بھارتی ’’سورماؤں‘‘ کو نہتے اور معصوم کشمیریوں پر آگ
برساتے، ظلم وستم کے پہاڑ توڑتے اوروحشت وبَربریت کی انتہاؤں کو چھوتے سات
عشروں سے زائد گزر چکے۔ وادی میں آج بھی جنازے اُٹھتے ہیں، گھر گھر میں صفِ
ماتم بچھتی اور دَر دَر پہ نَوحہ خوانی ہوتی ہے لیکن عالمی ضمیر مُردہ
ہوچکا۔ پاکستان مقدور بھر کشمیری بھائیوں کی سفارتی اور اخلاقی مدد کرتا
رہتا ہے لیکن عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے میں ناکام۔ آزادی کی اِس جنگ کی باگ
ڈور اب کشمیری نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے جن کا عزم صمیم اور کچھ نہ کچھ کر
گزرنے کی اُمنگ جواں ۔
آج بھی وادیٔ کشمیر خونم خون ہے، عصمتیں لُٹ رہی ہیں، شہادتیں ہو رہی ہیں
اور اسرائیل سے درآمد شدہ ’’پیلٹ گنوں‘‘ سے معصوم کشمیری معذور ہو رہے ہیں۔
خونی پیلٹ کی پہلی شکار سکول کی طالبہ جب SMHS ہسپتال کے ٹراما سنٹر میں
لائی گئی تو اُسے دیکھ کر بھارتی سرجن نے کہا ’’یہ موت سے بَدتر ہے۔۔۔۔۔
بَدتر ہے کلاشنکوف کی گولی سے بھی جو کھوپڑی میں گھُس جاتی ہے‘‘۔ اُس آٹھ
سالہ معصوم بچی کی تصویر جب میڈیا پر وائرل ہوئی تو ہر صاحبِ دل کراہ
اُٹھا۔ اُس بچی کی آنکھیں خون سے بھری ہوئی تھیں، دونوں پپوٹے سوج کر ایک
دوسرے کے ساتھ سختی سے جُڑ چکے تھے اور چہرہ ایسے جیسے کسی چھلنی سے خون
چھانا گیا ہو۔ اب تک ہزاروں کشمیری اِس ’’خونی پیلٹ‘‘ کی درندگی کا شکار ہو
چکے، اُن کی داستانیں وادی میں جابجا بکھری ہوئیں لیکن عالمی ضمیر کو جنبش
تک نہ ہوئی اور اقوامِ متحدہ سمیت کسی نے بھی بھارتی درندوں سے اِس بربریت
کا حساب تک نہ مانگا۔
یہ طے کہ نسلِ نَو کے لہو سے رنگین ہوتا ہر دِن آزادی سے قریب تر ہوتا جا
رہا ہے اور خونِ کشمیر سے سینچا ہوا آزادی کا یہ نخل اب تَن آور درخت بن
چکا ہے۔ اب تو بہت سے بھارتی تجزیہ نگار بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں
کہ بالآخر کشمیر کو آزاد کرنا ہی ہوگا۔
1947ء میں مقبوضہ کشمیر کی 84 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ کشمیر کے
تمام دریاؤں کا رُخ پاکستان کی طرف تھا اِس لیے قائدِاعظمؒ نے کشمیر کو
پاکستان کی شہ رَگ قرار دیا اور کشمیر کی سیاسی جماعت مسلم کانفرنس نے 18
جولائی 1947ء کو الحاقِ پاکستان کی قرارداد منظور کی۔ مسلم کانفرنس نے
کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ سے مطالبہ کیا کہ کشمیر کو آزادی دی جائے لیکن
بھارت نے کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کر دیں اور مہاراجہ ہری سنگھ سے کشمیر
کا بھارت سے الحاق بھی کروا لیا۔ بہت سے غیرجانبدار تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ
مہاراجہ سے الحاق پر زبردستی دستخط کروائے گئے کیونکہ اُس وقت کشمیر پر
بھارتی فوج کا غاصبانہ قبضہ تھا اور مہاراجہ کے پاس دستخط کرنے کے سوا کوئی
