دو مختصر جملے

"کچھ لوگوں کوامرہونے کیلئے اپنی زندگی کی قربانی دینی ہوتی ہے"۔ یہ وہ پوسٹ ہے جسے جمال خاشفجی نے قتل سے قبل اپنے ٹوئیٹر اکاونٹ پرتحریر کیا،اس نے مزیدلکھا"اپنی بات کہیے اورآگے بڑھ جائیے"۔جمال خاشفجی کے یہ دومختصرجملے ہیں لیکن اس میں کئی معانی پنہاں ہیں۔ان جملوں سے اس کے کرب،اذیت اوربالآخراس دورکے ہلاکوخان محمد بن سلمان اور اس کے حواریوں کے ہاتھوں اس کی ہلاکت کے اسباب کااندازہ لگایاجاسکتاہے ۔اس پر تشدد کے انتہائی بہیمانہ طریقوں کواختیارکیاگیا،اس کے ان ہاتھوں کوجدا کر دیا گیا،جن سے وہ قلم تھام کراپنی قوم کیلئے لکھاکرتاتھا۔ اس کی زبان کوکاٹ دیاگیا،جس سے وہ آزادی کیلئے آوازبلندکیاکرتاتھا۔اس کے اعضا کوٹکڑوں میں تقسیم کر کے دورپھینک دیاگیا تاکہ اس کی شناخت تک کومٹا دیاجائے۔ خاشفجی کے قتل کو2ْ/اکتوبر2018ء کوبہیمانہ اندازمیں قتل کردیاگیا لیکن سعودی حکام اس واقعے سے اب تک انکاری ہیں کہ اس قتل میں ان کاکوئی ہاتھ ہے ۔سعودی حکومت نے واقعے کے 18روزبعد یہ بیان جاری کرکے معاملے کواورمشتبہ بنا دیاکہ خاشفجی کاقتل ان 15افراد سے لڑائی کے دوران ہواجواسے وطن واپسی پرآمادہ کرنے آئے تھے۔اس سے پہلے یہ بتایاگیاتھاکہ خاشفجی وطن واپس آناچاہتے تھے۔

