے اس بات کا اعتراف امریکی صدر سمیت کئی امریکی جرنیل بھی کرچکے ہیں جبکہ افغانستان میں موجود امریکی فوجوں کو خوراک ‘ اسلحے ‘ پٹرول اور دیگر لوازمات کی سپلائی کا واحد ذریعہ پاکستان ہے اگر یہ سپلائی چند ہفتوں کے لئے روک لی جائے تو امریکہ سمیت تمام اتحادی ممالک پاکستان کے سامنے بھیک مانگتے دکھائی دیں گے لیکن پاکستانی حکمرانوں کی چاپلوسانہ پالیسی کی بدولت پاکستان اپنے 30 ہزار شہریوں اور سیکورٹی اہلکاروں کی قربانیوں اور 40 ارب ڈالر کے معاشی اور اقتصادی نقصان کے باوجود امریکہ کے سامنے اب بھی ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے اور امریکہ مونگ پھلی کے دانے کے برابر پاکستان کو جو امداد دے رہا ہے اب ریمنڈ ڈیوس کی وجہ سے اس سے بھی انکار کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ۔ تاکہ لالچی اور بھوکے پاکستانی حکمرانوں کو دباﺅ میں لاکر ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرایا جاسکے ۔ بظاہر تو پاکستانی حکمران اس امریکی مطالبے پر یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کیس عدالت میں ہے وہی اس کیس کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے لیکن اندرون خانہ یہ خبریں بازگشت کر رہی ہیں کہ کسی بھی وقت ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی اسثنا دے کر رہا کردیا جائے گا ۔ حکمرانوں کی دو عملی کا مظاہرہ اور کیا ہوگا کہ عدلیہ کی جانب سے ریمنڈ کا جسمانی ریمانڈ دیا جارہا ہے لیکن حکمرانوں کے ایما پر جیل میں اسے وی وی آئی پی کی تمام سہولتیں میسر ہیں کھانا بھی فائیو سٹار ہوٹل سے لایا جاتا ہے جبکہ اس کی ذہنی اور جسمانی عیاشی کا ہر سامان بھی جیل میں بطور خاص فراہم کیا جارہا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قتل کے کسی پاکستانی ملزم کو بھی یہی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں جو ریمنڈ کو دی جارہی ہیں ۔ایک قاتل کی اسی آﺅ بھگت اور مہمان نوازی کو دیکھ کر فہیم مرحوم کی دولہن شمائلہ نے زہریلی گولیاں کھا کر خود کشی کرلی اور انصاف انصاف پکارتی ہوئی اس دنیا سے رخصت ہوگئی لیکن ہمارے حکمرانوں میں سے کسی کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ مرحومہ کے لواحقین سے تعزیت کے لئے ہی چک جھمرہ چند منٹوں کے لئے چلے جاتے بلکہ فہیم کے پہلو میں دفن ہونے کی خواہش کی تکمیل بھی حکمرانوں نے نہیں ہونے دی اور شمائلہ کو وصیت کے برعکس چک جھمرہ میں ہی پولیس کے سخت پہرے میں دفن کردیا گیا ۔ میں صدر پاکستان آصف علی زرداری سے سوال کرتا ہوں کہ اگر ریمنڈ ڈیوس بلاول پر حملہ کرتا تو کیا اس کو پھر بھی سفارتی تحفظ فراہم کیا جاسکتا تھا یہی سوال وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی سے کرنا چاہتا ہوں کہ اگر امریکی قاتل کے ہاتھوں مرنے والوں میں خدانخواستہ ان کا بیٹا شامل ہوتا تو پھر ان کے دل پر کیا گزرتی ۔ حکمرانوں کے لئے رعایا بھی اولاد کی طرح ہوتی ہے ۔ اب جبکہ امریکہ نے پاکستان کو دی جانے والی امداد روکنے کا عندیہ دیا ہے اگر پاکستانی حکمرانوں گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے ریمنڈ ڈیوس کو سفارت کار تسلیم کرتے ہوئے رہا کرنے کا اہتمام کریں گے تو یہ سخت زیادتی ہوگی کیونکہ ریمنڈ ایک مسلمہ دہشت گرد ہے اور اس کے موبائل پر جنوبی وزیرستان کی کئی کالیں بھی ٹریس کی گئی ہیں گویا ملک میں دھشت گردی کے جتنے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں اور املاک کی تباہی کے ساتھ ساتھ جتنے پاکستانی شہری اور سیکورٹی اہلکار جام شہادت نوش کرچکے ہیں ان تمام وارداتوں میں ریمنڈ جیسے نام نہاد امریکی سفارت کاروں کا ہی ہاتھ دکھائی دیتا ہے ۔ امیر جماعت اسلامی ٹھیک کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں امریکی سفارت خانے اور قو نصل جنرل کے دفاتر دھشت گردی اور تخریب کاری کے مرکز بن چکے ہیں جہاں سفارتی فرائض کی انجام دہی کی بجائے دہشت گردی اور تخریب کاری کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔پاکستانی حکمرانوں کو ریمنڈ کے حوالے سے فیصلہ کرنے سے پہلے یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ صرف پاکستان کو ہی امریکہ کی ضرورت نہیں بلکہ امریکہ کو پاکستان کی زیادہ ضرورت ہے افغانستان میں اگر امریکہ کو ذلت اور رسوائی سے کوئی بچا سکتا ہے تو وہ پاکستان ہے اس لئے اگر امریکہ ریمنڈ کی رہائی کے بہانے مالی امداد سے انکار کرتا ہے تو پاکستان بھی قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن بند کر نے کے ساتھ ساتھ امریکی فوجوں کی سپلائی روک دے ۔ پھر دیکھتے ہیں کہ امریکیوں کو نانی یاد آتی ہے یا نہیں ۔ یہی وقت ہے کہ قومی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں دہشت گردی کی جنگ سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیئے اور پاکستان میں قائم سفارت خانوں کی صورت میں امریکی چھاﺅنیوں کو بند کردینا چاہیے اور ریمنڈ جیسے اور جتنے بھی مکار اور قاتل ابھی قونصل خانوں میں چھپے بیٹھے ہیں ان کو امریکہ بدر کردینا چاہیئے تاکہ پاکستان میں آئندہ دھشت گردی کی وارداتوں کو ممکن حد تک روکا جاسکے ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 126852 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.