پلوامہ حملے کے بعد ہندو پاک اور سعودی عرب ۰۰۰

ہندوستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں مزید بہتری کی امیدیں دکھائی دے رہی ہیں ۔ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے جس طرح پروٹوکول کو بالائے طاق رکھ کر سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کا استقبال کرنے کیلئے خود ایئر پورٹ پہنچ گئے اور انہوں نے شہزادہ محمد بن سلمان سے بغلگیرہوکر گرمجوشی کا مظاہرہ کیا اور ولیعہد نے بھی وزیر اعظم کا پرجوش انداز میں جواب دیااس طرح دونوں قائدین ایک دوسرے کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے ملاقات کی خوشی کا اظہار کیا۔راشٹرپتی بھون میں ولیعہد محمد بن سلمان کا شاندار استقبال کیا گیا اور گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ ٰصدر جمہوریہ ہند مسٹر رام ناتھ کووند نے راشٹرپتی بھون میں ولیعہدکا خیر مقدم کیا، سعودی شہزادہ اور دیگر مہمانوں کیلئے راشٹرپتی بھون میں ظہرانہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ شہزادہ محمد سلمان اور وزیر اعظم ہند نریندر مودی نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے خلاف تشویش کا اظہار کیا۔ اس موقع پر شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ دہشت گردی اور انتہاء پسندی کا خاتمہ ضروری ہے اور ہم مشترکہ طور پر اس کے خلاف کارروائی کریں۔ انہوں نے گذشتہ دنوں پلوامہ دہشت گرد حملہ، جس میں چالیس سے زائد ہندوستانی نیم فوجی سیکیوریٹی(سی آر پی ایف) جوانوں نے شہادت پائی ، اس کے بعد ہندو پاک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو ختم کرنے کیلئے دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کی پیش کش کی اور کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے ذریعہ ہی مسئلہ کا حل ممکن ہے ۔ ولیعہد نے دہشت گردی کے خلاف ہندوستانی رول کی ستائش کی اور سعودی عربیہ کی جانب سے ہندوستان کے ساتھ انٹیلی جنس معاملہ میں تعاون کی پیشکش کی۔شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ ہم نے اس بات پراتفاق کیا ہے کہ دہشت گردی کی کسی بھی شکل میں مدد نہیں کرنی چاہیے اور ہمیں ایسے ممالک پر دباؤ ڈالنا چاہیے جو دہشت گردی کے پیچھے ہیں، دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کرنے کے لئے دہشت گرد گروپوں کی حمایت کو ختم کرنے اور انہیں سزا دینا لازمی ہے تاکہمستقبل میں نوجوان نسل اس سے محفوظ رہ سکیں۔ انہو ں نے ان تمام باتوں پر خوشی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان ان کی باتوں سے اتفاق کرتاہے ۔ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان جو وزیر دفاع بھی ہیں انکا ہندوستان کا یہ پہلا دورہ تھا ۔ مشترکہ پریس کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی نے اسٹریٹجک اور تجارتی تعلقات کے سلسلہ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت توانائی کی شراکت داری کو اسٹریٹجک شراکت داری میں تبدیل کرنے کا ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک کے درمیان خریدو فروخت کے تعلقات کا معاملہ نہیں ہے ۔نریندر مودی نے ہندوستان میں سعودی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہندوستان خام تیل کی درآمدات کا ایک چوتھائی حصہ سعودی عرب سے حاصل کرتا ہے اور 2018-19میں ہندوستان نے اس پر 87ارب ڈالر خرچ کئے۔ امریکہ ، چین اور متحدہ عرب امارات کے بعد سعودی عرب ہندوستان کا چوتھا بڑا تجارتی حلیف ملک ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران ہندوستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں مزید بہتری آئی ہے کیونکہ 2016میں نریندر مودی کا سعودی عرب میں شاندار استقبال کیا گیا تھا اوراس موقع پر دونوں ممالک کے درمیان کئی ایک تجارتی و اقتصادی معاہدے طئے پائے تھے اور وزیر اعظم کو شاہی حکومت کی جانب سے سعودی عرب کا باوقار سویلین ایوارڈ عطا کیا گیا تھا۔ شہزادہ محمد بن سلمان کی ہندوستان آمد اور یہاں پر انکا شاندار خیر مقدم مستقبل قریب میں دونوں ممالک کے درمیان دفاعی اور تجارتی تعلقات میں مزید بہتری پیدا کرسکتا ہے اور خصوصی طور پر دہشت گردی سے نمنٹے کیلئے مثبت پہل ہوسکتی ہے ۔

