بسم اﷲ الرحمن الرحیم
مصر کے عوام نے وقت کے دھارے کا رخ بدل کر ایک شاندار تاریخ کی بنیاد رکھ
دی ہے،جس سے یہ تاریخی حقیقت طشت از بام ہوتی ہے کہ ظلم و استبداد ،ڈھٹائی
اور ملک و ملت کی دشمنی سے ناک تک بھرے ہوئے حکمران کبھی بھی عوامی غیض
وغضب کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور سازشوں سے کبھی کسی قوم کی
تاریخ نہیں لکھی جا سکتی۔غلامی کی زنجیریں ٹوٹنے میں اگرچہ وقت لگتا ہے اور
اٹھارویں صدی میں کل امت شرق تاغرب غلامی کے اندھیرے غار میں ٹامک ٹوئیاں
مار رہی تھی اور دور دور تک روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی تھی ۔رہی سہی
خلافت عثمانیہ بھی اپنے زوال اور پھرمعدومیت کی اتھاہ گہرائیوں کی طرف تیزی
سے رواں دواں تھی ۔ہندوستان اور افغانستان میں اگر کہیں کسی نے آزادی کی
للکار بلند بھی کی تو اپنوں نے ہی اس کا گلا گھونٹ دیا جبکہ مشرق وسطی کا
حال بقیہ امت سے بھی بدترین تھا اور گھر کو گھر کے چراغ سے ہی آگ دکھائی جا
رہی تھی۔یہودونصاری بہت تیزی سے امت مسلمہ کے اندر دراندازی کرتے چلے آرہے
تھے اور عبداﷲ بن ابی کے وارثان نے ان کے لیے قلب و نظر کشاد کیے رکھے
تھے۔تب اس آسمان نے دیکھا کہ صدی کے کروٹ لیتے ہی پوری امت کے اندر آزادی
کی تحریکیں چلنا شروع ہو گئیں اور ایک بار پھر امت کی کوکھ سے بلند قامت
قیادت نے جنم لیا اور طاغوت سے ٹکرانے کی بجائے اس بہتے ہوئے پانی کی مانند
اپنے لیے راستے تلاش کیے جس کی راہ میں بڑی بڑی چٹانیں بھی سدراہ بنیں تو
وہ اپنا قد اونچا کر ان کو فتح کرتا ہوا اپنی منزل کی طرف پہلے سے زیادہ
تیز رفتاری کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے اور دنیا کی کوئی قوت اس کے سامنے بند
باندھ کر اسکو ہمیشہ کے لیے روک نہیں سکتی۔
انیسویں صدی امت کی نشائة ثانیہ کے مقدمے کی صدی تھی جس میں میدان بدرکی
اولین صدائے تکبیر سے جنم لینے والے دو قومی نظریے نے اپنے چہرے پر سے لگی
گرد صاف کی اور ایک بار پھر دنیائے انسانیت کے سامنے اپنے تاریخی حقائق کے
ساتھ جلوہ افروز ہوا۔افغانستان کے بلندوبالا پہاڑ ہوں یا جنوبی ایشیاء کے
سرسبزوشاداب میدانی وادیاں یا پھر مشرق وسطی کے لق و دق صحراہوں امت کی
بیدار مغز قیادت نے فرزندان توحید کی صف بندی وشیرازہ بندی شروع کی اور
دیکھتے ہی دیکھتے بیسویں صدی کے آغاز تک امت کے تن نیم مردہ میں نئی روح کی
آب و تاب آسمانوں سے بھی بآسانی دیکھی جانے لگی یہاں تک کہ بیسویں صدی کے
وسط سے آزادی کی بے تاب لہریں ساحل کو چھونے لگیں اور بحردیارغیر کے بے
عمیق بھنور اور سطح آب کے نیچے بعید ازنظر جان لیوا جانوروں سے بچتے ہوئے
اس سفینہ امت کے سواروں کو ساحل کی ٹھنڈی ہوائیں پہنچنا شروع ہو گئیں اور
مرکز خلافت سے محروم اس ملت نے جزوی آزادی میں سانس لینا شروع کر دیا لیکن
بہرحال مکمل آزادی کی منزل ہنوز دور تھی۔ بیسویں صدی ہی کے اواخر میں ایک
طویل عرصے کے بعد تجدید جہاد کا مژدہ بھی سماعت پزیر ہوا، اور اسکے ثمرے کے
طور پر وسطی ایشیا کے بچھڑے ہوئے امت مسلمہ کے سینہ چاکان وطن بھی امت کے
کل میں ضم ہو گئے۔
