حج اسلام کا عظیم ترین رکن اور اہم عبادت ہے، ہر
صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار حج کرنا لازم ہے۔ دنیا کے ہر
مذہب میں مقدس مقامات کی زیارات کو اہمیت حاصل ہے ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان
میں تحریک انصاف کی پہلی حکومت نے حج کے اخراجات میں تقریباً دوگنا اضافہ
کر دیا ہے ۔ یہ وہی حکومت ہے جس نے کہا تھا کہ ہم ریاست ِ مدینہ کی طرز پر
نظام حکومت بنائیں گے اس وجہ سے عوام کو بڑی توقعات تھیں کہ حج جیسی عبادت
پر بھی رعایت ملے گی مگر حکومتی ترجمان کہتے ہیں کہ ریاست مدینہ کا کام مفت
حج کرانا نہیں لیکن موصوف یہ تو بتا دیں کہ مفت حج کون کون کرتا ہے؟ اسلامی
نظریاتی کونسل میں شامل علماء کرام نے حج پر سبسڈی کو جائز قرار دیتے ہوئے
حکومت اسے برقرار رکھنے کی سفارش کی تھی کہ انتظامی معاملات پر اجتماعی
سبسڈی دی جا سکتی ہے۔
پاکستان کے پڑوسی ممالک افغانستان،بھارت،ایران اور بنگلہ دیش میں حج
اخراجات پاکستان سے کم ہیں بلکہ کئی ممالک حج کے اخراجات پر سبسڈی بھی دے
رہے ہیں ۔ گزشتہ تمام حکومتیں حج پر سبسڈی دیتی رہی ہے اور اس مرتبہ بھی
موجودہ وفاقی وزیر مذہبی امور نے فی حاجی 45ہزار روپے سبسڈی کی سفارش کی
تھی لیکن یہ مسترد کر دی گئی۔ حکومت کا اچانک حج سبسڈی ختم کرنا ہر گز
مناسب نہیں،پاکستان میں بیشتر افراد ایک حج ادا کرنے کی خواہش کی تکمیل
کیلئے سالوں پیسہ جمع کرتے ہیں اب حج اخراجات میں اضافے کے سبب نہ جانے
کتنے ایسے افراد حج پر نہیں جا سکیں گے۔حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کے سبب
حج کی خواہش اپنے دلوں میں رکھنے والے لاکھوں عازمین صاحبِ استطا عت تھے
لیکن اب حکومت کی نئی حج پالیسی میں ہوشربا اخراجات میں اضافے نے ان کی
استطاعت چھین لی ہے۔موجودہ حکومت کی جانب سے حج پر سبسڈی نہ دینے پرحجاز
مقدس سفر کے آرزو مند مسلمان سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر یہ حکومت معاشی
ابتری کا شکار عازمین حج کو ہی کیوں بنا نا چاہتی ہے ۔ یاد ہو تو 1971 میں
سقوط مشرقی پاکستان کے فوراً بعد کے سنگین حالات اور معاشی مسائل کے باوجود
اس وقت حکومت پاکستان نے سہولیات کے ساتھ عازمین حج کو بڑی تعداد میں حجاز
مقدس بھیجا تھا۔
رپورٹ کے مطابق اس سال ایک لاکھ چوراسی ہزار سے زائد پاکستانی حج کیلئے
جائیں گے۔ حج کیلئے سعودی عرب جانے والے افرار میں تعداد کے اعتبار سے
پاکستان کا انڈونیشیا کے بعد دوسرا نمبر ہے ۔گزشتہ سال حج دو لاکھ اسّی
ہزار میں ہواتھا اس کو بڑھا کر چار لاکھ چھپن ہزار کر دیا گیا ہے۔یہ کیسی
ریاست مدینہ ہے؟ جس کے وزیر اطلاعات سینماؤں کی بحالی پر اربوں روپے خرچ
کرنے کا اعلان کرے، مگر عازمین مکہ و مدینہ کیلئے ان کے پاس فنڈ نہیں
حالانکہ حج سے چھہ سات مہینے قبل درخواستوں کیساتھ فی حاجی لاکھوں روپے کی
وصولی کر کے بینکوں کے لین دین کے ذریعے کروڑوں کا مبینہ منافع بھی حاصل
کیا جاتا ہے ۔
ارباب اقتدار کی خدمت میں عرض ہے کہ عازمین حج کے جملہ انتظاما ت سے متعلق
تمام سہولیات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے
بحری سفر کو بھی بحال کیا جا سکتا ہے جو فضائی سفر سے سستا ہے ۔ |