علیم خان نے گرفتاری کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دیکر
ایک اچھی روایت قائم کی ہے جس نے پاکستان میں تبدیلی پر مہر ثبت کر دی ہے
تو دوسر جانب سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو بھی چاہیے کہ وہ پی اے
سی کی سر براہی سے مستعفیٰ ہو جاتے لیکن ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آتا۔ہمارے
ملک کے سیاستدانوں کا گزشتہ ستر سالوں سے یہ شیوہ رہا ہے کہ اگر وہ جرم بھی
کرتے ہیں تو ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں اور اگر وہ مجرم ثابت ہو جائے توعدالت
سے باہر نکلتے وکٹری کا نشان یوں بناتے ہیں جیسے انہوں نے وقوم و ملک کے
مفادات کی خاطر یہ فعل انجام دیا ہے۔تاہم علیم خان کی گرفتاری کے بعد بظاہر
یہ لگتا ہے کہ پانامہ کیس میں مزید گرفتاریوں کی باری آگئی ہے اب احتساب کا
عمل تیز سے تیز ہوگا۔مگرعلیم خان کی گرفتاری نے نیاپنڈورا باکس کھول دیا ہے
اور تحریک انصاف کی گرفتاری کی خبر اس وقت پاکستانی سوشل میڈیا پر ٹاپ
ٹرینڈ ہے سوشل میڈیا پر زیادہ نہیں تو چند ایسے افراد بھی موجود ہیں جن کا
یہ ماننا ہے کہ علیم خان کی گرفتاری کی خبر کا مقصد صرف سپریم کورٹ کے
فیصلے پر سے ’توجہ ہٹانا‘ہے‘۔ایسے لوگ بھی ہیں جو علیم خان کی گرفتاری سے
زیادہ ان کے استعفیٰ دینے کے فیصلے پر بات کر رہے ہیں-
ٹوئٹر صارف کا کہنا ہے کہ ’علیم خان کی گرفتاری پی ٹی آئی کے لیے ایک
آزمائش تھی کہ وہ اس سے کس طرح نمٹتے ہیں، لیکن ان کے استعفی نے مسئلہ ہی
حل کر دیا۔ پی ٹی آئی نے مثال قائم کی ہے، کہ اگر آپ کرپٹ ہیں، تو خود کو
حکومت سے الگ کریں اور اس کا سامنا کریں۔ اور پی ٹی آئی کی قیادت کسی کی
کرپشن کا دفاع کرنے کے لیے نہیں ہیں۔‘ایک صارف کا کہنا ہے کہ ’علیم خان کا
استعفیٰ، پی ٹی آئی اب سیاست سیکھ رہی ہے۔‘وہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے
عمران خان کی پہلی چوائس میں شامل رہے ہیں ان کے خیر خواہ اب امید لگائے
بیٹھے ہوں گئے کہ وہ کلیئر ہونے کے قریب ہیں تاکہ وہ جلد ہی مستقبل کے چند
طاقتور قلمدان سنبھال سکیں۔دراصل علیم خان اب عمران خان کے لیے پرانے
لیفٹینیٹ کی حیثیت رکھتے ہیں، جو (ق) لیگ کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہوئے
تھے۔ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ چند شدید مشکل جنگوں میں کھڑے رہے ہیں ۔
2018ء کے انتخابات سے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے عہدے کے لیے صرف علیم خان
کا نام ہی ایک مناسب امیدوار کے طور پر سامنے ابھر کر آیاتھاان کی امیدواری
کو اس وقت زیادہ تقویت پہنچی جب وزارتِ اعلیٰ کے عہدے کے لیے مضبوط نام،
جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کسی نہ کسی وجوہات کی بنا پر عہدے کی ریس
سے باہر ہوگئے۔علیم خان پارٹی کے ایک سب سے بااثر رہنما رہے ہیں اور پارٹی
کے اندر ایک گروپ کی قیادت بھی کرتے رہے ہیں، تاہم انہوں نے بہتر گورننس کے
حساب سے کچھ ایسے خاطر خواہ قدامات نہیں اٹھائے جو انہیں وزارتِ اعلیٰ کے
عہدے تک لے جانے میں مددگار ثابت ہوتے۔ تحریک انصاف کے لیڈر کی پانا مہ کے
چکر میں گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔ علیم خان کی گرفتاری کے حوالے سے نیب
