تحریر:ابن نیاز
جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے پاکستانی قوم کی عقل پر مزید پردے پڑتے جا
رہے ہیں۔ ان کی مصروفیات اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ اپنے ہی حقوق سے بے بہرہ ہو
گئے ہیں۔ جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت میں سنا ہے کہ چینی صرف ایک چند پیسے
یا ایک دو آنہ فی کلو بڑھی تھی تو عوام سڑکوں پر نکل آئی تھی اور ایوب خان
کے خلاف نعرے بازی کی تھی۔ ساتھ میں یہ بھی نعرہ لگایا گیا تھا کہ مہنگائی
ختم کرو۔ مخالف پارٹی نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا تھا اور غلط قسم کے
نعرے بھی اپنے ورکروں سے لگوائے تھے۔ اب گذشتہ چند سالوں سے ہر حکومت میں
ہر بار نزلہ عوام پر گرتا ہے، زلزلہ عوام کے گھروں پر آتا ہے، سونامی اور
طوفان سب نے عوام کا ہی رخ کیا ہوا ہے لیکن مجال ہے کہ اب اس عوام میں
یکجہتی دیکھنے کو مل جائے۔ ان پر مہنگائی کے بم گرائے گئے، ان پر جینا حرام
کیا گیا، ان کا حقہ پانی بند کیا گیا، ان کے رہنے میں رکاوٹوں کے انبار
کھڑے کیے گئے لیکن اس عوام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔
گزشتہ حکومتوں میں تو پھر قسطوں میں مہنگائی آتی تھی۔ کچھ اندازہ دنوں پہلے
ہو جاتا تھا کہ اگلے چند دنوں میں مہنگائی بڑھے گی۔ اتنے فیصد اشیائے صرف
کی قیمت میں اضافہ ہو گا۔ اس لحاظ سے ہر دوسرا پاکستانی اپنے بجٹ کا حساب
کتاب لگا لیتا تھا۔ لیکن جب سے یہ حکومت، جس سے شاید پاکستان بننے سے اب تک
سب سے زیادہ امیدیں عوام کو وابستہ تھیں، معرضِ وجود میں آئی ہے تب سے ہر
روز مہنگائی آکاس بیل کی طرح عوام کا خون نچوڑ رہی ہے۔ کبھی گیس مہنگی کی
جا رہی ہے کہ جو بل پہلے دو ہزار روپے آتا تھا اب ایک دم سے پانچ ہزار سے
سات ہزار روپے ہوگیا ہے۔ پہلے گھر میں دو ہزار روپے میں گیس چوبیس میسر
ہوتی تھی، اب دس گھنٹے ہوتی ہے اور باقی غائب۔ جو میسر ہوتی ہے وہ بھی ٹم
ٹم کرتی نظر آتی ہے جس پر صرف چاول ہی دم پر رکھے جاسکتے ہیں۔ بظاہر سبزی
اور فروٹ سستا ہے لیکن صرف ان سے تو زندگی نہیں گزاری جا سکتی۔ صحت صفائی
کا نظام اسی طرح ہے جیسے گذشتہ پچاس ساٹھ سال سے ہم دیکھ رہے ہیں۔ صرف
معیشت کو درست کرنے کی سمت میں تو کام نہیں کرنا۔ ساتھ ساتھ دوسرے کام بھی
کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن ان کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی ۔ عوام بھلے بلبلائے
یا تڑپے، کسی کو کیا؟
معیشت درست کرنی ہے، بیرونی سرمایہ کاری اگر ملک میں لانی ہے تو اس کے لیے
لازم ہے کہ بند کارخانے کھولے جائیں۔ بند کارخانوں کو صرف سرمایہ کی ضرورت
ہے۔ تجربہ کار افراد ان کے پاس موجود ہوتے ہیں۔ ان کو اس بات کا پابند
بنایا جائے کہ وہ جو کچھ بنائیں گے بہترین معیار کا بنائیں گے۔ اس حد تک
معیاری کہ بین الاقوامی معیارات کی تنظیم اس چیز کو بے اختیار ہو کر اوکے
کرے اور پھر پاکستان اس کو اپنی شرائط پر برآمد کر سکے۔ ساتھ میں کارخانوں