دو صدیوں پر محیط اس طویل جدوجہد اور اس کے حسن نتائج کو طاغوت ٹھنڈے پیٹوں
کیسے برداشت کر لیتا تب دور غلامی کی باقیات کو پوری شدومد کے ساتھ امت کے
اوپر مسلط رکھا گیا،کہیں مسلمان ملکوں کی افواج دورغلامی کی روایات کو تازہ
کیے ہوئے ہیں تو کہیں حکمران خاندانوں نے اپنے سابقہ آقاؤں کی آشیرباد کو
اپنا نصب العین بنا رکھا ہے تو کہیں نوآبادیاتی تہذیب کے گماشتے شعائر
غلامی سے سرشار اپنے آپ کو”جدت پسند“کہلا کر تصوراتی طور پر آج بھی
دورغلامی میں مادرپدر آزادی کی زندگی گزار رہے ہیں۔یہ طبقات کہیں بندوق کی
طاقت سے اور کہیں دولت کی قوت سے اور کہیں سازشوں کے زور پر آج بھی امت
مسلمہ کی گردن پر غلامی کی باقیات کے طور پر کسی آسیب کے منحوس سائے کی طرح
مسلط ہیں۔ لیکن آفرین ہے مصر کے عوام کو کہ جنہوں نے اپنی مختصر لیکن موثر
جدوجہد کے ساتھ اتحادواستقامت سے اپنے ملک کو دورغلامی کی باقیات سے آزاد
کرایا ہے۔
اس تحریک کے آغاز کے طور پر مصر بھر میں تیس برسوں سے مسلط صدر حسنی مبارک
کے خلاف مظاہرے پھوٹ پڑے ۔مصر کے تمام بڑے شہروں میں عوام جوق در جوق سڑکوں
پر نکل آئے اور پر تشدد مناظر بھی دیکھنے کو ملے۔ حکومت کے مخالفین کے
سامنے انتظامیہ بے بس ہے اور بہت تگ و دو اور بے تحاشہ افرادی قوت کے
باوجود بھی حالات پر کنٹرول پایا نہیں جا سکا ،آخری اطلاعات تو یہ بھی آتی
رہیں کہ مصری عوام دنیا بھر کے شہروں میں اپنے ملک پر مسلط حکمرانوں کے
خلاف نکل پڑے ہیں۔لندن میں مصری عوام نے اپنے ملک کے سفارتخانے کے باہر
حسنی مبارک کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا،نعرے لگائے اور جھنڈے اور بینرز بھی
لہرائے جن پر مصری حکومت کے خلاف نعرے درج تھے۔اسی طرح جینیوا میں بھی مصری
باشندوں نے حسنی مبارک کے خلاف مظاہرہ کیا اور انہوں نے اپنے بینرز پر عربی،
فرانسیسی اور انگریزی میں نعرے درج کر رکھے تھے۔کینیڈا کے بھی تمام بڑے
شہروں میں مصریوں نے حسنی مبارک کے خلاف احتجاج کیا۔ ٹورانٹو میں مصریوں کے
راہنما”احمد خلیفہ“نے مظاہرے کے دوران اخباری نمائندوں سے کہا کہ وہ مصر کے
لوگوں کے لیے بہت جلد آزادی کی نوید سننا چاہتے ہیں۔یورپ کی طرح امریکہ کے
بھی گردونواح میں مصری عوام اپنے اوپر مسلط حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر نکل
کر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔
حسنی مبارک ،جس کے ظلم و استبداد کے خلاف مصر کے عوام اٹھ کھڑے ہوئے
1928میں پیدا ہوئے، گویا اب ان کی عمر 83برس سے بھی تجاوز کر رہی ہے ۔یہ
عمر بیشتر ممالک میں ریٹائرمنٹ کی عمر سے بھی بہت آگے کی عمر ہے ۔عام
مشاہدہ یہ ہے کہ اس عمر میں انسان اپنے آپ کے لیے بھی بمشکل کافی ہوتا ہے
کجا یہ کہ سلطنت و ریاست کی ذمہ داریوں سے بحسن و خوبی سبکدوش ہو سکے۔اپنے
منصب کے اعتبار سے یہ مصر کے چوتھے صدر تھے جو 14اکتوبر1981کو پہلی مرتبہ
اپنے پیش رو انور سادات کے قتل کے بعد مسہری اقتدار پر حکومت کی دوشیزہ سے
ہم آغوش ہوئے۔اس کے بعد چار دفعہ کے ریفرینڈم 1987،1993،1999اور2005میں
