مقبوضہ کشمیر اور ایران میں گذشتہ دنوں ہونے والے بم
دھماکوں کو لے کر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی۔ ایران میں بم حملے کا
یہ پہلا واقعہ نہ تھا، اس سے پہلے ایسے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ گزشتہ
برس ستمبر میں ایک اور واقعے میں جنوب مغربی شہر اہوز میں فوجی پریڈ پر
حملے سے 24 افراد ہلاک ہوگئے تھے جب کہ 6 دسمبر کو چاہ بہار پولیس چیک پوسٹ
کار بم دھماکے میں دو پولیس افسران ہلاک اور 15زخمی ہوئے تھے۔ ایران کی
جنوبی سرحدوں میں اکثر و بیشتر بم حملوں پر پاسدارانِ انقلاب کے القدس ہیڈ
کوارٹر کے کمانڈر محمد مرانی کا کہنا تھا کہ ’’حالیہ دو برسوں میں قریباً
30 ٹن دھماکہ خیز مواد پکڑا جاچکا ہے۔‘‘ ایران کی پاسداران انقلاب کے ڈپٹی
کمانڈر جنرل حسین سلامی نے ’’ملک کے جنوب مشرقی صوبے سیستان میں امریکا،
اسرائیل اور اپنے سخت حریف سعودیہ کو زاہدان حملے کا ذمے دار قرار دیا ہے
کہ ایران میں کیا جانے والے حملہ معمولی نہ تھا بلکہ یہ گلوبل سطح پر تیار
شدہ خطرناک اسٹرٹیجی کے تحت کیا گیا۔‘‘ لیکن دوسری جانب میجر جنرل محمدعلی
جعفری نے پاکستان کے خلاف دشنام طرازی کرتے ہوئے ’’حملے کی دھمکی دی۔‘‘ جسے
پاکستانی عوام نے سخت ناپسند کیا کہ ایران بھی کابل و بھارت کی طرح بنا
تحقیق الزامات عائد کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کرتا ہے۔
بھارت نے پلوامہ واقعے پر پاکستان پر حسب توقع جھوٹے الزامات عائد کرتے
ہوئے اپنی انتخابی مہم کو تیز کردیا ہے۔ امریکی اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کو
انٹرویو دیتے ہوئے سابق بھارتی فوجی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل (ر) دپندرا سنگھ
ہوڈا نے اعتراف کیا کہ ’’پلوامہ حملے میں بھارت ہی کا ساڑھے سات سو پاؤنڈ
بارودی مواد استعمال ہوا۔ اتنا بارود پاکستان سے لانا ممکن نہیں تھا۔‘‘
پلوامہ میں چند روز قبل مقامی نوجوان عادل ڈار نے سری نگر سے 20 کلومیٹر
دُور ہائی وے سے گزرنے والے بھارتی فوج کے سیکیورٹی دستے پر خودکُش حملہ
کیا تھا، جس کے نتیجے میں اب تک 47 سے زائد فوجی ہلاک جب کہ متعدد شدید
زخمی ہوئے۔ جس کے بعد بھارتی شدت پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کی املاک کو
نقصان پہنچانا شروع کردیا اور بھارتی میڈیا ریٹنگ کے چکر میں باؤلا ہوکر
اوٹ پٹانگ رپورٹیں اور خبریں دینے لگا۔ مضحکہ خیز رپورٹنگ پر پوری دنیا میں
ناصرف بھارت کی جگ ہنسائی ہوئی بلکہ اس کے میڈیا کی انتہائی غیر ذمے دارانہ
رپورٹنگ مذاق کا نشانہ بھی بنی۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی آمد سے قبل ایران اور مقبوضہ کشمیر میں بم
دھماکے محض اتفاق قرار نہیں دیے جاسکتے، کیونکہ ایران میں بارڈر سیکیورٹی
اور داخلی حفاظت کے لیے سخت ترین منصوبے کے تحت نگرانی کا مربوط نظام نافذ
ہے۔ اس حملے کا فائدہ کس کو پہنچتا ہے، نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں۔ ایران
کے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں اور اسرائیل،
ایران کو اور ایران اسرائیل اور امریکا کو تواتر سے دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔
اس تناظر میں ایرانی قیادت کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان
پر الزام تراشی سے اُن عناصر کو تقویت ملتی ہے جو خطے میں قیام امن میں
رکاوٹیں کھڑی رہتے ہیں۔ سعودی عرب کے ایران کے ساتھ کشیدہ تعلقات کسی سے
پوشیدہ نہیں۔ لبنان، اردن، قطر، یمن، شام، عراق میں ایران کا کردار بھی کسی
سے پوشیدہ نہیں۔ عراق و یمن اور شام میں جنگجو ملیشیاؤں کو جنگی سہولتیں
دینا اور سعودی عرب سے تناؤ آج کی بات نہیں، بلکہ برسہا برس سے دونوں ممالک
کے درمیان تعلقات سازگار نہیں۔
بھارتی جنگی جنون اور گیدڑ بھبکیاں بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ وزیراعظم عمران
خان نے سعودی وفد کی پاکستان میں موجودگی کے سبب مقبوضہ کشمیر اور ایران
