چوہدری رحمت علی نے 1933ء میں اپنے مشہور رسالے ’’اب یا
کبھی نہیں‘‘ میں پاکستان کا نام اور مطالبہ پاکستان پیش کیا۔ یہ مسلمانوں
کے ایک آزادو خودمختار مملکت کا نہایت واضح مطالبہ تھا۔ جبکہ اس سے قبل
دیگر لوگوں کی طرف سے پیش کیے گئے مطالبے اتنے واضح نہ تھے۔ چوہدری رحمت
علی نے ایسا بے نظیر نام رکھا جو پاک بھی ہے اور اس میں اس ملک کا جغرافیہ
(صوبوں کے نام) بھی ہے۔ چوہدری رحمت علی ایک آزاد مسلم مملکت کا تصور تو
1915ء (بزم شبلی) میں ہی پیش کرچکے تھے۔ جب وہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ
لاہور کے طالب علم تھے۔ 1933ء میں انہوں نے اسے ایک بے مثل نام دیا۔ اور اس
ملک میں شامل ہونے والے صوبوں کے بارے میں بتایا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ
اگر 1933ء میں وہ یہ نام اور مطالبہ پاکستان پیش نہ کرتے تو شاید آج
پاکستان قائم نہ ہوا ہوتا۔ اور ہم آج شمالی ہندوستان میں رہ رہے ہوتے۔
کیونکہ اُس وقت گول میز کانفرنس کے مسلمان مندوبین چند اقلیتی تحفظات کے
عوض کل ہند وفاق پر راضی ہوچکے تھے۔ جس کا مرکز دہلی تھا۔ چوہدری رحمت علی
نے 1933 میں ہی ایک جماعت پاکستان قومی تحریک بھی قائم کی۔ اسی جماعت کی
کوششوں سے دراصل تحریک پاکستان کا آغاز ہوا۔ کیونکہ انہوں نے اس تحریک کے
پلیٹ فارم سے ہندوستان کے مسلمانوں کو پاکستان کیلئے جدوجہد کرنے کی طرف
راغب کیا۔ وہ مسلسل ہندوستان اور پوری دنیا میں ایک آزاد ملک پاکستان کے
حصول کیلئے مضامین اور پمفلٹ بھیجتے رہے۔ انہوں نے اپنے مطالبہ پاکستان کی
حمایت حاصل کرنے کیلئے کئی ممالک کے دورے بھی کیے۔ جس کے باعث ہندوستان کے
مسلمانوں نے 1940 سے پہلے ہی پاکستان کو اپنی منزل بنا لیا تھا۔ اُن کی نظر
بہت دور بین اور سوچ بہت آفاقی تھی۔ انہوں نے پاکستان سمیت پورے برصغیر میں
دس مسلم ریاستوں کا تصور پیش کیا۔ وہ انڈیا کو براعظم دینیا اور ایشیا کو
پاکیشیا بنانا چاہتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ 6 اپریل 1948 کو لاہور
آئے۔ انہوں نے بنگال اور پنجاب کی تقسیم پر افسوس کا اظہار کیا۔ اسی تقسیم
کی وجہ سے ایک قیامتِ صغریٰ برپا ہوئی۔ انہوں نے کشمیر کی آزادی اور
ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے تحفظ کیلئے جدوجہد کرنے کے عزم کا
اظہار کیا۔ اُنہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ہندوستان میں رہ جانے
والے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے خط بھی لکھا۔ یہ اصولی اختلافات تھے۔
لیکن اُنہیں ان اختلافات کی اتنی بڑی سزا دی گئی کہ انہیں پاکستان سے چلے
جانے کیلئے کہہ دیا گیا (کے کے عزیز صفحہ 303)۔ انہوں نے پورے برصغیر کے
مسلمانوں کی آزادی و خودمختاری کیلئے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ شادی تک
نہیں کی۔ اس مشن کیلئے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردیا۔ لیکن ان کی
خدمات کا صلہ کیا دیا گیا۔ اُن کا تخلیق کردہ نام اور پلان اپنانے کے
باوجود اُن کا اعتراف نہیں کیا گیا بلکہ اُن پر بے بنیاد اور جھوٹے الزامات
لگائے گئے۔ انہیں بہت زیادہ نظر انداز کیا گیا۔ ان کی بہت زیادہ بے قدری
اور احسان فرموشی کی گئی۔ اسی بے قدری کے غم سے وہ 3 فروری 1951 کو نہایت
کسمپرسی کی حالت میں کیمبرج برطانیہ میں انتقال کرگئے۔ 17روز اُن کی لاش بے
گورو کفن ہسپتال کے سرد خانے میں پڑی رہی۔ اُن کا جسد خاکی 68 سال سے دیار
غیر میں دفن ہے۔ انہوں نے مکمل پاکستان نہ ملنے پر جو تنقید کی تھی وہ ان
کا جذباتی ردعمل تھا۔ اُس کو بنیاد بنا کر اُن کی تمام خدمات پر پانی پھیر
دیا گیا۔ تاریخ پاکستان کی کتابوں سے اُنہیں خارج کردیا گیا ہے۔ کیا باغیرت
قومیں اپنے محسنوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہیں؟ وہ ایک مفکر تھے۔ مفکر اپنی
دوراندیشی سے نئی منزلوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ انہوں نے ہندوستان کے
مسلمانوں کی منزل پاکستان کا تعین کیا۔ کیا منزل کے تعین کے بغیر کبھی کوئی
قافلہ منزل پر پہنچا ہے؟ کیا اس دور اندیش مفکر کا تاریخ پاکستان میں کوئی
مقام نہیں؟ وزیرا عظم عمران خان نے الیکشن سے پہلے اُن کے جسد خاکی کو
پاکستان لانے کا وعدہ کیا تھا۔ کیا وہ اپنا یہ وعدہ پورا کریں گے۔
زید بن عمر |