بذات خود کامیاب قرار پائے کیونکہ ریاستی استبداد کے باعث کسی میں اتنی
جرات نہیں تھی کہ ”حاضر سروس“صدر کے خلاف میدان میں آسکے۔یہ جمہوریت کا
عجیب پرتو ہے کہ انتخابات ہوتے ہیں اور ایک ہی نمائندہ میدان میں ہوتا ہے
اور وہی 98.9%رائے دہندگان کی موافق رائے لے کر تاحیات منصب اقتدار سے
چمٹتا رہتا ہے۔اور اس طرح کے آمروں کو سب سے پہلے یورپی حکمران شاباش اور
مبارکباد دیتے ہیں کہ جن کے اپنے ملکوں میں جمہوریت کا بالکل دوسرا چہرا
نظر آتا ہے،لیکن یہ سیکولر مغربی تہذیب کا دورخا پن ہے کہ اپنے لیے جس نظام
کو پسند کرتے ہیں مسلمانوں کے لیے اس کے برعکس نظام انہیں بھاتا ہے۔
مصر کے بعد ایسا تو قطعاَ َنہیں ہوگا کہ تبدیلی کی لہر یہیں تک ہی رک
جائے،دنیا ایک عالمی گاؤں بن جانے کے مصداق اب تو مشرق میں ہونے والی
تبدیلیوں کے اثرات کی لہریں ہزارہا میل کا فاصلہ طے کر کے براعظموں کے اس
پار مغرب کے ساحلوں سے بھی جا ٹکراتی ہیں تو مصر کے جوار میں موجود
دورغلامی کی باقیات اور سیکولر مغربی تہذیب کے پروردہ طفیلی بوٹیاں اس طرح
کے انقلابات سے کیسے بچ پائیں گی؟ گزشتہ صدی میں امت کو آزادی مل چکنے کے
بعد جو سبق نامکمل رہ گئے تھے ان کو بہرحال تکمیل پزیر ہونا ہے اور استعمار
نے جن جن میر صادق اور میر جعفر کے ہاتھوں میں تیشے پکڑا کر امت کے مقدس
جسم پر نشتر چلائے تھے ان کی نسلوں سے امت کا انتقام ابھی باقی ہے۔ کیا امت
کے سپوت بھول جائیں گے کہ زیرزمین سیال مادے کی دولت کس کے ہاتھوں میں آکر
کس کے خلاف استعمال ہو رہی ہے؟؟اور امت کا حافظہ اتنا کمزور تو نہیں کہ
ماضی قریب کی چند دہائیوں قبل ہونے والی عالمی کھیلوں میں دشمن کی زبان
بولنے والے حکمرانوں کے رویوں کے نقوش اذہان سے مٹنے لگیں۔خون فلسطین سے
سقوط کابل تک اور شیشان کے خون آشام افق سے کشمیر کی لہو رنگ وادیوں اور
عراق کی گلیوں تک خون شہدا سے رقم ہونے والی مقدس تاریخ کا ابھرتا ہوا سورج
پوری انسانیت کے لیے نوید صبح کا پیغام لیے بہت جلد طلوع ہوا چاہتا ہے۔
آنے والے دنوں کے عقب میں مصر کی حالیہ تاریخ اس ملک کے یمین و یسار میں
بعجلت دہرائی جانے والی ہے کہ یہی تاریخ کا سبق ہے اور یہی خالق کائنات کی
سنت بھی کہ کفر سے تو حکومتیں قائم رہ سکتی ہیں لیکن ظلم سے اقتدار کو طویل
دینا ممکن نہیں رہتا۔ماضی بعید سے مشرق وسطی اپنے تہذیب و تمدن میں مصر کا
محتاج دامن رہا ہے اور آج بھی تاریخ کا مسافر دیکھ رہا ہے کہ مصر سے نکلنے
والا یہ گرم لاوا اپنے گردونواح کے خس و خاشاک کو نہ صرف یہ کہ اپنے ساتھ
بہا لے جائے گا بلکہ عین ممکن ہے کہ یہ آتش فشاں مصر سے کہیں زیادہ
شوروغوغا کے ساتھ زمین کی اتھاہ گہرائیوں سے نکل کر اس طرح انقلاب آفرین ہو
کہ دنیا انگشت بدنداں رہ جائے ۔عرب کے صحرا سے اٹھنے والے یہ انقلابات ایک
بار پھر اوائل اسلام کی یاد تازہ کرنے کو ہیں اور امت کا بکھرا ہوا شیرازہ
ایک بار جمع ہونے کو ہے اور سیکولر مغربی تہذیب کے دن گنے جانے کو ہیں کہ
انسانیت پر سے مکروفریب اور سودوعریانیت وتنگ نظری و عالمی غلامی کے بنے
گئے یہ کمزور جالے اب اپنے انجام کے قریب آن لگے ہیں ،انشاءاﷲ تعالیٰ۔ |