میں ہونے والے واقعات پر دھمکیاں ملنے پر مصلحت اور سفارتی آداب کے تحت
توقف کیا، بعدازاں قومی خطاب میں کرارے جواب پر مودی سرکار تلملاکر اوچھے
ہتھکنڈوں پر اتر آئی، راجستھان سے پاکستانیوں کو نکالنے کے احکامات، واہگہ
بارڈر پر تجارتی راہداری بند کرنے، پاکستانی فنکاروں، پی ایس ایل کی نشریات
پر پابندی اور مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کی شہادتیں جیسے عوامل بھارتی
دہشت گرد حکومت کے مکروہ کردار کو بے نقاب کرتے ہیں۔ بھارت میں متعدد
علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں، عوام کو ایک وقت کی روٹی میسر نہیں
لہٰذاجنگی جنون کے بجائے بھارت اپنے عوام کو بھوک افلاس اور غریبی سے نجات
دلانے پر توجہ مرکوز کرے۔
پاکستان نے آج تک ایسا کوئی عمل نہیں کیا کہ کسی سربراہ مملکت کے پہلے
بھارت یا کسی بھی اور ملک جانے پر اعتراض کیا ہو کہ اُس سربراہ کو پہلے
یہاں آنا چاہیے تھا۔ پاکستان نے کسی بھی ملک کے دوسری مملکت کے ساتھ تجارتی
معاہدوں پر بھی کبھی اعتراض نہیں کیا کہ وہاں سرمایہ کاری کیوں ہورہی ہے۔
ایرانی چاہ بہار ہو یا بھارت میں سعودی عرب سمیت کسی بھی ملک کی سرمایہ
کاری، اس پر پاکستان نے اشتعال انگیز منفی پروپیگنڈا نہیں اپنایا، پاکستان
میں کابل، دہلی اور تہران کے سفارت و قونصل خانے بھی موجود ہیں لیکن انہیں
پاکستانی عوام نے کبھی نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی بلکہ غیر ملکی سفارت
کاروں کے تحفظ کے لیے سیکیورٹی فورسز نے اپنی قیمتی جانوں کی قربانیاں دیں۔
پاکستان میں سعودی ولی عہد کا استقبال والہانہ عقیدت و محبت کا اظہار تھا۔
محمد بن سلمان جب یہ کہہ رہے ہوں کہ ’’انہیں سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر
سمجھا جائے‘‘ تو اس کے بعد بھارت سمیت کسی بھی ملک کو ادراک کرلینا چاہیے
کہ سعودی عرب اور پاکستان کا تعلق دیرینہ اسلامی بھائی چارے سے جڑا ہوا ہے۔
پاکستان افغان امن تنازع کے حل کے لیے اپنے وسائل سے بڑھ کر کردار ادا
کررہا ہے، لیکن اشرف غنی انتظامیہ کا رویہ مکمل غیر معاندانہ ہے جب کہ
امریکا کا آنکھیں بند کرلینا احسان فراموشی کی بدترین مثال ہے، تاہم
افغانستان، ایران اور بھارت میں امن خود پاکستان کے لیے اہم ہے۔ مقبوضہ
کشمیر پر بھارت کا اقوام متحدہ کی قراردادوں اور پاکستان سے مذاکرات سے
فرار، ہندو دہشت گرد بھارتی حکومت کا وتیرہ بن چکا ہے۔ کابل انتظامیہ،
افغان طالبان کے ساتھ امریکا کے براہ راست مذاکرات پر تنہائی کا شکار ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف کشمیری نوجوانوں کی قوت برداشت اُسی
طرح ختم ہورہی ہے، جیسے افغانستان میں امریکی جارحیت پر افغان مزاحمت کاروں
کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا کہ امریکا جیسی عالمی قوت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور
ہوئی۔ ایران کو مشرق وسطیٰ کی صورت حال میں پاکستان کی غیر جانب داری کو
تسلیم کرنا چاہیے کہ اگر پاکستان سوویت یونین کے خلاف افغانستان کی طرز پر
امریکا کو ’’سہولت‘‘ دے دیتا تو ایران کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ عراق، شام
اور یمن تک پہنچ پاتا۔ ایران کا پاکستان نے ہمیشہ ساتھ دیا اور متحدہ عرب
امارات، سعودی عرب کی ناراضی بھی مول لی، ایران کو اپنا رویہ درست کرنے کی
زیادہ ضرورت ہے۔ پاکستان اپنے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود پڑوسی ممالک
سے برابری کی سطح پر تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے، تمام تنازعات کا حل طلب
تصفیہ چاہتا ہے۔ ایران، بھارت اور افغانستان تمام تصفیہ طلب معاملات پر
سفارتی تدبر اور اخلاقی آداب کا خیال رکھیں۔ مذاکرات کے ذریعے معاملات طے
کرنے کو ترجیح دیں۔ پاکستان کی امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھی جائے، کیونکہ
امن پسندی کی خواہش، اپنی طاقت پر قابو رکھنے والے ہی کرتے ہیں۔
|