چارہ نہ تھا۔ کشمیر میں فوجیں اتارنے کے بعد آبادی کا تناسب بدلنے کے لیے
بھارت نے لاکھوں نہتے کشمیری مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی اور ہزاروں عفت
مآب کشمیری بیٹیوں کی عصمت دری کی لیکن کشمیریوں کے جذبۂ حریت میں کمی نہ
آئی۔ وہ آج بھی 18 جولائی کو ’’یومِ الحاقِ پاکستان‘‘ پورے جوش وجذبے سے
مناتے ہیں۔
27 اکتوبر 1947ء کو جب بھارت نے رات کے اندھیرے میں کشمیر میں فوجیں اتاریں
تو کشمیریوں نے جنگِ آزادی کا آغاز کیا۔ عین اُس وقت جب کشمیری مجاہدین
قبائلیوں کے ساتھ مل کر کامیابی کی طرف گامزن تھے تو ہراساں بھارتی
وزیرِاعظم پنڈت جواہرلال نہرو خود کشمیر کا مسٔلہ اقوامِ متحدہ میں لے کر
گیا جہاں اُس نے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو تسلیم کیا۔ جواہرلال نہرو نے
2 نومبر 1947ء کو اپنی نشری تقریر میں کہا ’’ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ
کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کریں گے۔ ہم پوری دنیا، کشمیریوں اور
پاکستان سے بھی وعدہ کرتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم
کروانے کے لیے تیار ہیں‘‘۔ سات عشرے گزر چکے لیکن نہ تو بھارت نے ایفائے
عہد کیا اور نہ ہی اقوامِ متحدہ میں اتنی ہمت پیدا ہوئی کہ وہ کشمیر کے
بارے میں اپنی قراردادوں پر عمل کروا سکے۔ جب اقوامِ متحدہ اپنی قرارداد پر
عمل درآمد کروانے میں ناکام رہی تونوے کی دہائی میں مقبوضہ کشمیر میں
بھرپور مزاحمتی تحریک اُٹھی جس کی باگ ڈور کشمیری نوجوانوں کے ہاتھ میں
تھی۔ 90 کا عشرہ ختم ہونے تک یہ تحریک کچھ کمزور پڑی تو بھارتیوں نے یہ
سمجھا کہ مزاحمت دَم توڑ چکی۔ اِس خوف کے پیشِ نظر کہ کہیں مزاحمت دوبارہ
سر نہ اُٹھائے بھارتیوں نے ظلم وستم کی انتہا کر دی۔ کشمیریوں کی نئی نسل
وحشت وبربریت کے ایسے ہی مناظر دیکھ کر جوان ہوئی ہے۔ اِس وقت مقبوضہ کشمیر
کی 60 فیصد سے زائد آبادی 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے جسے سب
پتہ ہے کہ غاصب بھارتی افواج جذبۂ حریت کو کچلنے کے لیے عصمت دری سمیت کون
کونسے حربے استعمال کرتی ہیں۔ بھارت میں بی جے پی کی حکومت اور نریندر مودی
کی وزارتِ عظمیٰ کے بعد تو ہندوستانی افواج کو کشمیر میں کھُل کھیلنے کی
کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ جب نوجوانوں کو یہ علم ہوا کہ بھارتی حکومت آرٹیکل
370 کے تحت کشمیر کو حاصل خصوصی تشخص ختم کرنا چاہتی ہے تو اُنہوں نے
’’ابھی یا کبھی نہیں‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے تحریکِ آزادیٔ کشمیر کی باگ
ڈور مکمل طور پر سنبھال لی۔ برہان مظفر وانی بھی اِنہی نوجوانوں میں سے ایک
تھا۔
سکول کے اِس ہونہار 15 سالہ ’’پوزیشن ہولڈر‘‘ طالب علم برہان وانی نے جب
وحشت وبربریت کا ننگا ناچ دیکھا تو اپنی مادرِوطن کو دین کے دشمنوں سے پاک
کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے اُس نے اپنے چند
دوستوں کو ساتھ ملا کر اقوامِ عالم کو بھارت کا مکروہ چہرہ دکھانا شروع
کیا۔ برہان اور اُس کے دوست بھارتی مظالم کی ویڈیوز بناتے اور پھر اُسے
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کر دیتے۔ بھارت کو اپنا یہ مکروہ چہرہ
کسی صورت قبول نہ تھا اِس لیے برہان کے سَر کی قیمت 10لاکھ مقرر کی گئی۔
برہان نے پوری زندگی میں ایک گولی بھی نہیں چلائی، پھر بھی وہ مزاحمت کی
مضبوط ترین علامت بن کے اُبھرااور وادی کی تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے
اَمر ہوگیا۔ 8 جولائی 2016ء کو برہان وانی اننت ناگ کے علاقے کوکیرنگ میں
اپنے ساتھیوں سمیت فاروق وانی کے گھر میں موجود تھاکہ راشٹریہ رائفل اور
سنٹرل ریزرو پولیس نے مشترکہ آپریشن کرکے اُسے تین ساتھیوں سمیت شہید کر
دیا۔ اُس کی شہادت کی خبر سنتے ہی لوگ احتجاج کرتے ہوئے گھروں سے نکل آئے۔
یہ سارا علاقہ بھارت نواز پی ڈی پی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور اِس کے باسی
احتجاجی تحریکوں میں بہت کم حصّہ لیتے ہیں لیکن برہان وانی کی شہادت پر وہ
آتش فشاں بن گئے۔ یہ نظارہ خود حکومت کے لیے بھی انتہائی حیران کُن تھا۔
حکمرانوں پر حیرتوں کے پہاڑ اُس وقت بھی ٹوٹے جب برہان وانی کی نمازِ جنازہ
میں 2 لاکھ سے زائد کشمیری شریک ہوئے اور 40 مرتبہ نمازِجنازہ ادا کی گئی۔
برہان وانی سے پہلے 14 اپریل 2015ء کو اُس کا بڑا بھائی خالد مظفر وانی گھر
سے نکلا اور پھر اُس کا جسدِخاکی گھر آیا۔برہان وانی کی نمازِجنازہ کے بعد
احتجاجی مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے اُس کے والد مظفر وانی نے کہا ’’میں اپنے
دونوں بیٹے آزادی کی نذر کر چکا ہوں۔ اب اپنی اکلوتی بیٹی بھی آزادی کے لیے
وقف کرنے آیا ہوں‘‘۔
برہان مظفر وانی کے جنازے میں شریک کشمیری یہ کہتے پائے گئے کہ غاصب بھارتی
فوج یہ نہ سمجھے کہ اُس نے وانی کو ختم کر دیا۔ ایک وانی نے ہزاروں وانی
پیدا کر دیئے جو ظلم کے خلاف اُس وقت تک جہاد کرتے رہیں گے جب تک سانس کی
ڈور نہیں ٹوٹتی۔ اُس کی شہادت پر بھارت نواز عمر عبد اﷲ نے کہا ’’زندہ
برہان سے قبر میں لیٹا برہان زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔ یہاں اگر وہ فیس بُک
وال استعمال کرتا تھا تو قبر کی ’’وال‘‘ اِس مقصد کے لیے خودبخود استعمال
ہونے لگے گی‘‘۔ برہان وانی نہ تو پہلا شخص تھا جس نے بندوق اُٹھائی اور نہ
ہی آخری ہوگا۔ آزادی کی متوالی نسلِ نَو جس میں کچھ نہ کچھ کر گزرنے کی
اُمنگیں جواں ہیں، اپنی منزل پر پہنچ کر ہی دَم لے گی کہ جھوم کر اُٹھتے
دریاؤں کے آگے کوئی بند نہیں باندھ سکتا۔ بھارتی سکیورٹی فورسز جتنا جی
چاہے درندگی کی انتہا کردیں، غلامی کی زنجیریں ٹوٹ کر رہیں گی کیونکہ ظلم
کے ماتوں کا جذبہ وجنوں اپنی رفعتوں کو چھو رہا ہے۔ |