پنجاب کے سیئر وزیر کی گرفتاری پنجاب میں ایک بار پھر بڑی
تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔اس وقت نمبر گیم برابر برابر ہے۔پی پی ذرا
سی ہمت دکھائے تو پنجاب میں تبدیلی لانا مشکل نہیں، حکومت اور اپوزیشن کی
پوزیشنیں باآسانی بد لی جاسکتی ہیں۔ جس طرح کی سیاست پی پی کی موجود ہ
قیادت کررہی ہے۔اس کو دیکھتے ہوئے یہ آسان کام ہونا بھی نظر نہیں آ
رہا۔قیاد ت ڈراووں سے مغلوب ہے ۔ پی پی سیاست کو ایک دائر ے تک محدود کرنے
کے لیے مسلسل ڈراوے آرہے ہیں۔جس طرح الیکشن کے بعد پی پی کی طرف سے مسلم
لیگ ن کے ساتھ مسلسل بد عہدیاں ہورہی ہیں اس سے ڈراووں کی تاثیر دیکھی
جاسکتی ہے۔تحریک انصاف کے اہم رہنما علیم خاں کی گرفتاری کوئی معمولی واقعہ
نہیں۔وہ بڑے اہم پارٹی رہنما ہیں ۔ان کی اہمیت اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ وہ
ٹاپ ٹین میں سے بھی اولین میں شما رہوتے ہیں۔عرف عام میں وہ عمران خاں کی
اے ٹی ایم مشین ہیں۔جہانگیر ترین کے بعد اب یہ دوسری اے ٹی ایم مشین بھی
بند ہونے جارہی ہے۔پنجاب میں حکومت بنانا پارٹی قیادت کی ضد نہ تھی یہ اوپر
والوں کا حکم تھا۔شریف برادران کو کسی بھی حالت میں اقتدارسے دور رکھنے کی
سوچ نے پنجاب میں تحریک انصا ف کی حکومت بنوائی۔ممکن ہے عمران خاں اپنا
دیرینہ خواب وزارت عظمیٰ پانے کے بعد اکتفا کیے بیٹھے ہوں مگر نوازشریف سے
خوف زدہ پردہ نشینوں نے حیلہ وسیلہ کرکے پنجاب عمران خاں کے حوالے کیا۔علیم
خاں نے تب بڑا ہاتھ بٹایا۔برسوں کی انویسٹ منٹ کو کیش کروانے کا یہ موقع
علیم خاں بالکل ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔جہانگیر ترین جہاز پر بندے
ڈھورہے تھے اور علیم خاں ہجوم بڑ اکرنے اور اسے ٹھہرائے رکھنے کی مشکل ذمہ
داری نبھا تے رہے۔ان کی اصل ذمہ داری انٹرویو ز کے لیے انتہائی آسان سوالات
کی تیاری تھی ایسے سوالا ت جس میں فیل ہونے کا ایک فیصد بھی چانس نہ
ہو۔کہنے والے کہتے ہیں کہ ان دنوں ایک اے ٹی ایم بھی کام چھوڑ جاتی تو
پنجاب میں جادو دکھانا ناممکن ہوجاتا۔علیم خاں کی یہی وہ خدمات ہیں جن کے
سبب ان سے اظہار یک جہتی کے لیے تحریک انصاف پنجاب کی طرف سے ایک ہنگامی
اجلاس بلایا گیا۔اس اجلاس میں استعفیٰ دیکر احتساب کا عمل شفاف بنانے کا
دلیرانہ فیصلہ کرنے پر بھرپور خراج تحسین پیش کیا گیا۔
حالات کا تقاضہ ہے کہ قوم کو ناامیدی کی کھائی سے نکالا جائے۔چھ مہینے
ہوچکے تحریک انصاف کی حقیقت سامنے آچکی۔اس کا اصل چہرہ وہی نکلا ہے جو اس
کے مخالفیں بتایاکرتے تھے۔کٹھ پتلیوں کا اک ہجوم جو مالکوں کے دفاع کے لیے
