برصغیر کی تقسیم کا سب سے پہلے تصور ایک انگریز جان
برائیٹ نے 24 جون 1858 میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ مکمل اختیارات کے ساتھ
پانچ یا چھ صوبے بنائے جائیں جو کہ بلاآخر آزاد ریاستیں بن جائیں۔ ایک عشرہ
بعد 1867 میں سرسید نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ ہندواو ر مسلمان دو الگ اقوام
ہیں اور یہ کسی بھی معاملہ میں یہ ایک نہیں ہوں گی۔اس کے بعد 1883 میں WS
Blunt نے تجویز پیش کی کہ ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔ شمالی
حصہ مسلم حکومت کے تحت اور جنوبی حصہ ہندو حکومت کے تحت ہو۔ ہندوستان میں
ایک ا سلامی ریاست کا واضح تصور چوہدری رحمت علی نے 1915 میں دیا جس کے تحت
شمالی ہندوستان ایک مسلم ریاست کی صورت میں قائم ہونی چاہیے۔ ہندوستان کے
اور بھی بہت سے راہنما جن میں مسلمان، ہندو اور انگریز شامل تھے ہندوستان
کی تقسیم کے بارے میں اپنی آرا ء پیش کرتے رہے یہاں تک کہ 28 جنوری 1933
میں چوہدری رحمت علی نے شمال مغربی ہندوستان کے تین کروڑ مسلمانوں کے لئے
الگ وطن کا نام پاکستان تجویز کیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مسلم ریاست کے
خدوخال واضح کئے گئے۔ چوہدری رحمت علی نے اس موقف کی وضاحت اپنے مشہور
زمانہ کتابچہ Never Or Now میں کی اور مزید تفصیل اپنی کتاب The Fatherland
of Pak Nation Pakistan,
میں لکھی۔ مذکورہ بالا تفصیل عالمی شہرت یافتہ مورخ، سوانح نگار، محقق اور
بارہ مستند کتابوں کے مصنف پروفیسر کے کے عزیز ( پروفیسر ڈاکٹر خورشید کمال
عزیز) نے اپنی کتاب چوہدری رحمت علی پر لکھی گئی سوانح حیات Rahmat Ali, A
Biography میں دی ہے۔
کے کے عزیز ایک بلندپایہ تاریخ دان اور تحقیقی کام کرنے والے تھے۔ انہوں نے
کراچی، پشاور اور جامعہ پنجاب کے ساتھ ساتھ ہائیڈل برگ (جرمنی)، کیمرج،
آکسفورڈ، ٹورنٹو اور خرطوم اور بہت سی دیگر بین الاقوامی جامعات میں تاریخ
کی تعلیم دی۔ وہ جنوبی ایشیا کی تاریخ پر سند مانے جاتے ہیں۔ ان کی کتب
پاکستان سمیت دنیا کی بڑی جامعات کے تاریخ کے نصاب میں شامل ہیں۔ وہ 1927
میں فیصل آباد کے ایک گاؤں بلم آباد میں پیدا ہوئے اور وکٹوریہ یونیورسٹی
مانچسٹر سے پی ایچ ڈی کی۔ ان کی تصانیف میں دی میکنگ آف پاکستان، اسٹڈیز ان
ہسٹری اینڈ پولیٹکس، پارٹی پولیٹکس ان پاکستان، ہسٹری آف آئیڈیا آف پاکستان،
چودھری رحمت علی، عبد اﷲ یوسف علی، کافی ہاؤس آف لاہور، مرڈر آف ہسٹری اور
وہ حوادث آشنا کے نام سرفہرست ہیں۔ 1974میں ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں
قومی کمیشن برائے تحقیق تاریخ و ثقافت کا چیئرمین مقرر کیا۔ اس عہدے پر وہ
1978تک فائز رہے۔ ان کی گراں قدر خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے 1994
میں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی کا اعزاز عطا کیا۔ ان کا انتقال 15
جولائی، 2009کو لاہور میں ہوا۔
چوہدری رحمت علی کے حالات زندگی اور جدوجہد پر انہوں نے ایک ضخیم اور مستند
کتاب انگریزی میں لکھی جس کا اردو ترجمہ چوہدری رحمت علی ٹرسٹ لاہور کے
