جمیل کا تعلق اس غریب خاندان سے ہیں جن کے پاس ان لاکھوں
قید یوں کی طرح 50ہزار روپے نہیں کہ وہ جمع کرکے جیل سے رہا ہوجائے بلکہ
اندھیر نگری میں لاکھوں قیدی ایسے بھی ہے جو جیل میں بند معمولی جرائم یا
پولیس خانہ پری میں قید ہے ۔ان کے پاس نہ وکیل کو پیسے دینے کی رقم موجود
ہے اور نہ ہی کوئی رشتہ دار ان کی ضمانت کرانے کیلئے ہوتا ہے۔ظلم کی انتہا
تو یہ بھی ہے کہ بیس سال سزا کاٹنے کے بعد سپریم کورٹ میں معلوم ہوجاتا ہے
کہ ملزم بے قصور تھا ۔وہ جرم اس نے نہیں کیا تھا ۔ یہاں پولیس کی وجہ سے
اور عدالتوں میں غریب کے ساتھ ہونے والے ظلم کی وہ داستان بیان نہیں کرتا
جو اب ہر جگہ زبان زد عام ہے ۔جمیل کی طرح بہت سے غریب خاندان کے لوگ جو
سائیکل یا موٹر سائیکل چوری میں گرفتار ہے لیکن وہ سالوں سے اسلئے قید ہے
کہ ان کے پاس پولیس کو پیسے دینے کی رقم ہے اور نہ ہی کوئی وکیل کرسکتا ہے
۔ اس لئے ایسے افراد دل کو تسلی دینے اورماں باپ اس پرصبر کرتے ہیں کہ یہ
اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہیں وہی راستہ نکالیں گا ۔
دوسری طرف ہمارے وہ حکمران ہے جو وکیل کی فیس کروڑوں نہیں بلکہ اربوں ادا
کرتے ہیں ۔ میاں نواز شریف کیس میں ایک طرف وکیلوں کواربوں روپے دیے گئے تو
دوسری طرف نیب وکیل پرائیویٹ ویگن میں دھگے کھا کر عدالت پہنچتے کہ مائی
لارٹ بارش کی وجہ سے آج پرائیویٹ ویگنیں کم تھی تواسلئے مجھے آنے میں دیر
ہوئی ، پھر کروڑوں فیس لینے والے وکلاء کے سامنے نیب کے بے چارے ملازم وکیل
اربوں روپے کی چوری کرنے والے پر جرح کرتے ہیں ۔
کرپشن ، منی لانڈرنگ کا مجرم میاں نواز شریف صاحب جو اب قیدی نمبر4470ہے
جیل پہنچ جاتا ہے تو ان کو وہ تمام سہولتیں جیل میں مل جاتی ہے جس کا عام
آدمی باہرزندگی میں تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ قانون کے مطابق جو بھی ایک قیدی
کا حق ہوتا ہے ان کو وہ حق ضرور ملنا چاہیے لیکن وہ حق صرف ایک قیدی کو
نہیں بلکہ تمام قیدیوں کو ملنا چاہیے جس طرح اب عام تاثر بنا ہے کہ میاں
صاحب جیل میں نہیں بلکہ سرکاری خرچ پر گیسٹ ہاؤس میں زندگی گزار رہاہے جب
وہاں تنگ یعنی بور ہوجاتا ہے تو پھر ان کو وہاں سے ہسپتال منتقل کیا جاتا
ہے ۔ پھر اگر وہاں تنگ ہوجائے تو کوئی آور جگہ یا بیرونی ملک علاج کے نام
پر چھوڑ دیا جائے گا۔ میاں نواز شریف صاحب بیماری ہوں گے ان کو بیماری کی
وجہ سے تکلیف بھی ہوئی ہو گی ان کا علاج بھی ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے
ہماری تاریخ اب تک یہی رہی ہے کہ جو بھی سیاست دان یا بڑا اثرو رسوخ والا
آدمی جیل جاتا ہے تو پھر فوراً وہ بیمار بھی ہوجاتا ہے اور جیل کی سزا سے
بچنے کیلئے وہ ہسپتال منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں علاج کے نام پر ایک کواٹر
نما گھر میں رہائش پذیر رہتا ہے جب تک ان کی کوئی ڈیل نہیں ہوتی ۔
میاں نواز شریف صاحب کے حوالے سے مختلف خبریں، بیانات ، تجزیے ، افواہیں
،پروپیگنڈے ، رپورٹس مارکیٹ میں گرم ہے کہ آج نہیں تو کل میاں نواز شریف
علاج کے نام پر بیرونی ملک منتقل ہو جائیں گے۔ ان باتوں اور افواہوں میں
کتنا سچ ہے اس کا انداز ہمیں آج نہیں تو کل معلوم ہوگا کہ جب ان کو ضمانت
