سعودی عرب کی جیلوں سے 2107قیدیوں کی رہائی کا اعلان سن
کرپاکستان میں موجود ان پاکستانی قیدیوں کے ماں،باپ ،گھروالوں سمیت پورے
پاکستان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، ہرجگہ لوگ ولی عہد شہزادہ محمدبن سلمان
اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کا شکریہ ادا کرتے ،دعائیں دیتے اورمملکت
سعودیہ کے احسان منددکھائی دیئے۔ایک طرف جہاں وزیراعظم پاکستان کی اپنے ملک
کے عوام کے لئے ہاتھ جوڑکرکی جانے والی التجا کے تذکرے ہیں،تووہیں دوسری
طرف فوری اقدامات کی بدولت ولی عہدشہزادہ محمدبن سلمان کے چرچے بھی
چارسوہیں۔ہرخاص وعام کی زبان پرہے ،شکریہ ولی عہد شہزادہ محمدبن
سلمان،شکریہ وزیراعظم عمران خان۔
"حِلم" اﷲ تبارک وتعالیٰ کی ان گنت صفات میں سے ایک صفت ہے۔ اﷲ رب العزت
اپنے بندوں پر بہت مہربان اور حلیم ہے۔ اﷲ تعالیٰ جزا وسزا پر مکمل قدرت
رکھتا ہے۔ لیکن اپنی شان ِ حلم کی وجہ سے اپنی مخلوق پر اتنا رحیم اور شفیق
کہ غلطیوں، گناہوں پر گرفت کی بجائے گناہوں سے باز آنے، اطاعت اور
فرمانبرداری کی طرف پلٹ آنے کی مہلت عطا فرماتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول ؐ نے ارشاد فرمایا-:(جس کامفہوم یہ ہے)
ـحضرت موسی علیہ السلام نے اﷲ تعالی سے پوچھا:ـ"اے میرے رب آپ کے بندوں میں
سے کون سب سے زیادہ پیارا ہے؟ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا"وہ بندہ جو انتقامی
کارروائی کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردے " (مشکوٰۃ المصابیح)۔
تاریخ ِ انسانیت میں انسانیت کی فلاح اور ہمدردی کی سب سے بڑی مثال، ہمارے
پیارے نبی آخرالزمان حضرت محمدمصطفے ٰ ﷺ کی مثال ہے ۔حضور ﷺ نے ہمیشہ شانِ
حلم کا مظاہرہ فرمایا۔یہاں تک کہ فتح مکہ کے موقع پر صحابہ کرام رضوان اﷲ
علیہ اجمعین پرظلم وستم ڈھانے والوں، اپنے پیارے چچا حضرت امیرحمزہ ؓکے
قاتل اور اپنے جانی دشمنوں تک کو معاف فرما دیا۔
رحمدل حکمرانوں کا کا م دُکھ مصیبت اور پریشانی میں اپنے عوام کے لئے
ہمدردی کرنا، عوام کی خدمت، ملک کی ترقی، عوام کے لئے روزگار کے مواقع پیدا
کرنا، عوام کا معیا ر زندگی بہتر بنانا اور عام آدمی کو معاشرے کافعال شہری
بنانا۔ جس ملک و قوم کے حکمران نیک نیت، ایماندار اوررحمدل ہوں،جواپنے غریب
عوام کے لئے دل میں محبت و احترام رکھتے ہوں،اﷲ کی قدرت بھی اُن حکمرانوں
پرمہربان ہوتی ہے۔پھراﷲ اُن کے لئے آسانی اورعزت کے سامان پیدا کر
دیتاہے۔بے شک وزیراعظم عمران خان کی شب وروزکی محنت اورپاکستان سے عقیدت
اوراپنے عوام سے محبت کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان جسے تنہا سمجھا جارہا تھا
،جسے طعنے دیئے جارہے تھے،کہ یہاں کوئی سرمایہ لگانے کے لئے تیار نہیں ،ہمیشہ
کی طرح سعودی عرب نے پہل کی اوربہت بڑی سرمایہ کاری پاکستان میں کرنے
جارہاہے۔ جس سے یقینا پاکستان کوفائدہ ہوگا،پاکستان کے عوام کوروزگارملے گا
۔
مگرمیں سمجھتاہوں،عمررسیدہ غریب لوگ جو عمربھرپیسہ جمع کرکے حج کرنے جاتے
ہیں ان بوڑھے حاجیوں کی امیگریشن پاکستان میں ہی کی جانے، سعودی عرب میں