نے اپنے اعلامئے میں کہا ہے کہ سینئیر صوبائی وزیر کو مبینہ طور پر آمدن سے
زائد اثاثے بنانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ملزم نے پارک ویو
کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی کے سیکریٹری اور رکن صوبائی اسمبلی کے طور پر
اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور اس کی بدولت پاکستان اور بیرون ملک
آمدنی سے زیادہ اثاثے بنائے۔وزیر اعظم عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھی
علیم خان کی اچانک گرفتاری کے مختلف پس پردہ محرکات بیان کئے جارہے ہیں۔ان
کا کہنا ہے کہ علیم خان کی گرفتاری کا مقصد احتساب کو غیر جانبدار ثابت
کرنا اور نون لیگی رہنماؤں کی گرفتاریوں میں توازن پیدا کرنا ہے جبکہ اس
گرفتاری سے مزید بڑی گرفتاریوں کی راہ ہموار کی گئی ہے لہٰذا آنے والے دنوں
میں آصف زرداری سمیت چند بڑے ناموں کے خلاف بھی نیب کی جانب سے ا سی نوعیت
کاایکشن متوقع ہے۔ یہ باز گشت بھی سنائی دے رہی ہے کہ اگر یہ اقدام نہ اٹھا
یا جاتا توآصف زرداری جیسے بڑے نام پر ہاتھ ڈالنے سے سندھ کارڈ کے کھیلے
جانے کا خدشہ تھااور یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ علیم خان کی گرفتاری سے
ہونے والی شروعات نہ صرف آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور، بلکہ
حمزہ شہباز کی گرفتاری تک بھی پہنچیں گی۔ اس وقت پی ٹی آئی کے رہنما علیم
خان کی گرفتاری کے حوالے سے مختلف چہ میگوئیاں بھی بد ستور گردش میں ہیں کہ
علیم خان کو جیل بھیجنے کے بعدبظاہر لگ تھاکہ شہباز شریف پر دباؤ بڑھایا جا
ئے گا اور دیگر مسلم لیگی رہنماؤں کے گرد بھی نیب کا شکنجہ کسنے کی تیاری
کر لی گئی ہے۔اگر تو نئے پاکستان میں’’ احتساب سب کے لئے ‘‘ کے حکومتی نعرے
پر عملدرآمد ہو رہا ہے تو واقعی وزیر اعظم عمران خان مبارکباد کے مستحق ہیں
کہ انہوں نے ریاست مدینہ کے اصولوں کو لاگو کرنا شروع کر دیا ہے وگرنہ یہ
صرف سیاسی انتقام کی طرف مزید پیش قدمی ہے اور مذکورہ گرفتاری محض دکھاوا
ہے اور سیاسی مخالفین پر دباؤ بڑھانے کی ایک حکومتی چال ہے تو پھر حکم وقت
کو اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنا ہو گی اور ضرورت اس امر کی ہے کہ احتساب
کی کارروائیوں کو صاف و شفاف بنایا جائے اسے دقیانوسی روایتی سیاست کی
بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔جیسا کہ ماضی سے آج تک ہوتا چلا آرہا کہ روٹی کے چور
کو پھانسی چڑھا دیا جاتا اور ملک لوٹنے والوں پھولوں کے ہار پہنا کر دیوتا
مانا جاتا ہے۔’’انصاف‘‘سب کے لیے برابر ہونا چاہیے وزیر اعظم پاکستان عمران
خان نے اگر اس روایت کو برقرار رکھا تو وطن عزیز حقیقی معنوں میں کرپشن فری
پاکستان ہوگا ۔کیونکہ کرپشن وہ دیمک ہے جو بڑی بڑی سلطنتوں کو چاٹ گئی ہے ۔تاریخ
ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جن معاشروں میں ’’انصاف‘‘نہیں تھا وہ تباہ
ہوگئے۔حضرت علیؓ کا مشہور فرمان ہے کہ ’’کفر پر قائم معاشرہ چل سکتا ہے مگر
نا انصافی پر قائم معاشرہ نہیں ‘‘امید ہے کہ وزیر اعظم پاکستان ریاست مدینہ
ؐ کے اصولوں کے مطابق ریاست پاکستان کا نظام چلائیں گے ۔۔۔پیوستہ رہ شجر سے
امید بہار رکھ۔ |