بابر کا کامیاب تجربہ

پاکستان نے ریڈار میں نظر نہ آنے والے کروز میزائل ”بابر“ حتف سیون کا کامیاب تجربہ کر کے قوم کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ یہ کامیاب تجربہ جہاں پاکستان کی دفاعی خود مختاری کی جانب اہم پیش رفت ہے وہاں پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ تجربہ اس امر کا اظہار ہے کہ پاک فوج اپنی دفاعی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہے اور اس نے اپنے میزائل پروگرام کا جاری رکھ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ملکی سلامتی پر کوئی مفاہمت نہیں ہو سکتی۔

نئے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور پڑوس میں ہونے والی سٹریٹٹیجک تبدیلیوں سے نمٹنے اور خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے یہ ایک ایسی ناگزیر ضرورت ہے جس سے کسی بھی حالت میں صرف نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ پاکستان اس سلسلہ میں عالمی دباؤ کا شکار ہوا ہے۔ اس تجربہ سے پاکستان نہ صرف میزائل پروگرام میں بھارت کے ہم پلہ ہو گیا ہے بلکہ اس لحاظ سے برتری حاصل کر لی ہے اس کی ایٹمی صلاحیت بھارت سے زیادہ بہتر موثر اور وسیع تر دائرہ اثر کی حامل ہے۔ کروز میزائل کے حوالے سے خاص بات یہ ہے کہ پاکستان نے یہ میزائل خود تیار کیا ہے جبکہ بھارت نے 300کلومیٹر تک مار کرنے والے کروز میزائل ”براہمو سروس کے تعاون سے تیار کیا تھا۔ کروز میزائل بابر 600کلومیٹر تک اپنے ہدف کو درستگی کے ساتھ نشانہ بنانے کی استعداد‘ ایٹمی اور روائتی وار ہیڈ لے جانے کی اہلیت رکھتا ہے اور اب پاکستان ان گنے چنے چند ممالک میں شامل ہو گیا ہے جو کروز میزائل کا ڈیزائن تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے جو ممالک کروز میزائل کے تجربات کر چکے ہیں‘ ان میں امریکہ‘ روس‘ فرانس ‘ برطانیہ‘ اسرائیل‘ بھارت‘ عراق‘ اٹلی‘ جاپان‘ شمالی کوریا‘ ناروے اور سویڈن شامل ہیں۔

ماہرین نے کروز میزائل ”بابر کو ٹیکنالوجی کے اعتبار سے دنیا کا بہترین کروز میزائل قرار دیا ہے۔ اس میزائل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مخصوص اونچائی پر پرواز کے باعث دشمن کے ریڈاروں کی زد میں آئے بغیر اپنے ہدف کی جانب آگے بڑھتا ہے۔یہ میزائل نچلی سطح پر پرواز اور دشوار گزار مقامات پر زگ زیگ کے ساتھ پرواز کرتے ہوئے ہدف کو تلاش کرنے اور اسے ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسے جدید ترین ٹیرین کاﺅنٹر میچنگ کروز میٹریل ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل سین میچنگ اینڈ ایرایا کوریلیشن سے بھی لیس کیا گیا ہے۔ میزائل پر لگے ہوئے خصوصی کیمروں کی مدد سے میزائل اپنی اونچائی برقرار رکھتا ہے۔ اور یہ کیمرے زمین کے نشیب و فراز کو مانیٹر کرتے ہیں۔ ہدف کو پہچانے کے بعد میزائل تیزی سے اس کی جانب بڑھتا ہے۔

عالمی مبصرین کے مطابق بھارت جو علاقے میں اپنی بالا دستی قائم رکھنے کے لئے امریکہ اور اسرائیل سے انتہائی جدید ایٹمی بیلسٹک میزائل کی خریداری کے لئے منصوبہ بندی کر رہا ہے اس کے لئے حتف 7بابر کا آزمائشی تجربہ ایک دھچکے سے کم نہیں اور اس سے اس کی پریشانی اور مایوسی بڑھ گئی ہے۔ بھارت کا خطے میں بالا دستی کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے۔ پاکستان نے اپنے دفاعی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اور یہ بات دنیا پر واضح کی ہے کہ بھارت کی بالادستی کسی صورت میں قبول نہیں۔ بھارت اپنے دفاعی بجٹ میں بیش بہا اضافہ کر رہا ہے۔ اپنی جنگی صلاحیتیں بڑھانے کے لئے اندرون ملک جدید ترین ہتھیار تیار کرنے کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک بالخصوص امریکہ اور اسرائیل سے جدید ترین ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کے معاہدے کر رہا ہے۔ اسرائیل بھارت کو جدید ایٹمی سسٹم سے لیس 260ہیلی کاپٹر مفت فراہم کر رہا ہے جو کارگل میں تعینات گورکھا یونٹوں کی دئیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں اسرائیلی ڈیفنس نیوکلیئر کمیٹی اور بھارتی ڈیفنس کمیٹی کے درمیان ایک معاہدہ طے پا چکا ہے۔ بھارت نے امریکہ کے ساتھ دفاعی وجوہری تعاون کا دس سالہ سمجھوتہ کیا ہے جسے نہ صرف عالمی برادری نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ اس سے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاﺅ کے خاتمے کے لئے جاری کوششوں کو نقصان پہنچے گا وہاں امریکی کانگریس کے اراکین کے لئے اہم پالیسی امور پر رپورٹیں تیار کرنے والے ادارے کانگریشنل ریسرچ سروس (سی آر ایس) نے بھی اس سلسلہ میں اپنی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں سمجھوتے سے روس جوہری ایندھن کی فراہمی دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔ اس سمجھوتے سے جوہری ہتھیار دوسرے ممالک کو فراہم کرنے والے ممالک کی حوصلہ افزائی اور اس سے ان ممالک کے لئے اپنے اقدامات کو جائز قرار دینے کے مواقع میسر آئیں گے۔

