30برس بعد ماہ فروری میں بھی اہل کراچی سردیوں کی میزبانی
کررہے ہیں۔ اہل کراچی موسم سرما کا انتظار جتنی شدت سے کرتے ہیں ، موسم
سرما اُسی قدر برق رفتاری سے رخصت بھی ہوجاتا ہے۔ سردیوں کی موجودگی کی وجہ
سے گرم ملبوسات و سرد موسم کی سوغات پر عوام کا رش ہوتا ہے۔ یخنی، مچھلی
اورخشک میوے جات سمیت گھروں میں سرد موسم کی میزبانی و خاطر تواضع مخصوص
پکوانوں سے کی جا رہی ہے۔ تاہم سرد موسم سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ
اہل کراچی کی کچی آبادیوں کو بلدیاتی مشکلات کا سامنا بھی ہے ۔ شاید یہ
کراچی کی کچی آبادیوں کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے کہ شہر یا صوبے میں
نمائندگی کسی بھی جماعت کی ہو ، ووٹ لینے کے لئے ان کے وعدے بھی کراچی کی
موسم کی طرح بے اعتبار ہوگئے ہیں ۔ بلند بانگ دعوؤں کے وجہ سے توقعات بڑھ
جاتی ہیں۔ گذشتہ کئی عشروں سے کراچی میں لسانی سیاست کا بڑا اثر نفوذ ہے ۔
جس کی وجہ سے ترقیاتی کاموں میں بھی جانب دارانہ رویہ روا رکھا جاتا رہا ہے
جس سے مختلف لسانی اکائیوں میں تحفظات و احساس محرومی نے جنم لیا جس کا
فائدہ امن دشمن قوتوں نے اٹھایا اور کراچی کے وسائل کو اپنے فروعی مقاصد کے
لئے استعمال کیا ۔
اڑھائی کروڑ سے زائد آبادی والے شہرکراچی میں مختلف لسانی اکائیاں رہتی ہیں۔
کچھ برس پہلے پختون قومیت کی تعداد 50لاکھ سے بھی زاید ہوچکی تھی ۔ اس کی
بنیادی وجوہات میں موسم سرما میں صوبہ خیبر پختونخوا و بلوچستان سے بڑی
تعداد میں روزگار کے حصول کے لئے آنے والے محنت کش بھی تھے ، کراچی کی گود
ماں جیسی ہے جو ہر لسانی اکائی کو اپنے گود میں جگہ دے دیتی ہے ۔ اس وقت
ڈھائی کروڑ سے زاید آبادی والے شہر میں پختون قومیت سے تعلق رکھنے والوں کی
تعداد ماضی کے مقابلے میں کافی کم ہوگئی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ مسلسل تین
عشروں سے پختون قومیت کے محنت کشوں کی ٹارگٹ کلنگ اور ان کے روزگار کو
نقصان پہنچا کر انہیں واپس اپنے آبائی علاقوں میں جانے کے لئے مجبور کرنا
ہے ۔ کیونکہ لسانی سیاست پر تشدد کاروائیوں میں تبدیل ہوچکی تھی ۔ پختون
قومیت کا انحصار زیادہ تر ٹرانسپورٹ پر ہوتا تھا ۔ اس لئے ہفتے میں چار
ہڑتالیں کرنے والی لسانی تنظیم کا ہدف صرف پختون قومیت کے حامل گاڑیاں بننے
لگیں۔ کراچی میں ٹرانسپورٹ کی 80فیصد ضروریات صرف پختون ٹرانسپورٹر ز پوری
کیا کرتے تھے ۔ لیکن آئے دن ہڑتالوں ،احتجاجی مظاہروں،ہنگامہ آرائیوں اور
پُرتشدد واقعات کی وجہ سے بتدریج پختون ٹرانسپورٹرز کے نقصانات کا ازالہ
نہیں کیا گیا اور شہر کے بدترین حالات کی وجہ سے بہت بڑی سرمایہ کاری جو
ٹرانسپورٹ کی صورت میں کراچی میں تھی وہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں منتقل
ہوگئی ۔اس وقت کراچی کو ٹرانسپورٹ کی بدترین کمی کا سامنا ہے ۔ حکومت کراچی
میں ٹرانسپورٹ کی کمی کو پورا کرنے میں ناکام ہے جس کی وجہ سے انتہائی غیر
محفوظ پبلک ٹرانسپورٹ میں رکشے ،ٹیکیسوں کی جگہ اڑن کھٹولوں نے لے لی ہے۔
بڑی ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ اس کے ساتھ ہی محکمہ ٹرانسپورٹ کی
جانب سے آن لائن ٹرانسپورٹ سروس کے من مانے کرایے اور انہیں قانونی دائرے
میں لائے جانے کی کوشش بھی ناکام ہوچکی ہے۔ آن لائن سروس دینے والے اداروں
کی جانب سے کئی گنا کرایہ اور مختلف مد میں چارجز وصول کئے جاتے ہیں ۔ اس
کی بنیادی وجہ پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی کا فائدہ اٹھایا جاناہے۔ دوسری جانب
حکومت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے اور قومی خزانے کو اربوں روپے ٹیکس کی مد
میں ملک بھر سے نہیں مل رہے۔
رکشے ، ٹیکسی ، منی بس اور بسوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لئے گرین
