جنرل مشرف کا احسان

جنرل مشرف مرحوم و مغفور کے احسانات کی یوں تو ایک لمبی فہرست ہے لیکن میرے خیال میں ان کا جو احسان عظیم ہے وہ چیف جسٹس محمد افتخار چوہدری کی برطرفی تھی۔افتخار چوہدری کو ایوان صدر بلایا گیا اور ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا۔قدرت چونکہ پاکستان اور پاکستانی عوام پہ مہربان ہونے کا ارادہ رکھتی تھی۔ بنا بر ایں جناب چیف جسٹس صاحب نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا۔پھر دھونس اور دھاندلی کا ہر آمرانہ حربہ آزمایا گیا۔ایک اکیلا آدمی اور حکومت وقت کا ہر ظلم وستم۔اور تو اور پولیس نے اس بطل جلیل کو بالوں سے پکڑ کر سڑک پہ بھی گھسیٹا۔لاٹھی چارج کیا۔گھر میں نظر بند کیا۔یہ سب زیادتیاں دیکھ کے وکیلوں نے بھی احتجاج کیا اور وہ سڑکوں پہ آگئے۔اب حکومت کو احساس ہوا کہ کچھ غلط ہو گیا ہے لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔سول سوسائٹی میدان میں آئی اور پھر وہ لوگ جن کے میدان میں آنے سے واقعی تبدیلیاں آیا کرتی ہیں۔اس شان سے چیف جسٹس کی مدد کو بڑھے کہ ملک کی تقدیر بدل گئی۔

الیکشن سر پہ تھے اور آمر غلطی پہ غلطی کئے جا رہا تھا۔ڈوگر کورٹ اس ملک کی تاریخ کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔اس سے پہلے ملکی تاریخ کی اکثر عدالتیں ڈوگر کورٹس ہی کا طرز عمل رکھتی تھیں۔ان کے فیصلوں سے بعض اوقات انصاف قانون اور اس شعبے سے متعلقہ سب کچھ شرمندہ ہی رہا کرتا تھا۔پاکستان کی عدالتی تاریخ کے کچھ فیصلے ایسے بھی ہیں جنہیں کسی عدالت میں نظیر کے طور پہ بھی پیش نہیں کیا جا سکتا۔ملکی تاریخ میں ایک آمر نے دوسری مرتبہ مارشل لا لگا دیا تھا جس نے جلتی پہ تیل کا کام کیا۔سوائے مشرف کی پروردہ پارٹیوں کے تمام سیاسی پارٹیاں ڈوگر کورٹ پہ لعنت ملامت کر رہی تھیں۔جناب چیف جسٹس کی ہمت اور مردانگی نے مختلف الخیال قائدین کو ان کی پشت پہ لا کھڑا کیا تھا۔جہاں نواز شریف نے ان کی حمایت کا اعلان کیا وہیں بے نظیر نے بھی انہیں اپنا چیف جسٹس قرار دیا۔جماعت اسلامی اور عمران خا ن بھی ان پشتیبان بن گئے۔ یوں افتخار چوہدری قوم کے افتخار کا نشان بن گئے۔بدیسی انتظامات اور تحفظات کے زیر انتظام انتخابات کا ڈول ڈالا گیا۔اسی دوران بے نظیر کو طے شدہ ایجنڈے کی پاسداری نہ کرنے پہ دن دھاڑے خون میں نہلا دیا گیا۔

اس خون ناحق نے پورے ملک کا منظر نامہ ہی بدل کے رکھ دیا۔ہمدردی کی ایک ہوا چلی اور پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی اکثریتی پارٹی بن کے ابھری۔آصف زرداری پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھال چکے تھے۔انہوں نے بہترین طریقے سے اپنے کارڈ استعمال کیے اور وفاق اور صوبوں کی حکومتوں میں اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کیا بلکہ کہیں تو زیادہ بھی۔پھر معاہدے ہونا شروع ہوئے۔کبھی ایک معاہدہ کبھی دوسرا ۔نواز شریف جو کہ ججوں کو بحال کرنے کے وعدے پہ حکومت کا حصہ بنے تھے آخر کار زچ ہوگئے اور انہوں نے حکومت چھوڑ دی۔آخر کار ایک دفعہ پھر عوام ہی مدد کو آئے اور حکومت کو جناب چیف جسٹس اور ان کے رفقاء کو بحال کرنا پڑا۔عدلیہ کی یہ بحالی پاکستان میں حقیقی تبدیلی کی طرف پہلا قدم تھا۔اب کی عدلیہ چونکہ مجبور و مقہور عدلیہ نہیں تھی بلکہ اسے عوام کی پذیرائی اور اعتماد حاصل تھا اس لئے اس کے فیصلوں میں بھی وہ اعتماد نظر آنے لگا۔پاکستان کی حکومتیں خواہ وہ آمرانہ ہوں یا جمہوری مزاجاََ آمرانہ ہی ہوتی ہیں۔اس تحریک کے نتیجے میں ایک ایسا ادارہ وجود میں آیا جو ان آمرانہ رویوں کے آگے بند باندھنے کی ہمت رکھتا تھا۔