بھارت نے اپنی جنگی صلاحیتیں بڑھانے پر تمام وسائل بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و تشدد کی کاروائیاں تیز کر دی ہیں اور اس کی دس لاکھ افواج مقبوضہ کشمیر میں تعینات ہیں اور وہ کمال ہوشیاری سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف ہے اور پاکستان پر دراندازی اور دہشت گردی کے تربیتی کیمپ چلانے کے الزامات تواتر سے عائد کر رہا ہے اور وہ دراندازی کا خوف پھیلا کر مقبوضہ کشمیر میں مزید فوج بھیجنا چاہتا ہے۔ اپنے اصل عزائم سے ہٹانے کے لئے پاکستان کے ایٹمی کنٹرول اینڈ کمانڈ سسٹم کے بارے میں معاندانہ پروپیگنڈہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ حالانکہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی قوت ہے۔ اس کی جوہری صلاحیت بھی اس کے اپنے دفاع کے لئے ہے۔ پاکستان اسلحے کی دوڑ کا بھی مخالف ہے اس نے اپنے ایٹمی اثاثوں کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لئے متعدد اقدامات کئے ہیں۔ اس ضمن میں نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی قائم کی گئی ہے۔ ایٹمی پھیلاﺅ کو روکنے کے لئے قانون سازی بھی کی گئی ہے اور بین الاقوامی ایکسپورٹ کنٹرول نظام بھی موجود ہے۔ ایٹمی اور روائتی اسلحہ کی دوڑ سے بچنے کے لئے بھارت کو سٹریٹجک ضبط و تحمل کے نظام کی بھی پیش کش کی ہے۔ بھارت نیو کلیئر ڈیٹرنس رجیم کے قیام کی پاکستان کی تجویز مان لے تو یہ جنوبی ایشیا میں امن کی جانب اہم قدم ہو سکتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں اسلحہ کی دوڑ کے لئے پاکستان کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ جوہری ہتھیاروں کے سلسلے میں بھی بھارت نے ہمیشہ پہل کی ہے۔1974ءمیں اس نے پہلا ایٹمی دھماکہ کر کے پاکستان کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول پر مجبور کیا۔ 1988میں بھارت نے پوکھران کے مقام پر پانچ ایٹمی دھماکے کئے۔ تو پاکستان کو بھی دھماکہ کر کے اپنی جوہری صلاحیت کو ثابت کرنا پڑا۔ میزائل تجربات کا آغاز بھی بھارت ہی نے کہا اور خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے پاکستان کو بھی میزائل سازی کی صلاحیت بڑھانی پڑی۔ پاکستان کی طرف سے کروز میزائل ”بابر“ کے کامیاب تجربے سے خطے میں اسلحہ کی دوڑ شروع نہیں ہو گی۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ امن کمزوری کی بجائے قوت سے حاصل ہوا ہے۔ بھارت کے پاس جوہری صلاحیت اور میزائل ٹیکنالوجی موجود ہے۔ پاکستان کے پاس بھی ملکی دفاع اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے جوہری ہتھیاروں اور میزائل ٹیکنالوجی ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام دفاعی سٹریٹجک نیٹ کے لئے ہے۔ پاکستان امن و ترقی چاہتا ہے۔ بھارت کے ساتھ امن عمل میں مخلص ہے ‘ ایٹمی عدم پھیلاﺅ کا خواہاں ہے لیکن ہتھیاروں کی کسی دوڑ میں شامل ہوئے بغیر کم از کم دفاعی صلاحیت برقرار رکھا اس کی ضرورت ہے۔ پاکستان خطے میں پائیدار سٹریٹجک سلامتی کے قیام کا حامی ہے۔ کروز میزائل کے تجربے سے جہاں خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے اور بھارت کے جارحانہ عزائم کو روکنے میں مدد ملے گی وہاں یہ ملکی دفاع میں اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔
Professor Afraz Ahmed
About the Author: Professor Afraz Ahmed Read More Articles by Professor Afraz Ahmed: 31 Articles with 21204 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.