یوم یکجہتی کشمیر اور لندن کشمیر کانفرنس

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

مقبوضہ کشمیر میں صدارتی راج نافذ ہونے کے بعد سے قتل و غارت گری اور ریاستی دہشت گردی کی نئی داستاں رقم کی جارہی ہے۔ ہر روز نہتے کشمیریوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ آپریشن آل آؤٹ کے نام پر جہاں نہتے کشمیریوں کا خون بہایا جارہا ہے وہیں کشمیریوں کے باغات، گھر، دوکانیں اور املاک برباد کی جارہی ہیں۔ بھارتی فوج پیلٹ گن کے استعمال سے کشمیری نوجوانوں کی بینائی چھین رہی ہے تو دوسری جانب اسرائیل سے درآمد کردہ کیمیائی ہتھیار استعمال کر کے شہداء کی لاشیں ناقابل شناخت بنائی جارہی ہیں۔ ساری دنیا انڈیا کی یہ دہشت گردی دیکھ رہی ہے لیکن کوئی مظلوم کشمیریوں کی آواز سننے اور بھارتی دہشت گردی روکنے کیلئے کردار ادا کرنے کی خاطر تیار نہیں ہے۔ دنیا بھر میں پانچ فروری کی آمد پر ہر سال یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے تاہم امسال حکومت پاکستان نے یہ دن بھرپور انداز میں منانے کا اعلان کیا اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے برطانوی دارالعوام میں کشمیر کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے حریت کانفرنس (ع) کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق سمیت دیگر کشمیری قائدین اور اہم شخصیات کو دعوت دی گئی ۔ اسی طرح کشمیر یوں پر بھارتی مظالم اجاگر کرنے کیلئے ایک نمائش کا بھی اہتمام کیا جارہا ہے۔ پاکستان کی طرف سے ان کوششوں پر بھارت کی بی جے پی حکومت نے بہت شور مچایا اور جہاں پاکستانی ہائی کمشنر کو طلب کر کے شدید احتجاج کیا وہاں برطانوی حکومت سے رابطہ کر کے بھی اس پروگرام کو رکوانے کی کوشش کی لیکن اپنے ان مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ پاکستان نے بھی بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کر کے مودی سرکار کے احتجاج کو کلی طور پر مسترد کر دیا اور کشمیریوں کا وکیل ہونے کی حیثیت سے مظلوم کشمیریوں کے حق میں بھرپور آواز بلند کرنا اپنا حق قرار دیا۔ بھارت سرکار کی بوکھلاہٹ کا عالم یہ ہے کہ اس نے میر واعظ عمر فاروق سمیت تمام حریت رہنماؤں کے پاسپورٹ اور دیگر سفری دستاویزات ضبط کر رکھی ہیں اور انہیں ریاست سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی جس پر وہ لندن کشمیر کانفرنس میں شریک نہیں ہو سکیں گے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے شاہ محمود قریشی کی طرف سے میر واعظ عمر فارو ق سے ٹیلیفونک گفتگو کیخلاف احتجاج پر واویلا کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔ پانچ فروری کو ہونے والی لندن کشمیر کانفرنس کے ان شاء اﷲ دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور بھارتی ظلم و دہشت گردی بے نقاب کرنے میں مدد ملے گی۔

مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت اس وقت آخری حربہ کے طور پر بدترین ظلم و دہشت گردی کے ذریعہ کشمیری قوم کو ہراساں کرکے تحریک آزادی کمزور کرنا چاہتی ہے۔ شدید برفباری کے موسم اور خون منجمند کردینے والی سردی میں کشمیریوں کے گھروں کو بارود سے تباہ کرنے کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ ماضی میں بھارتی فورسز اہلکار چند ایک گھروں کو تباہ کرتے تھے لیکن پچھلے کچھ عرصہ سے وحشی درندوں نے پوری پوری بستیوں کو نذر آتش کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی ایسی ویڈیوزمنظر عام پر آئی ہیں جن میں بھارتی فوج کی طرف سے کشمیریوں کو گھروں سے زبردستی نکال کر ان کی بستیاں بارود سے اڑاتے اور پھر ان کی بے بسی پر قہقہے لگاتے دیکھا جاسکتا ہے۔ بھارتی فوج کشمیریوں کو گھنٹوں برفباری کے موسم میں کھلے میدانوں میں ٹھٹھرنے پر مجبور کرتی ہے۔ 1989ء سے لیکر اب ڈیڑھ لاکھ سے زائد گھر تباہ کئے جاچکے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اسرائیل سے درآمد کردہ 2PNGRDنامی کیمیائی مواد استعمال کر رہی ہے۔ بھارتی اہلکار جب اور جہاں چاہتے ہیں کشمیریوں کے گھروں کو کیمیائی مواد ملے بارود سے اڑادیتے ہیں جس سے مکانوں کی تباہی کے ساتھ ساتھ وہاں موجود کشمیریوں کی لاشیں گوشت کے ٹکڑوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور ان کی شناخت بھی ممکن نہیں رہتی۔ بھارت سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں حریت پسند کشمیری قائدین کی سیاسی سرگرمیوں پرمکمل پابندی لگا رکھی ہے۔ بزرگ کشمیری قائد سید علی گیلانی طویل عرصہ سے اپنی رہائش گاہ پر نظربند ہیں۔ میر واعظ عمر فاروق اور محمد یٰسین ملک کو بھی مسلسل گرفتاریوں و نظربندیوں کا سامنا رہتا ہے اور انہیں نماز جمعہ کی ادائیگی تک کی اجازت نہیں دی جاتی۔ مسلم لیگ جموں کشمیر کے سربراہ ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، دختران ملت کی سربراہ سیدہ آسیہ اندرابی، جموں کشمیر مسلم لیگ کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، پیپلز ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی کے صدر شبیر احمد شاہ بھی جیلوں میں قید ہیں ۔ بھارتی سپریم کورٹ کا واضح فیصلہ ہے کہ کشمیریوں کو ان کی رہائش گاہوں کے قریب جیلوں میں رکھا جائے تاہم بھارتی حکومت اپنی ہی عدالتوں کے فیصلے تسلیم نہیں کر رہی اور کشمیری قیدیوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک رو ا رکھا جارہا ہے۔بھارتی فوج پیلٹ گن جیسے مہلک ہتھیار استعمال کر کے کشمیری نوجوانوں کی بینائی چھین رہی ہے۔بھارتی درندگی کا عالم یہ ہے کہ اٹھارہ ماہ کی معصوم بچی حبا نثار بھی پیلٹ متاثرین میں شامل ہیں اور اس کی ایک آنکھ کی بینائی ضائع ہونے کا خطرہ ظاہرکیا جارہا ہے۔ بھارت اس وقت جموں کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی بھی خوفناک سازشیں کر رہا ہے۔ بھارتی حکام کی طرف سے ہمیشہ یہ پروپیگنڈہ کر کے بین الاقوامی دنیا کو گمراہ کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں کہ کشمیرمیں بھارتی فوج کیخلاف برسرپیکار مجاہدین مبینہ طور پر سرحد پار کر کے آتے ہیں لیکن مقامی کشمیریوں نے جس طرح حالیہ برسوں میں قربانیاں پیش کی ہیں اس سے یہ بات ساری دنیا پر واضح ہو گئی ہے کہ کشمیریوں کی تحریک ان کی اپنی ہے اورمقامی کشمیری ہی جدوجہد آزادی کو بھرپور انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر جب سے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تحریک آزادی میں شامل ہو رہے ہیں بھارت سرکار کے اس مذموم پروپیگنڈہ کو کوئی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔کشمیر میں اس وقت ہر طرف پاکستانی پرچموں کی بہار دکھائی دیتی ہے۔ کشمیری مسلمان آج بھی اپنی عیدیں پاکستان کے ساتھ مناتے ہیں اور اپنی گھڑیوں کو پاکستانی وقت کے مطابق رکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان مظلوم کشمیریوں کی ہرممکن مددوحمایت کا فریضہ انجام دے۔محض اقوام متحدہ کے کسی اجلاس میں کشمیر کا نام لے دینا کافی نہیں ہے دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں کو متحرک کرتے ہوئے تمام بین الاقوامی فورمز پر کشمیریوں کے حق میں مضبوط آواز بلند اور انڈیا کی ریاستی دہشت گردی بند کروانے کیلئے بھرپور کردارادا کرنا چاہیے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں بعض حکومتیں انڈیا سے دوستی پروان چڑھانے کیلئے کشمیری تنظیموں اورشخصیات کی سیاسی و رفاہی سرگرمیوں میں رکاوٹیں کھڑی کرتی رہی ہیں۔ جماعۃالدعوۃ کے سربراہ پروفیسر حافظ محمد سعید نے2017ء کو کشمیر کا سال قرار دیااور ملک بھر میں پروگراموں کے انعقاد کا اعلان کیا تو محض بھارتی خوشنودی کیلئے انہیں نظربند کر دیا گیاتاہم بعد میں عدالت میں کیس چلا اور ان کی رہائی ممکن ہوئی۔ اسی طرح 2018ء میں بھی حافظ محمد سعید نے کشمیریوں کیلئے عشرہ یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا تو ایک مرتبہ پھر انہیں حراست میں لیکر نظربند کر دیا گیا جس پر دس ماہ تک لاہور ہائی کورٹ میں کیس زیر سماعت رہا اور پھر عدالتی احکامات کے نتیجہ میں ان کی رہائی ہوئی۔ جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعیدپاکستان میں مظلوم کشمیریوں کے حق میں سب سے مضبوط آواز سمجھے جاتے ہیں تاہم جس طرح انہیں کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنے سے روکنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں اس سے کشمیریوں کا اعتماد مجروح ہوااورمقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس سمیت تمام کشمیری جماعتوں اور شعبہ ہائے زندگی کی جانب سے اس عمل کی شدید مذمت کی گئی۔ لہٰذا پاکستان میں برسراقتدار آنے والی تمام حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح کی قومی کشمیر پالیسی پر کاربند ہوں اورمحض بیرونی قوتوں کی خوشنودی کیلئے ایسے اقدامات اٹھانے سے گریز کیا جائے جس سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو نقصان پہنچتا ہو اور کشمیری و پاکستانی قوم کے مورال پر اثر پڑتا ہو۔ حکومت پاکستان کی طرف سے لندن میں کشمیرکانفرنس کا انعقاد خوش آئند اقدام ہے ۔ بھارتی ریاستی دہشت گردی کو دنیا بھر میں بے نقاب کرنے کیلئے ایسے پروگراموں کا انعقاد بہت اہمیت رکھتا ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ آئندہ بھی عالمی سطح پر ایسے پروگراموں کے انعقاد اور تمام بین الاقوامی فورمز پر کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنے کا سلسلہ جاری رکھے تاکہ مقبوضہ کشمیر پر سے غاصبانہ قبضہ ختم کرنے کیلئے بھرپور کردار ادا کیا جاسکے۔

Akasha Kaleem
About the Author: Akasha Kaleem Read More Articles by Akasha Kaleem: 3 Articles with 1461 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.