اس سے اس بیان کی تردیدہوتی ہے کہ15/افراد اسے راضی کرنے کیلئے بھیجے گئے تھے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے زیادہ افرادکوبھیجنے کی ضرورت کیوں پیش آئی،جس میں انٹیلی جنس،سکیورٹی ایجنٹ،شاہی گارڈزاوربادشاہ کے اندرونی حلقوں کے افراد شامل تھے اور یہ کہ سعودی فارنزک میڈیسن کے سربراہ کواس میں کیوں شامل کیاگیا۔اپنے ذہن میں ابھرنے والے ان سوالات اورخدشات کواگرہم نظراندازبھی کر لیں اوراس من گھڑت کہانی کومان لیں تب بھی کئی سوالات اپنی جگہ موجود ہیں۔ آخر لڑائی کی ضرورت کیوں پیش آئی،اگر مقاصد ٹھیک تھے یعنی اسے وطن واپسی پرآمادہ کرنا،ان افرادنے ایسا کیاکیا کہ وہ چیخنے پرمجبورہوا۔اس مضحکہ خیز کہانی کو کسی انتہائی بیوقوف انسان نے تخلیق کیاہے۔اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خاشفجی ایک جارحانہ طبیعت کاحامل شخص تھاجبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے،اس کی شہرت نہایت شفیق اوردوستانہ مزاج کی تھی۔ خاشفجی اپنے ہاتھوں سے نہیں بلکہ پوری زندگی قلم کے ذریعہ لڑتارہا۔وہ اپنے ملک کی اصلاح کیلئے بے خوف وخطراپنی رائے کااظہارکرتااورحکمرانوں کوان کے احمقانہ اقدامات سے گریزکی تلقین کرتارہا۔ اسے اس بات کی ضرورت بھی محسوس ہو رہی تھی کہ آئینی اورپارلیمانی کمیٹیوں میں افرادکی شرکت میں اضافہ کیاجائے تاکہ فردِواحد کی حکمرانی کاخاتمہ ہو۔جمال خاشفجی کوعرب بہارسے بڑی امیدیں وابستہ تھی۔اسے اپنے ملک کے نوجوانوں سے بھی خاصی مثبت توقعات تھی۔اس کا خیال تھاکہ انقلاب کی لہریں ابھررہی ہیں اور تبدیلی کی سمت بڑھ رہی ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے اس کہانی کے مصنف کوجب اس کہانی کی کمزوریوں اوراس کے خلاف اٹھنے والے سوالات کاندازہ ہواتواس نے اس میں تبدیلی کی۔منصوبہ یہ تھا کہ اگر خاشفجی سعودیہ جانے سے انکار کرے گاتو اسے قونصل خانے سے استنبول کے ایک فلیٹ میں لے جایا جائے گا۔ اپنی حماقت سے انھوں نے اس مسئلے کومزیدخراب کیا۔ایک سفارتی مقام سے اغواکامنصوبہ بنایا جانابذاتِ خودایک شرم ناک عمل ہے اس کافوری طورپراحتساب ہوناچاہیے۔یہ واقعہ اپنی نوعیت کا ایک انتہائی منفردواقعہ ہے،اس سے پوری دنیامیں سعودی شہزادوں کابدنماکردارسامنے آیا۔اپنے تمام وسائل کو خرچ کرکے بھی وہ اس قبیح جرم کے عواقب سے بچ نہیں سکتے۔ محمد بن سلمان نے گذشتہ دو سالوں میں کئی ارب ڈالر اس مقصد کیلئے خرچ کیے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ایک روشن خیال اور اصلاح پسند حکمران ثابت کرسکے۔ تاہم،جمال خاشفجی کے خون نے ان کے سارے منصوبے اورمقاصدپرپانی پھیردیا۔دنیاکے سامنے قاتلوں کامنتقم المزاج،پست ذہن کا قبائلی پس منظررکھنے والااصل چہرہ سامنے آیا۔ دنیابھر کے اخبارات نے نمایاں طورپر اس کے مکروہ عزائم اور کردارکوپیش کیا۔ ظالموں نے ایک آوازکوخاموش کرناچاہا لیکن اب لاتعداد آوازیں اس کے خلاف بلندہوناشروع ہوگئی ہیں۔دنیا میں اس وقت بھی باشعوراوربا

ضمیرافرادکی خاصی تعدادموجودہے جوبنیادی انسانی حقوق پریقین رکھتی ہے اورجن کوخلیجی پیسوں سے خریدانہیں جاسکتا۔اب بھی ایسے اخبارات موجودہیں جوصحافت کی آزادی پریقین رکھتے ہیں۔

ٹرمپ نے اپنے دوست کی حمایت میں پہلے بیان دیا کہ وہ سعودی مؤقف کی تائید کرتے ہیں،پھر اپنے مؤقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سعودی شہزادے سے کوئی ذاتی مراسم نہیں لیکن وہ 110/ ارب ڈالرکی ہتھیاروں کی ڈیل سے امریکی عوام کومحروم نہیں کرناچاہتے۔ بلاشبہ ترکش حکام اپنی کوششوں سے اس حوالے سے کامیاب ہوئے کہ انہوں نے اپنی سرزمین میں ہونے والے اس واقعے کوبڑے احسن طریقے سے سنبھالا۔اس کامیابی کاسہرابجاطورپرترک قیادت کوجاتاہے،جس کی قیادت اردگان کررہے ہیں۔انہوں نے انتہائی حکمت،پیشہ ورانہ اندازاورسیاسی بصیرت کے ساتھ اس مسئلے کوڈیل کیا۔اردگان کا کہنا تھا ترکی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مظلوم کی حمایت کرے، ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کی اورثابت کیاکہ ہمارے لیے اصول اور اقدار سیاسی تعلقات سے زیادہ اہم ہیں تاہم خاشفجی کے خون نے ناانصافی پرمبنی سلطنت میں دراڑیں ڈال دی ہیں اور بہت جلدقاتل اپنے انجام سے دوچار ہوں گے۔

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 315682 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.