نریندرمودی کے ذہن پرجنگی جنون سوارہے اس سال ہونے والے
الیکشن بے جی پی کے ایک ڈراؤناخواب بن چکے ہیں نریندرمودی اپنی ناقص
کارکردگی کوپاکستان کے خلاف محدودپیمانے کی جنگ چھیڑ کر انتہاپسندہندووں کی
ہمدردیاں حاصل کرناچاہتاہے مگرمودی کے لیے ایسی حرکت کرناکیوں مشکل ہے ؟ایک
توپلوامہ کے معاملے پربھارت سفارتی سطح پراپنامؤقف دنیاسے نہیں منواسکاہے
بھارت کوسفارتی تنہائی کاسامناہے ،حتی کے دوست ممالک بھی اس موقع پربھارت
کے ساتھ نہیں کھڑے ہیں ،بھارت کوسب سے بڑادھچکاسعودی عر ب سے لگاہے پلوامہ
حملے کے فورابعد محمدبن سلمان نے انڈیاکادورہ کیابھارت کی کوشش تھی کہ
سعودی ولی عہدبھی ان کی ہاں میں ہاں ملائیں اور پلوامہ حملے کاالزام
پاکستان پرعائدکرکے مذمت کریں مگرمحمدبن سلمان نے بھارتی چال میں آنے کی
بجائے دونوں ممالک کے درمیا ن جامع مذاکرات پرزوردیااور شہزادہ محمد بن
سلمان نے پاکستان، بھارت جامع مذاکرات کو سعودی عرب انڈیا مشترکہ اعلامیے
کا حصہ بنا دیا۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے جامع مذاکرات کی بحالی کیلئے درکار
ماحول قائم ہونا چاہئے۔ علاقائی استحکام اور پڑوسیوں کے اچھے تعلقات کی
اہمیت پر زور دیا گیا۔ انتہا پسندی اور دہشتگردی کا عفریت تمام اقوام اور
معاشروں کیلئے خطرہ ہے۔ پلوامہ میں ہوئے دہشتگرد حملے کی پرزور مذمت کرتے
ہیں۔ دہشتگردی کے عفریت کو کسی ایک نسل، مذہب یا ثقافت سے منسلک کرنے کی ہر
کوشش مسترد کرتے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم کی توقع اور خواہش کے برخلاف ولی عہد محمد بن سلمان نے
پلوامہ حملے پر کسی قسم کی گفتگو کی اور نہ ہی حملے کے محرکات پر بے بنیاد
بھارتی موقف کی تائید کی جب کہ امریکی صدر کا بیان بھی بھارتی موقف کی نفی
کرتا نظر آتا ہے، اس طرح عالمی سطح پر بھارت کے جھوٹے الزامات کو پذیرائی
نہیں مل سکی ہے۔بھارت کوپلوامہ واقعہ کے حوالے سے مسلسل سبکی کاسامناہے
اوراس وقت وہ سفارتی طورپرتنہاہوگیاہے پلوامہ واقعے پر اقوام متحدہ کی
سلامتی کونسل میں بھارت کی سبکی ہوئی جبکہ پاکستان کو کامیابی ملی ہے،
پلوامہ میں بھارتی فوج کے خلاف خودکش حملہ دہشت گردی کے طور پر نہیں لیا
گیا۔
سعودی عرب کے ولی عہدمحمدبن سلمان نے اگرچہ بھارت کے ساتھ سوارب ڈالرکے
تجارتی معاہدے کیے ،گذشتہ پانچ برسوں میں انڈیا اور سعودی عرب قریب آئے ہیں
اور 2016 میں نریندرا مودی کے ریاض کے دورے پر ان کا پر تپاک استقبال کیا
گیا۔انڈیا کی خام تیل کی درآمدات کا ایک چوتھائی حصہ سعودی عرب سے آتا ہے
اور 2018-2019 میں انڈیا نے اس پر 87 ارب ڈالر خرچ کیے۔جی سی سی کے ممالک
مشرق وسطی میں انڈیا کے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر ہیں۔مگرمحمدبن سلمان نے
بھارت پرواضح کردیاہے کہ تجارت اپنی جگہ ہے ۔تجارت کامطلب یہ نہیں کہ بھارت
کے ہرجائزاورناجائزکام کی حمایت کریں ۔
اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اورپاکستان کاجوتعلق ہے پاک بھارت جنگ میں سعودی
عرب بھارت کے لیے مشکلات کھڑی کرسکتاہے، 65 1971-19کی جنگ میں سعودی عرب یہ
ناقابل فراموش کردار اداکرچکاہے ، انڈیا اپنی توانائی کی زیادہ تر ضرورت جی
سی سی ممالک سے پوری کرتا ہے۔انڈیا صرف سعودی عرب سے ہی ہر روز سات لاکھ
پچاس ہزار بیرل تیل خریدتا ہے۔ جنگ کی صورت میں پاکستان کی اپیل پرسعودی
عرب انڈیاکو تیل کی رسائی بندکردے گا، اورانڈیاکے لیے جنگ جاری رکھنامحال
ہوجائے گا ۔ اور یہ انڈیا کی معیشت کے لیے بھی بہت خطرناک بات ہوگی۔سعودی
عرب اور پاکستان کا تعلق تاریخی رہا ہے۔ کشمیر سے لیکر طالبان تک کے معاملے
پر سعودی عرب پاکستان کے موقف کی حمایت کرتا آیا ہے۔مسئلہ کشمیرکے حوالے سے
اوآئی سی اوررابطہ عالم اسلامی کے پلیٹ فارم سے کشمیریوں کے حق میں
بھرپورآوازاٹھائی ہے ۔
بھارت نے سیکورٹی کونسل میں پلوامہ حملے کے بعد پاکستان نے بھی مختلف ممالک
کے سفیروں کو اپنے موقف سے آگاہ کیا،بھارتی سازشوں کے باوجود سیکورٹی کونسل
کے بیان میں پاکستان کا کوئی ذکر نہیں جبکہ بھارت نے پلوامہ حملے کا الزام