ہمارے عمومی مزاج کے مطابق ہم نے پیٹ درد سے لیکر قومی اداروں کی لوٹ مار تک ہر چیز میں چیف جسٹس سے انصاف طلب کرنا شروع کیا۔چیف جسٹس نے شروع میں کوشش بھی کی کہ پیٹ درد والوں کو پھکی بھی ملے اور اس کے ساتھ ملک کا نظام بھی بہتر ہو سکے۔این آر او کی آڑ میں مجرموں کو معزز بنانے کا جو کارخانہ لگایا تھا چیف جسٹس نے اس کے آگے بند باندھ دیا اور ایسے بہترین طریقے سے کہ کسی کو انگلی اٹھانے کی ہمت بھی نہ ہو سکی۔معاملہ پارلیمنٹ کے سپرد ہوا تو پارلیمنٹ نے بھی یہ بھاری پتھر چوم کے کچرے کے ڈھیر پہ اٹھا پھینکا۔عدلیہ میں نچلے درجے میں جو لوٹ مچی ہوئی تھی وہ تو کوئی خاص کم نہ ہو سکی لیکن ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے خود بھی مقدس ھائے کا چولہ اتار پھنکا اور دوسرے بہت سارے اداروں کو بھی عدلیہ کی تقلید کرنا پڑی ۔قومی سطح پر جوابدہی کا عمل شروع ہوا۔میڈیا کے نوجوان اپنے کیمرے اور قلم لے کے اس جوابدہی کے عمل کو آگے بڑھا رہے ہیں۔اب سوال کا ڈر ہر چور کرپٹ اور بد معاش کے سر پہ سوار ہے۔

حال ہی میں امریکی ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں قتل ہونے والے پاکستانیوں کا معاملہ ہی لیجئیے۔پاکستانی سرکار پہ حسب معمول لرزہ طاری ہے۔اس کو معاف کرنے کے بہانے تراشے جا رہے ہیں۔عدلیہ کی اس آزادی کا نتیجہ یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی نے بھی پہلا قطرہ ہونے کا ثبوت دیا اور ہیلری کو جھنڈی کرا دی۔اگر آج ہمارے ملک میں ڈوگر کورٹس ہی کی ایکسٹینشن چل رہی ہوتی تو کیا ہم امریکہ والوں کو کہہ پاتے کہ ہماری عدالتوں پہ اعتبار کرو ہماری عدالتیں آزاد ہیں۔امریکی ہماری اس حرکت پہ مسکراتے اور ہمارا مضحکہ اڑاتے۔ امریکی اس وقت بھی جناب چیف جسٹس کی بحالی کے خلاف تھے۔صرف اس لئے کہ انہیں یقین تھا کہ اگر یہ عدلیہ جسے اپنے عوام کی حمایت حاصل ہو بحال ہو گئی تو ہمارا بوریا بستر بھی گول ہو جائے گا۔ قارئین ان امریکیوں کے خدشات اب حقیقت کا روپ دھارنے کو ہیں۔اب جہاں وزیروں کو اپنے گناہوں کے لئے عدالتوں میں حاضری دینا پڑتی ہے۔جہاں اب لٹیروں کا پیٹ چاک کر کے لوٹ کا مال برآمد کرنے کی تیاریاں ہیں وہاں اب ہم ان امریکیوں کو بھی بتا سکتے ہیں کہ ہماری عدالتیں بھی تمہاری طرح آزاد ہیں وہ جو فیصلہ کریں گی وہ ہمیں تو قبول ہو گا ہی تمہیں بھی اسے قبول کرنا پڑے گا۔میں سوچتا ہوں کہ اگر ڈوگر کورٹس ہوتیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 54150 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.