ڈرامے کر رہاہے۔چارروزہ اقتدار کے لیے مرے جانے والے لوگوں کا ہجوم جو مطلب
کے لیے گدھے کو باپ بنانے پر بھی آمادہ ہوجائیں۔مختلف جماعتوں کا بکاؤ مال
جو ہمیشہ اہل اقتدار کے ساتھ رہا۔جس کی وفادار ی ہمیشہ مشکوک رہی ۔قوم سے
فراڈکرنے والا گروہ جو سبز باغ دکھا کر کسی نہ کسی طرح اعتماد حاصل کرنا
چاہتا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سارے فراڈ عیاں ہور ہے ہیں۔ڈرایا جاتاتھا
کہ حکمران کرپٹ ہیں قرضہ لے کر ملک کو کنگا ل کر رہے ہیں ۔اپنی جیبیں بھر
رہے ہیں۔آج یہ فراڈ ٹولہ ریکارڈ قرضے لے کر قوم کو سکتے میں ڈال رہا ہے۔کہا
جاتاتھا کہ اقتدار کے بھوکے لوگ مسلط ہیں۔جہازی کابینائیں بنا رکھی
ہیں۔عوام کے حصے کے وسائل ہڑپ ہورہے ہیں۔ہم کفایت شعاری کی مثالیں قائم
کریں گے۔ان کی اپنی کابینائیں کسی بھی لحاظ سے حجم میں پچھلی کابیناؤں سے
کم نہیں۔پروٹوکول انہی جیسے۔کابینہ میں شامل وہی چہرے جن کو وہ کرپٹ اور بے
ایمان کہا کرتے تھے۔تب یہ چہرے دوسری جماعتوں میں تھے اب یہ تحریک انصا ف
میں آچکے ساتھ ہی پاک دامنی اور ایمانداری کا لیبل جڑ گیا۔پی پی قیاد ت شش
وپنچ میں ہے۔کچھ کرنا بھی چاہتی ہے ہمت بھی نہیں پڑرہی ۔اس بے ترتیب اور
غیر واضح حکمت عملی کے سبب پارٹی سکڑ رہی ہے۔ایک ملک گیر پارٹی سندھ کے
دیہاتوں تک محدود ہوچکی۔یہ بھی خدشہ ہے کہ اگر یہی طور طریقے رہے تو اگلی
بار سندھ کے دیہاتوں سے بھی محلوں تک محدود ہوسکتی ہے۔
پی پی قیادت پھر بھی لاتعلق ہے۔اپنا رویہ بدلنے پر آمادہ نہیں۔شاید وہ
سمجھتی ہے کہ یہ پارٹی اس کی ذاتی خواہشات کی بجاآوری کا وسیلہ ہے۔اس کے
لیے سہولتیں فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ۔اس کو دفاع کرنے کا ایک ہتھیار مگر
یہ سوچ درست نہیں پارٹی قیادت حقیقت سے نظریں چرارہی ہے۔اسے اندازہ نہیں
ہورہا کہ یہ پارٹی ان کے پاس ایک امانت ہے۔بھٹو کے چاہنے والوں کی اک
امانت۔اس امانت مین قیادت کی بے عملی کے سبب خیانت ہورہی ہے۔یہ قیادت سال
چھ مہینے بعد تھوڑی ہل جل کے بعد پھر سے ڈھیر ہوجاتی ہے۔پچھلے دنوں سندھ کے
کچھ شہروں میں تھوڑی تحریک نظرآئی تھی۔کچھ بڑے جلسے ہوئے تھے۔مگر جیسے ہی
مرکز سے تھوڑی نرمی دکھائی گئی پھر سے خاموشی چھاگئی۔ پی پی قیادت یوں ہو
گئی جیسے ملک میں سب اچھا ہو۔سب جائز ہو۔سب قانون اور آئین کے مطابق
ہورہاہو۔علیم خاں کی گرفتاری ایک موقع ہاتھ آیا ہے اگر جناب زرداری اپنے
کہے کو سچ بنانے پر آمادہ ہیں تویہ سنہر ی موقع ضایع نہ کریں۔پارٹی ورکر
مایوس ہیں اگر اب بھی کچھ نہ ہو ا تو سمجھ لیجیے کہ پی پی ہا رمان چکی اور
میدان بالکل چھوڑچکی ہے۔ |