جس طرح سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کا ہندوستان میں وزیر اعظم ہند کی جانب سے پرتپاک خیر مقدم کیا گیا اس سے قبل پاکستان میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے شہزادہ محمد بن سلمان کا شاندار استقبال کیا اور انہیں ایئر پورٹ سے وزیراعظم ہاؤس کو خود ڈرائیو کرتے ہوئے لے گئے اس سے وزیراعظم عمران خان کی سادگی، مہمان نوازی اور اسلام پسند ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان جو وزیر دفاع بھی ہیں انکی سیکیوریٹی کے لئے سعودی عرب سے خاص طور پر انکے روز مرہ استعمال کی خصوصی گاڑیاں اور سیکیوریٹی عہدیدار پاکستان پہلے ہی پہنچ چکے تھے اس کے باوجود وزیراعظم عمران خان کا اپنے مہمان کو خود گاڑی میں ڈرائیو کرتے ہوئے ساتھ لے جانا قابلِ تعریف اقدام ہی نہیں ایک مثال ہے۔ولیعہد محمد بن سلمان کے پاکستان کے دورہ کے موقع پر پاکستان میں 20ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط ہوئی ہیں۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کواپنے دورہ ہند کے موقع پر اپنا بڑا بھائی قرار دیا تو وہیں انہوں نے پاکستانی دورے کے موقع پر کہا کہ وہ سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر ہیں۔شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے موقع پر سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کو جو سعودی جیلوں میں قید ہیں انکی رہائی کیلئے اعلیٰ سطح پر درخواست کی گئی تھی جسے فوراً قبول کرتے ہوئے سعودی ولیعہد نے دو ہزار سے زائد پاکستانیوں کو جو سعودی جیلوں میں قید رہائی کے احکامات دیئے ۔ ہندوستانی حکومت کو بھی چاہیے تھا کہ وہ بھی اپنے ہندوستانی شہریوں کو جو سعودی عرب میں اپنی نوکریوں سے نکال دیئے گئے ہیں انہیں کئی کئی ماہ کے بقایاجات سعودی کمپنیوں کی جانب سے ملنے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ ہزاروں ہندوستانی تارکین وطن بھی جیلوں میں قید ہیں انکی رہائی اور انہیں ملک واپس آنے کے انتظامات کیلئے سعودی ولیعہد سے درخواست کرنی چاہیے تھی ۔ شاید ہوسکتا تھا کہ ہندوستان کے بھی کئی ہزار روزگار سے محروم کردیئے گئے لوگ واپس آسکتے تھے۔

سعودی شہزادہ کا دورہ جاری ہے اور اس موقع پر ہند و پاک کے درمیان کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ جے پور کی جیل میں ایک پاکستانی قیدی کو 20؍ فبروری کو دوسرے قیدی نے ہلاک کردیا۔ ایک طرف بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ)میں کلبھوشن یادو کی رہائی کیلئے مقدمہ جاری ہے تو دوسری طرف پاکستانی قیدی کی ہندوستانی جیل میں ہلاکت سفارتی تعلقات مزید ابتر ہونگے۔ نریندر مودی پر دباؤ ہیکہ وہ الیکشن بعد میں لڑیں اور پہلے پاکستان سے لڑیں۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل نے پاکستان کے خلاف ہندوستان کو غیر مشروط مدد کا اعلان کیا ہے۔ فرانس نے مسعود اظہر کو بین الاقوامی دہشت گرد قرار دینے کیلئے اقوام متحدہ میں تجویز پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نیوزی لینڈ پارلیمنٹ میں پلوامہ خود کش دہشت گرد حملے کی مذمتی قرار داد پیش کی گئی ایساکرنے والا نیوزی لینڈ پہلا ملک ہے۔

جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ سعودی ولیعہدشہزادہ محمد بن سلمان کی پاکستان آمد پر پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہوئے انہیں سرکاری قیامگاہ وزیر اعظم ہاؤس تک لے گئے ۔جس کا سوشل میڈیا پر کافی مذاق اڑایا گیا۔ ہندوستانی سیاست دانوں نے شہزادہ محمد بن سلمان کی ہندوستان آمد پر وزیر آعظم نریندر مودی سے یہ سوال کیاکہ وہ پاکستان کی مدد کرنے والے پاکستان کے دوست سعودی ولیعہد کے استقبال کیلئے پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایئر پورٹ کیوں پہنچ گئے اور ان سے بغلگیر کیوں ہوئے؟ کیا شہید جوانوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا یا انکی توہین کی گئی۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے ہندوستان کو پلوامہ میں سی آر پی ایف (نیم فوجی اہلکاروں) پر خودکش حملے کی تحقیقات میں مکمل تعاون کرنے کا پیشکش کیا ہے ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق انہوں نے یقین دلایا کہ اگر ہندوستان اس واقعہ میں پاکستانیوں کے ملوث ہونے کے ثبوت فراہم کرتا ہے تو پاکستان انکے خلاف کارروائی کریگا ۔ انکا کہنا تھا کہ ’’آپ تحقیقات کروانا چاہتے ہیں کہ کوئی پاکستانی اس میں ملوث تھا تو ہم تیار ہیں‘‘۔پاکستانی وزیر اعظم کا کہنا ہیکہ ’’ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے مفاد میں ہے کہ نہ کوئی ہماری سرزمین سے جاکر دہشت گردی کی کارروائی کرے اور نہ ہی باہر سے آکر پاکستان میں کوئی دہشت گردی کرے‘۔ عمران خان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کہا کہ ہندوستان سے دہشت گردی کے سلسلہ میں بات کرنے وہ تیار ہیں کیونکہ دہشت گردی اس خطے کا مسئلہ ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ یہاں سے دہشت گردی ختم ہو۔اس سے قبل ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ پلوامہ کے حملے کے سات بات چیت کا وقت ختم ہوگیا اور اب دہشت گردی کے خلاف ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کارروائی سے ہچکچانہ بھی دہشت گردی کو فروغ دینے کے برابر ہے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ ہندوستان کو سوچنا چاہیے کہ پاکستان کو اس حملے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اور اگر ہندوستان نے پاکستانی سرزمین پر کارروائی کی تو پاکستان اس کا منھ توڑ جواب دے گا۔ اس طرح ہندو پاک کے درمیان کشیدگی بڑھتی جارہی ہے ۔ اگر ہندوستان کی جانب سے پاکستان پر کسی بھی قسم کا حملہ کیا گیا تو ہوسکتا ہے کہ پاکستان اس کا سخت جواب دے۔ اسی لئے ضروری ہے کہ پلوامہ خودکش حملے کی بھرپور تحقیقات کی جائے اور اگر واقعی پاکستان اس میں ملوث ہے تو اسکے ثبوت پاکستان اور اقوام متحدہ کو دیئے جائیں تاکہ پاکستان ماضی کی طرح ثبوت دینے کے بعد خاموشی اختیار نہ کریں۔اب دیکھنا ہیکہ ہندوستان کس طرح پاکستان کو عالمی سطح پر یکہ و تنہا کرنے کی کوشش کرتاہے اور پاکستان دہشت گردی کے اس مسئلہ میں عالمی سطح پر کس طرح اپنی ساکھ کو مزید متاثر ہونے سے بچا پاتا ہے۰۰۰

افغانستان میں قیام امن کیلئے مساعی
افغانستان میں امریکہ اپنی ناکام جنگ کو ختم کرنے کیلئے کوشاں ہے وہ افغان طالبان سے مذاکرات کے ذریعہ کسی نہ کسی طرح افغانستان میں امن کے بہانے اپنی فوج کو واپس لے جانا چاہتا ہے اور اپنی برتری کو قائم رکھنے کیلئے طالبان سے مذاکرات کررہا ہے۔ امریکہ نے جس طرح افغانستان میں طالبان حکومت کو ختم کرنے کے لئے جس خطرناک فضائی اور زمینی حملے کرکے عام افغان شہریوں کا قتل عام کیا اور طالبان کی حکومت کو ختم کیا، آج وہی امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں لگا ہوا ہے۔موجودہ افغان صدر اشرف غنی لون بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں لیکن افغان طالبان سب سے پہلے امریکہ اور دیگر ممالک کی نیٹو فوج کو افغانستان سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں اسی لئے انکی سب سے پہلی یہی شرط ہے کہ امریکی اور دیگر ممالک کی فوج افغانستان سے تخلیہ کردیں ، اس کے بعد ہی وہ افغان حکومت سے بھی مذاکرات چاہتے ہیں۔ افغان طالبان موجودہ صدر اشرف غنی لون کی حکومت کو کٹھ پتلی حکومت قرار دیتے ہیں ۔ اس کے باوجود افغان صدر اشرف غنی لون کی کوشش رہی ہے کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کرکے ملک میں امن و سلامتی کی فضاء بحال کریں۔ اسی سلسلہ میں ذرائع ابلاغ کے مطابق افغانستان کے سیاسی اکابرین اور قبائلی عمائدین کا اجلاس آئندہ ماہ طلب کیا گیا ہے ۔ افغان صدر کے خصوصی مندوب برائے امن محمد عمر داؤد زئی نے اپنے ایک خطاب میں بتایا کہ اجلاس میں ایک ایسا فریم ورک تشکیل دینے کی کوشش کی جائیگی جس کے تحت کابل حکومت بھی افغان طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل شرکت کر سکے ۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جب تک طالبان کے ساتھ افغان حکومت بات چیت میں شامل نہ ہو گی اس وقت تک ملک میں قیام امن ممکن نہیں کیونکہ طالبان کو حکومت کے سامنے یہ بھروسا دینا ہوگا کہ وہ ملک میں دہشت گردانہ حملوں سے گریز کریں گے۔ اورملک میں قیام امن کے لئے بھرپور تعاون کریں گے ۔ اب دیکھنا ہے کہ افغان حکومت کی امن مساعی کیلئے کی جانے والی کوششیں کس حد تک کامیابی کی طرف رواں دواں ہونگی۰۰۰

Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209292 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.