پاکستان پر دھرنے کی بے انتہا کوشش کی تھی مگر عالمی سطح پر سبکی ہوئی،
سلامتی کونسل نے پلوامہ واقعہ کی آڑ میں پاکستان کے خلاف بھارتی پروپیگنڈہ
مہم ناکام بنادی، ثبوت کے بجائے الزامات سے کام لینے کی بھارتی پالیسی
سلامتی کونسل نے بھی رد کر دی،
بھارت کے ساتھ تعلقات کی بات کریں تو کچھ عرصہ پہلے سفارتی سمیت ہر محاذ پر
عالمی سطح پر بھارتی موقف کو تقویت مل رہی تھی۔ مگرپلوامہ حملے کے بعدبھارت
کو بیک فٹ پر جانا پڑگیا۔کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے موقف کو عالمی سطح
پر پذیرائی ملی، بھارت کو اپنی ساکھ بچانا پڑرہی ہے۔یہ پہلی بارہواہے کہ
متحدہ عرب امارات،چین،ملائیشیا،ترکی اوردیگردوست ممالک بھارت کی بجائے
پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں ،سی پیک کی وجہ سے بھی بھارت تنہاہواہے ۔وسطی
ایشیائی ممالک سے تعلقات کی بات کی جائے تو سی پیک کی وجہ سے ان ممالک میں
پاکستان کو خاص اہمیت حاصل ہوچکی ہے دوسرا روس کیساتھ تعلقات میں غیر
معمولی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ دفاعی معاہدے کئے جا رہے ہیں۔مشترکہ جنگی
مشقیں ہو رہی ہیں۔شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن میں پاکستان کو نمائندگی مل
چکی ہے جو خطے کی معاشی خوشحالی کی ضامن تنظیم سمجھی جاتی ہے۔سی پیک کے
ساتھ جڑے تمام ممالک اپنے مفادات کودیکھتے ہوئے پاکستان اورچین کے ساتھ
کھڑے ہیں ۔
اس وقت ایران بھی بھارت کی حمایت میں کھل کرسامنے نہیں آسکتاکیوں کہ اسے
بھی اسی صورتحال کاسامناہے جس کابھارت کوہے ،سیستان حملے کے بعد اگرچہ
ایران نے پاکستان پرالزام عائدکیامگرایران کے مؤقف کوبھی پزیرائی نہیں مل
سکی ہے سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیرنے پاکستان میں کھڑے ہوکرایران کواضح
جواب دے دیاہے ،یران کو مشرق وسطی کی صورت حال میں پاکستان کی غیر جانب
داری کو تسلیم کرنا چاہیے کہ اگر پاکستان سوویت یونین کے خلاف افغانستان کی
طرز پر امریکا کو سہولت دے دیتا تو ایران کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ عراق،
شام اور یمن تک پہنچ پاتا۔ ایران کا پاکستان نے ہمیشہ ساتھ دیا اور متحدہ
عرب امارات، سعودی عرب کی ناراضی بھی مول لی، ایران کو اپنا رویہ درست کرنے
کی زیادہ ضرورت ہے۔ پاکستان اپنے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود پڑوسی
ممالک سے برابری کی سطح پر تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے، تمام تنازعات کا حل
طلب تصفیہ چاہتا ہے۔ ایران، بھارت اور افغانستان تمام تصفیہ طلب معاملات پر
سفارتی تدبر اور اخلاقی آداب کا خیال رکھیں۔ مذاکرات کے ذریعے معاملات طے
کرنے کو ترجیح دیں۔ پاکستان کی امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھی جائے، کیونکہ
امن پسندی کی خواہش، اپنی طاقت پر قابو رکھنے والے ہی کرتے ہیں۔
بھارت کا پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈلوانے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔پیرس میں
ہونے والا ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کی رپورٹ پر اطمینان کا
اظہار کردیا۔ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا حتمی فیصلہ اکتوبر میں
ہوگا۔ایف اے ٹی ایف حکومت پاکستان کی کارکردگی سے مطمئن ہے اور پاکستان کو
گرے لسٹ سے نکالے جانے کے روشن امکانات ہیں ۔
محمدبن سلمان کاپاکستان ،انڈیااورچین کادورہ نہایت اہمیت کاحامل تھا ولی
عہدنے اپنے اس دورے کے دوران ان ممالک سے تجارت کے فروغ کے اربوں ڈالرکے
معاہدے کیے ہیں جس سے واضح ہورہاہے کہ امریکی انخلاء کے بعد یہ خطہ اہم
تجارتی مرکزبننے جارہاہے ،دنیااپنی تجارت اوربزنس جنوبی ایشیاء میں منتقل
کررہی ہے ایسے حالات میں مود ی کا تجارت اورمعیشت کی بجائے جنگ کے شعلوں
کوہوادینااس کاپاگل پن ہی ہوسکتاہے ۔بھارت نے اگریہ پاگل پن کیاتوپھردنیاسے
اس کاخاتمہ ہوجائے گا بھارت کوچاہیے کہ وہ خطے میں امن کے لیے مسئلہ
کشمیرکواقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرے اوراس کے لیے جامع
مذاکرات کاآغازکرے ۔ |