موجود پاکستانی مزدورمیرے لئے بہت خاص ہیں،میرے ملک کے مزدوروں کواپنا سمجھ
کے ان کا بہت خیال رکھنا۔یہ میرے دل کے قریب ہیں، ان کے لئے آسانیوں کی
التجا اورسعودی عرب کی جیلوں میں قیدپاکستانیوں کی رہائی کے لئے پوری دُنیا
کے سامنے ہاتھ جوڑ کر وزیراعظم پاکستان عمران خان کی درخواست کے جواب
میں،جناب ِوزیراعظم،آپ مجھے سعودی عرب میں پاکستان کا سفیرسمجھیں،ویزہ
فیسوں میں کمی،سعودی عرب کی جیلوں سے قیدیوں کی رہائی اورحجاج کرام کی عزت
ونصرت اورآسانی کی یقین دہانی کے الفاظ ،خوبصورت مسکراہٹ اورفوری اقدامات
سے جوسرمایہ کاری ولی عہد شہزادہ محمدبن سلمان نے پاکستانی قوم کے دلوں میں
کی ہے، یہ ہے اصل سرمایہ کاری،یہ سرمایہ کاری، نتائج کے اعتبار سے ،
پاکستان میں آئیندہ مسلسل پانچ سال تک کی جانے والی سرمایہ کاری سے کہیں
زیادہ اہمیت کی حامل اورمنافع بخش ہے ۔
بے شک ،ولی عہد شہزادہ محمدبن سلمان کا دورہ تمام پاکستانیوں کے خوشی
اورفخرکاباعث بنا،جس سے پاکستان اورسعودیہ تعلقات کی بنیادیں مزید مضبوط
ہوں گی،یقینا سعودی عرب کی سرمایہ کاری اورسعودی عرب کے تجارتی معاہدوں سے
پاکستان کے معاشی بحران میں کمی واقع ہوگی اورایک مثبت و سنہرے دور کے
آغازکی امیدکی جاسکتی ہے۔مگرقدرتی و معدنی وسائل سے مالامال،باصلاحیت
افرادی قوت کے باوجود پاکستان کواس حالت تک پہنچانے کے ذمہ دارو!آخرہم
پاکستانی ،کب تک محتاج رہیں گے؟
محمدبن قاسم سے محمدبن سلمان تک کوئی تھوڑا عرصہ نہیں، صدیاں بیت گئیں اس
خطہ کے مسلمانوں کو
مدد مانگتے ہوئے اورانہیں تمہاری مدد کرتے ہوئے۔ اب تواحساس کرو، اب
توتمہاری پہچان ایک آزاد،قدرتی و معدنی وسائل سے مالامال،باصلاحیت افرادی
قوت کی حامل مملکت پاکستان ہے ،اب تواپنے آپ کواس قابل بناؤکہ تم بھی کسی
کی مددکرسکو،کب تک عمران خان تمہارے لئے دُنیاسے ہمدردی اور مدد مانگتاپھرے
گا،کب تک تمہارے لئے رحم کی التجاکرتارہے گا۔کب تک تمہارے ملک کی کثیرتعداد
اپنے والدین ،فیملی ،بچوں سے دوررہ کردُنیابھرمیں مزدوری کے لئے دربدر کی
ٹھوکریں کھانے اوردُنیاجہاں کی ذلت اوررسوائی اپنے دامن میں سمیٹنے
پرمجبوررہے گی،کہ ہماری خیرہے،کسی طرح ہمارے گھروالوں کامہینہ گزرجائے،کسی
طرح بوڑھے والدین کاعلاج ممکن ہوسکے،کسی طرح شادی کے انتظارمیں بیٹھی بہنوں
کی باعزت رخصتی ہوسکے!
اب تواپنے حصے کی ذمہ داری ادا کروکہ اس مستقل محتاجی سے جان چھوٹے
اورپاکستان کاشمار بھی اپنے دوست ممالک کے لئے مددگارمملکت کے طورپر
ہوسکے۔کسی نے حاتم طائی سے پوچھا"کیادُنیا میں آپ سے بڑھ کربھی کوئی شخص دل
کا دھنی ہوگا؟" اس نے کہا "ہاں، ایک دن میرے ہاں چالیس اونٹ ذبح کئے گئے
تھے اورہرواقف و ناواقف کے لیے اجازت تھی کہ آئے اورکھائے"اسی دن مجھے کسی
ضرورت سے جنگل جانے کا اتفاق ہواتومیں نے ایک بوڑھے کوپیٹھ پرلکڑیوں کا
گٹھااُٹھائے ہوئے دیکھ کرکہا"بڑے میاں تم حاتم طائی کی دعوت میں کیوں نہیں
جاتے ۔ آج اس کے دسترخواں پرایک مخلوق جمع ہے"اس نے کہا" جو خود کما سکتا
ہو،وہ حاتم کامحتاج کیوں ہو؟"۔
|