بسیں اور کوچز لائیں گئیں لیکن وہ بھی مربوط منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے
ناکامی کا شکار ہوگئی۔ کراچی میں بے امنی اور عدم تحفظ کے ساتھ پختون قومیت
کے حامل سرمایہ کاروں نے کراچی کے بجائے پاکستان کے دیگر شہروں کو ترجیح
دینا شروع کردیں۔ اس کے ساتھ ہی غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کی
بڑی تعداد بھی واپس افغانستان یا ملک کے دیگر حصوں میں منتقل ہوگئی۔ لاکھوں
محنت کشوں نے پنجاب سمیت ملک کے دیگر شہروں کا رخ کیا اور ہزاروں خاندانوں
نے کراچی سے واپسی کی راہ لی ۔ تاہم کراچی میں اب بھی لاکھوں کی تعداد میں
سندھ کے مستقل رہائشی ہونے کے سبب پختون قوم رہ رہی ہے۔ لیکن انہیں اپنے
علاقوں میں دیرینہ مسائل کا سامنا ہے۔قوم پرستی کی سیاست کی وجہ سے تقریباََ
تمام لسانی اکائیوں کو مختلف مشکلات کا سامنا ہے ۔ کراچی جو مختلف لسانی
اکائیوں کا گل دستہ ہے اور سندھ کے مستقل رہائشی ہونے کی وجہ سے مقامی
کمپنیوں ، فیکٹریوں اور چھوٹے کاروبار کے علاوہ چھوٹی پبلک ٹرانسپورٹ کے
کاروبار سے منسلک ہیں۔سیاسی طور پر قوم پرست جماعتوں و تنظیموں کا حصہ ،کئی
لسانی اکائیوں کی طرح اپنی توقعات قومیجماعتوں سے بھی وابستہ کی ہوئی
ہیں۔ہر انتخابی عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیتے ہیں ۔ کراچی میں عوامی
نیشنل پارٹی کو تاریخ میں پہلی مرتبہ دو صوبائی نشستیں ملی تھی۔ وفاق کے
ساتھ اتحاد کی وجہ سے ایک صوبائی وزارت بھی دی گئی ۔ جس سے عام پختونوں کی
توقعات بڑھ گئی ۔ لیکن مسائل بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے عوامی نیشنل پارٹی
پختون قوم کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ۔
حالیہ الیکشن میں خیبر پختونخوا سے سینیٹ کی نشست کا ٹکٹ لے کر چھ برس سے
سینیٹر رہنے والے شاہی سید نے قومی اسمبلی کی دو نشستوں سے انتخابات میں
حصہ لیا ۔ جبکہ اے این پی نے قومی و صوبائی نشستوں کے کئی حلقوں میں اپنے
امیدوار اتارے لیکن انہیں بدترین شکست کا سامنا ہوا ۔چونکہ پختون قومیت نے
تحریک انصاف کی جانب رجحان بنا لیا تھا اس لئے جس طرح دیگر سیاسی جماعتوں
کے ووٹ تقسیم ہوئے اسی طرح قوم پرست جماعت اے این پی کے ووٹ کو بڑا نقصان
ملا ۔ صوبائی قیادت حالیہ انتخابات میں شکست سے کافی مایوس و دل برداشتہ
نظر آتی ہے ۔ پختون آبادیوں کو مسائل کے حل کے لئے ان کا کردار نہ ہونے کے
برابر رہ گیا ہے۔ مسائل کے حل کے حوالے سے اے این پی سندھ کے کئی رہنماؤں
سے بات کی تو یان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف میں شامل پختون قومیت کے حامل
کراچی سے تعلق رکھنے والے چار قومی اسمبلی اور چھ کے قریب صوبائی اسمبلی کے
اراکین اب پارلیمان کا حصہ ہیں ۔ انہیں چاہیے کہ وہ پختون قومیت کے دیرینہ
مسائل پر خاموش بیٹھنے کے بجائے عملی طور پر کام کریں۔ گو کہ تحریک انصاف
کے منشور میں لسانی سیاست کا تصور نہیں ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جو
پختون اراکین اسمبلی منتخب کرائے گئے انہوں نے پختون کارڈ استعمال کیا اور
خیبر پختونخوا میں کارکردگی سمیت اے این پی کو تنقید کا نشانہ بنا یا۔بظاہر
کراچی میں تحریک انصاف کئی قومی و صوبائی نشستوں سے کامیاب ہوئی ہے۔انہوں
نے کراچی میں ایک جانب ایم کیو ایم مخالف ووٹ اور دوسری جانب لسانی سیاست
کرکے کامیابی حاصل کی۔ تاہم کراچی کی تمام لسانی اکائیاں اپنے حلقوں کے
نمائندوں سے اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں ۔ انہیں تحریک انصاف کے اراکین
اسمبلی سمیت صوبائی اوروفاقی حکومت سے امیدیں و توقعات ہیں کہ وہ کراچی کے
مسائل حل کرنے کے لئے اپنے وعدے پورا کریں ۔ |