کو یہ بھی کہا جائے کہ ابتدائی تین سالوں تک وہ منافع کا ساٹھ فیصد حصہ
حکومت کے خزانے میں جمع کرائے گی تا کہ جو حکومت نے ان کو ادا کیا ہے وہ
واپس آسکے۔ اس طرح کارخانے بھی چل سکتے ہیں اور حکومت کا خزانہ بھی خالی
نہیں رہے گا۔لیکن یہاں صورت حال یہ ہے کہ جو بند ہیں وہ تو ہیں ہی، مزید
بھی بندش کی طرف جا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک میں درآمدات کی کھپت میں
اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مہنگائی کا اژدھا جو کبھی ایک بالشت کا سنپولیا ہوتا
تھا اب اتنا بڑھ چکا ہے کہ بظاہر قابو سے باہر ہو چکا ہے۔ لیکن سب کچھ ممکن
ہے۔ یہ دنیا ہے، اگر کچھ ناممکن ہے تو وہ صرف وہ کام ہیں جو اﷲ کے ہاتھ میں
ہیں۔ ورنہ کچھ بھی ناممکن نہیں۔
حج پالیسی میں تبدیلی کر لی ہے کہ عوام کے ٹیکسوں پر سود لگا کر حج کی
سبسڈی دی جاتی تھی تو اب سود سے حج تو ممکن نہیں۔ مان لیا درست ہے۔ پھر تو
ہمارے محترم وزیر اعظم صاحب ان سبسڈیوں پر بھی ایکشن لیں جو عوام کے ٹیکسوں
سے کھانے پینے کی چیزوں پر دی جاتی ہے۔ ایم این ایز، ایم پی ایز، سینیٹرز
اور دیگر سیکرٹریٹ کے ملازمین کو دی جاتی ہے۔ باہر کسی بھی کم سے کم تر
درجے کے ہوٹل پر چائے کا ایک کپ بیس سے تیس روپے کا ملتا ہے۔ جب کہ
سیکرٹریٹ میں دس روپے کا ملتا ہے اور بہت سی کھانے پینے کی چیزوں پر بھی
اسی طرح کی سبسڈی مل رہی ہے۔ انصاف سب سے پہلے گھر سے شروع کیا جائے، اپنے
گریبان کو سی کر پھر دوسروں کو کہا جائے تو اس کا فائدہ نسلوں تک کو ملتا
ہے۔
اب تک تو پی ٹی آئی کی حکومت کی کسی بھی پالیسی کی سمجھ نہیں آئی۔ یوں لگ
رہا ہے جس وزیر کا جدھر دل دل کر رہا ہے ادھر ہی اس کا سینگ سما رہا ہے۔
اپنی مرضی کی پالیسیاں لائی جا رہی ہیں۔ عوام کو فائدہ ہو یا نہ ہو گیس کی
قیمتیں خود بڑھا کر پھر خود ہی ایکشن لیا جاتا ہے کہ عوام کو بل بہت زیادہ
وصول ہوئے ہیں۔ جب رپورٹ جمع کرائی جاتی ہے اور ساتھ میں سلیب میں تبدیلی
یا قیمت میں کمی کی سفارشات کی جاتی ہیں تو ان کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا
جاتا ہے کہ اس طرح تو سوئی گیس کمپنیوں کو نقصان ہو گا۔ وہ اپنے اخراجات
کیسے پورا کریں گے۔ یہی تو مسئلہ ہے کہ بجلی اور گیس کے محکموں کے سب
ملازمین کو گیس اور بجلی مفت ملتی ہے۔ کیوں؟ جب کہ ان کی تنخواہیں بھی اچھی
ہیں اور ان کو دیگر حکومتی سہولیات بھی میسر ہیں تو پھر یہ سبسڈی کیوں؟
عوام کے ٹیکسوں پر یہ دو محکمے کیوں عیاشی کرتے ہیں؟ ان پر کچھ نہ کچھ
ایکشن ہونا چاہیے۔ ان ملازمین کو ملی ہوئی گیس اور بجلی کو یہ اپنے اردگرد
کے گھروں میں تقسیم کرتے ہیں اور مخصوص رقم بطور منافع ان سے وصول کرتے
ہیں۔ آم کے آم گھٹلیوں کے دام۔ عوام بہت پس چکی ہے۔ اگر چند ماہ مزید یہ
صورتحال رہی تو مجھے یقین ہے کہ پی ٹی آئی بھی گزشتہ دو پارٹیوں کی طرح
عوام کی بد دعاؤں کا حصہ بن جائے گی۔ اگر انھوں نے اپنے سینگوں کارخ درست
سمت میں نہ کیا تو کیا پتا کس مظلوم کی آہ فرش کو ہلا دے۔
|