مل جاتی ہے اور وہ بیرونی ملک روانہ ہوں گے ۔ اب تک یہ باتیں صرف افواہوں
کے سوا کچھ نہیں۔ میاں نواز شریف اگر ملک کے خزانے میں تین، چار سو ارب جمع
کرتے ہیں توان کے ساتھ ڈیل کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن پیسے پہلے وصول
ہونے چاہیے ۔ میاں نواز شریف جیل میں رہے یا باہر عام آدمی کو اس سے کوئی
سروکار نہیں ۔ عام آدمی کی سوچ یہ ہے کہ میاں نواز شریف سمیت تمام کرپٹ
مافیا سے پیسے وصول کی جائے ۔ ہمارا نظام تو ایسا ہے کہ یہاں تو امیر کیلئے
کوئی سزا نہیں غریب کو صرف جیل اور قانون کے مطابق سزا ملتی ہے۔ وزیراعظم
عمران خان کو اس بارے میں غور کرنے اور پالیسی ری وزٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ
لوٹی ہوئی دولت جس طرح بھی ان کرپٹ مافیا سے وصول کی جائے جن کیلئے ان سے
ڈیل ہو یا ڈھیل لیکن ملک کو لوٹنے والوں سے رقم لے کرخزانے میں جمع کی جائے
۔ جو غریب عوام کیلئے بہتر ہے۔ جب تک ادارے مضبوط نہیں ہوتے اس وقت تک
پاکستان میں قانون کی حکمرانی صرف غریبوں کیلئے ہوگی ۔یہ وہ تلخ حقائق ہے
جو ہر ایک کو معلوم ہے کہ یہاں جتنا بڑا ڈاکو اور چور ہوتا ہے لوگ ان ہی کی
عزت زیادہ کرتے ہیں ۔ نیب قانون کے مطابق نواز شریف سے پلی بارگین ہوسکتی
ہے لیکن وہ بارگین زیادہ سے زیادہ ہو تاکہ ملک کا کچھ بلا ہو جائے۔ بظا ہر
تو یہ درست نہیں لگتا کہ چوروں سے پیسے لے کر ان کو رہا کیا جائے لیکن اگر
پاکستان کے موجودہ حالات اور حقائق کو دیکھا جائے تو کسی بھی چور یا کرپٹ
فرد سے پیسے وصول کرنا ناممکنات میں شامل ہے ۔ پاکستان اتنا امیر ملک بھی
نہیں کہ یہاں مجرموں کو صرف سزا دی جائے وہ اگر پیسے واپس نہ کریں تو کچھ
سال مزید ان کو جیل میں رکھا جائے ۔ اب پوری قوم قیدی نمبر4470 کی جیل میں
پوزیشن اور سہولیا ت دیکھ رہی ہے کہ جیل سے زیادہ وہ ریسٹ ہاؤس میں ہے۔ کا
ش ملک کے تمام عام لوگوں کو قیدی نمبر4470والی سہولتیں باہر زندگی میں مل
جائے۔ گزشتہ روز ایک عام آدمی سے بات ہورہی تھی ۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان
میں بڑے لوگوں کے لئے کوئی قانون نہیں ان کی جیل میں زندگی ہماری عید کے دن
سے بھی اچھی گزرتی ہے۔عام لوگوں میں تو یہ تصور عام ہوچکا ہے کہ اب میاں
صاحب ہسپتال سے لندن جائے گا جو آج نہیں تو کل ضرور ہوگا ۔ پاکستان میں تو
ہمیں سرکاری ہسپتالوں میں نہ ڈاکٹر ہے اور نہ فری دوا ملتی ہے لیکن بڑے
لوگوں کو علاج کیلئے باہر بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ اس طرح سزا کاٹیں ۔
پی ٹی آئی حکومت قانون بنائے کہ کسی بھی قیدی یا مجرم کو علاج کے نام پر
باہر نہیں بھیجاجائے گا۔ تمام علاج پاکستان میں ہوگا ۔ یہ لوگ حکمران ہوتے
ہوئے بھی پاکستان میں کوئی ایسا ہسپتال نہ بنا سکے جس میں ان لوگوں کا علاج
ہو۔ اس طرح تمام پارلمینٹیرز اور سرکاری عہداران پر بھی پابندی ہوکہ وہ
باہر علاج نہ کرسکے خاص کر سرکاری پیسوں سے تو بالکل نہیں ہو نا چاہیے جس
ملک کے ہسپتالوں میں غریب مریض کو بیڈ دستیاب نہ ہو ۔آپریشن کیلئے اٹھ اٹھ
ماہ اور سال کا وقت دیا جائے وہاں حکمران علاج کے نام پر بیرونی دورے
سرکاری خز انے سے کریں ۔ یہ ہمارے معاشرے اور مسلمانوں کیلئے عذاب الہی
نہیں تو آور کیا ہے لیکن کاش ہمارے حکمران اور اشرفیہ یہ بات سمجھ سکیں۔
|