سربراہ چوہدری گلزار محمد اور زید بن عمر کی خواہش پر بیرسٹر اقبال الدین
احمد نے کیا ہے۔ چوہدری گلزار محمد نے بہت محبت کے ساتھ اس کتاب کا ایک
نسخہ بھجوایا جس کے مطالعہ سے ذہن کے دریچے کھل گئے اور تحریک پاکستان
کوگہرائی سے جاننے کا موقع ملا۔کے کے عزیز نے اپنی کتاب میں نقاش پاکستان
چوہدری رحمت علی کے بارے میں بہت سی نایات اور تاریخی دستاویزات بھی شامل
کی ہیں جن میں ان کی علامہ اقبال سے ملاقاتوں کی تفصیل اور تصاویر بھی
موجود ہیں۔ کتاب میں علامہ اقبال کی اپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئی وہ تحریر بھی
شامل کی جو علامہ نے چوہدری رحمت علی کو بال جبریل کا نسخہ بھیجتے ہوئے یوں
لکھی۔
بخدمت برادر گرامی قدر چوہدری رحمت علی صاحب
خدایا! ہم پر فال و سیادت کی سیدھی راہ کھول دے ! (القرآن)
نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے
نگاہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میرکارواں کے لئے
جناب کے کے عزیز لکھتے ہیں کہ چوہدری رحمت علی 1968 میں میری توجہ کا مرکز
تب بنے جب میں اپنی کتاب A History of the Idea of Pakistanکا مسودہ تیار
کررہا تھا۔ انہوں نے اس کتاب کی چار جلدوں میں چوہدری رحمت علی لئے نصف باب
مختص کیا لیکن جب انہوں نے چوہدری رحمت کی جدوجہد اور کام پر تحقیق کی تو
وہ ان کے بارے میں الگ کتاب لکھنے پر مجبور ہوگئے۔ اس کتاب کو لکھنے کے لے
انہوں نے پاکستان، برطانیہ اور دیگر ممالک میں بہت سی لائیبریریوں اور
تحقیقی مراکز میں کئی برس کام کیا۔ ان کی یہ محنت Rahmat Ali, A
Biographyکی صورت میں منظر عام پر آئی جسے ساوتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ آف ہائیڈل
برگ یونیوسٹی جرمنی نے شائع کیا۔
ان کی تحقیق کے مطابق علامہ اقبال نے چوہدری رحمت علی کو خط لکھ کر ان کی
جماعت پاکستان نیشنل موومنٹ میں شمولیت کی خوہش کا اظہار کیا لیکن علامہ کی
موت نے انہیں یہ مہلت نہ دی۔ پاکستان کا نام تخلیق کرکے دراصل انہوں نے
نظریہ پاکستان پیش کیا جسے بعد میں مسلم لیگ نے اپنا لیا۔ قائداعظم نے
مسلمانوں نے لئے الگ وطن کے لئے اپنے دلائل میں وہ الفاظ اور دلائل دہرائے
جو چوہدری رحمت علی کے تھے یہی وجہ ہے کہ 23مارچ 1940 میں قرارداد لاہور کی
صورت میں مطالبات اور دلائل کو دیکھتے ہوئے ہندو پریس نے کہا یہ وہی دلائل
ہیں جو چوہدری رحمت علی پاکستان کے حق میں دیتے ہیں اسی وجہ سے ہندو پریس
نے قرار داد لاہور کو قرداد پاکستان بنا دیا ۔
چوہدری رحمت علی 16 نومبر 1897 کو مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور میں پیدا
ہوئے اور 3 فروری 1951 کو کیمرج برطانیہ میں انتقال گرگئے اور وہیں
امناتاََ دفن کیے گئے۔ انتخابات سے قبل عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ
اقتدار میں آکراس عظیم قومی رہبر کا جسد خاکی پاکستان میں احترام کے ساتھ
دفن کریں گے۔ امید ہے کہ موجودہ حکومت تحریک پاکستان کا آغا ز اور اس مملکت
کا نام تجویز کرنے والے عظیم قائد کو وہ مقام دے گی جس کے وہ مستحق ہیں۔ |