امریکہ پاکستان کو تباہ کرنے میں
کوئی لمحہ ضائع نہیں کر رہا ہے۔بظاہر دوست مگر اندر سے دشمن یہ تمام دکھ
امریکیوں کو پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے سے پیدا ہوا ہے۔اس میں ہمارے ماضی
اور حال کے نااہل حکمرانوں کا سب سے بڑا دخل رہا ہے۔گویا پاکستان کی آزادی
ان نا اہل حکمرانوں نے کب کی گروی رکھی ہوئی ہے۔امریکہ اپنے بڑے ایجنٹ اور
ہمارے بچوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو چھڑانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے
ہوئے ہے۔اس وقت امریکیوں کے لئے ہر ناجائز چیز جائز ہوتی چلی جا رہی ہے۔یہی
وجہ ہے کہ وہ طاقت کے نشے میں طرح طرح سے ہمیں ڈرانے دھمکانے سے بھی گریز
نہیں کر رہا ہے۔ابھی کل ہی کی بات ہے کہ امریکہ کی وزارت خارجہ کے ترجمان
پی جے کرولی نے پاک افغان اور امریکہ سہ فریقی مذاکرات کے التواء کا اعلان
کر کے ہمارے حکمرانوں کو جی کھول کر دباﺅ میں لینے کی بھر پور کوشش کی ہے
اور طرح طرح کے حربے استعمال کر رہا ہے۔ اس ضمن میں اب تو امریکی صدر بارک
اوبامہ بھی میدان میں آگئے ہیں۔ابامہ بھی ہمیں ویانہ کنونشن کا بار بار
طعنہ دیتے دیکھے گئے ہیں۔حالانکہ یہ جاسوس سفارتی اہلکار ہے ہی نہیں۔مگر
چونکہ اس کا تعلق سی آئی اے سے ہے۔جس کی وجہ سے ابامہ کو بھی ویانہ کنونشن
یاد رہ گیا۔ اوبامہ صدر امریکہ کو یہ تک معلوم نہ ہونے پر تعجب ہی کیا
جاسکتا ہے کہ سفارتی استثنیٰ کے حوالے سے پاکستانی قوانین بھی وہ ہی ہیں جو
امریکہ کے ہیں یعنی امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے حال ہی میں قانون نافذ کرنے
اداروں اور عدالتی حکام کو ہدایات جاری کی ہیں کہ کسی مجرم کو پولیس
تحقیقات اور عدالتی حکم کے بغیر استثنیٰ فراہم نہ کیا جائے۔فوجداری قانون
کی خلاف ورزی کے ملزمان کے ضمن میں اسٹیٹ ڈ پارٹمنٹ نے ستمبر 2010 کو یہ
حکم جاری کیا۔جبکہ پاکستان کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو حاصل
متنازعہ استثنیٰ کی وجہ سے لوگوں کے قتل کا لائسنس ملا ہوا تھا۔اس سلسلے
میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی گائڈ لائن اس کے برعکس اس بات پر زور دیتی ہے
کہ خواہ سفارتی استثنیٰ کا حامل شخص اعلیٰ سطح کا ہی کیوں نہ ہو۔سفارتی
استثنیٰ کے ضمن میں ،سفارتی افسران قومی و مقامی قوانین و ضابطوں کے اہتمام
سے بری الذمہ نہیں ہوتا ہے۔سفارتی استثنیٰ سے یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ وہ
مقامی قانون کا مذاق اڑاتا پھرے۔جبکہ عالمی معاہدوں اور طریقہ کار کے مطابق
پولیس افسران اس بات کے پابند ہیں کہ سفارت کار کو حاصل استثنیٰ کا احترام
کریں مگر کسی طور پر بھی اس کے جائم کو نہ تو نظر انداز کیا جائے اور نہ ہی
انہیں معاف کیا جائے۔پاکستان میں بھی یہ ہی قوانین رائج ہیں تو پھر
امریکیوں کو تکلیف کس بات کی ہے؟؟؟
جبکہ ہمارے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ہفتے کے دن دو ٹوک الفاظ
میں واضح کیا تھا کہ سرکاری ریکارڈ اور دفتر خارجہ سے ماہرین سرکاری ریکارڈ
اور دفترِ خارجہ کے ماہرین کی جانب سے پیش کی جانے والی اطلاعات کے مطابق
امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس سفارت کار نہیں ہے۔اسے مکمل استثنیٰ نہیں دیا جا
سکتا ہے۔ڈیوس کے لئے جس طرح کے استثنیٰ کا مطالبہ واشنگٹن کی جانب سے کیا
جارہا ہے وزارت خارجہ کے ریکارڈ سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی ۔مگر یہ بھی
حقیقت ہے کہ وزیر خارجہ اس معاملے پر کھل کر بات کرنے سے کترا رہے تھے جب
اس بارے میں ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ میں ریمنڈ
ڈیوس کے سفارت کار ہونے کی تصدیق نہیں کر سکتا۔ مگر یہ امر بھی قابلِ توجہ
ہے کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے وزارت خارجہ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ
اس معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کریں۔ کیونکہ ان کی حکومت کو امریکی حکام
نے شدید دباﺅ میں رکھا ہوا ہے۔ہر روز پاکستان پر دباﺅ کی ایک خاص شکل نظر
آتی ہے۔کوئی نہ کوئی امریکی اہلکار یا تو پاکستان پر دباﺅ ڈالنے کے لئے آیا
ہوتا ہے یا پاکستان کے خلاف سخت بیان داغ رہا ہوتا ہے۔ہم ہیں کہ سب کی سن
کر چپ رہتے ہیں دل کی بات نہیں کہتے۔
دفتر خارجہ کا بھی یہ کہنا ہے کہ ہم نے اپنے ریکارڈ سے اس بات کی تصدیق
کرلی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس نہ تو سفارت کار ہے اور نہ ہی اسے مکمل سفارتی
استثنیٰ حاصل ہے۔دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ اس نتیجے
پر پہنچی ہے کہ ریمنڈڈیوس غیر سفارتی عملے کا رکن ہے۔جبکہ وہ خود بھی پولیس
کے سامنے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے انکشاف کہ وہ ٹیکنکل ڈیوٹی پر تھا۔یہ
ہی وجہ ہے کہ اس مجرم کو امریکہ کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔یہ بھی حقیقت ہے
کہ ریمنڈ دفتر خارجہ کے ریکارڈ کے مطابق غیر سفارتی اسٹاف کے طور پر بھی
رجسٹر نہیں رہا ہے۔اس ضمن میں امریکیوں کی جانب سے مدت تک عملی خاموشی روا
رکھی گئی۔ایک نہایت ہی اہم بات یہ بھی ہے کہ امریکی سفارت خانے کی جانب سے
25 جنوری 2011 کو اپنے سفارت کاروں کے التوا میں پڑے ہوئے کیسوں کی ایک
فہرست بھجوائی گئی تھی تاکہ متعلقہ افراد کو سفارتی شناختی کارڈ جاری کئے
جاسکیں مگر عجب بات ہے کہ اس فہرست میں بھی مذکورہ شخص کا کہیں بھی نام
موجود نہیں ہے۔مذکورہ حادثے کے اگلے ہی دن 28 جنوری کو ایک مرتبہ پھر التوا
شدہ کیسوں کی فہرست وزارت خارجہ کو بھیجی گئی اس میں ریمنڈ ڈیوس کا نام بھی
شامل کردیا گیا تھا۔سوال یہ ہے کہ تین دن قبل بھیجی جانے والی فہرست میں اس
کا نام شامل نہ تھا جیسے ہی اس کا جرم سامنے آیا اگلے ہی دن امریکی سفارت
خانے نے سی آئی اے کے اپنے اس ایجنٹ کو بچانے کی خاطر اور اس کو پاکستان کی
عدالتوں سے بچانے کے لئے سفارت کاروں کی فہرست میں اس کا نام بھی شامل
کردیا جو اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ امریکی اس خطر ناک مجرم کو جو ان کا
بہترین جاسوسی نیٹ ورک کا شاطر کارندہ بھی ہے،کو بچانے کے لئے ہر سطح پر
پاکستان پر دباﺅ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔سوال یہ ہے امریکی کس بنیاد پر
اس مجرم کے استثنیٰ کی بات کر رہے ہیں؟صدر امریکہ مسٹر اوبامہ کو کیا یہ
ساری رپورٹنگ نہیں کی گئی ہے؟ لگتا یہ ہے کہ صدر اوبامہ بھی سی آئی اے کے
سامنے مجبور ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ بار بار پاکستان کو ویانا کنونشن کی
دہائی دے رہے ہیں۔جس پر دو سو ممالک کے ساتھ پاکستان اور امریکہ نے بھی
دستخط کئے ہوئے ہیں۔ اور پاکستان پر نا جائز دباﺅ ڈالنے میں اپنے آپ کو حق
بجانب ظاہر کر رہے ہیں۔وہ گھرانے جن کے تین بچے اس گھناﺅنے کھیل کی بھینٹ
چڑھ گئے کس کے سامنے اپنا فریاد کا دامن دراز کریں ؟کہ عدالتوں کے سوائے
دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ ہر شاخ پہ الُو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا۔
اس ضمن میں امریکہ کی وزیر خارجہ ہیلیری کلنٹن کی جانب دھمکی آمیز لہجے میں
صدر آصف علی زرداری کو بتا دیا گیا ہے کہ امریکہ کا صبر کا پیمانہ لبریز
ہورہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ امریکی شہری کو حکومت پاکستان نے غیر قانونی طور
پر ہراست میں رکھا ہوا ہے؟؟؟حکومت پاکستان اس ضمن میں جلد فیصلہ کرے
۔امریکیوں کو عافیہ صدیقی کی غیر قانونی ہراست دیکھنے کے لئے کیا تھری ڈی
کے چشموں کی ضرورت تھی ؟؟؟اس ضمن میں پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے
تسلسل کے ساتھ کہا جاتا رہا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ عدالت میں ہے لہٰذا
امریکی عدالتی فیصلے کا انتظار کریں۔مگر ہمارے آقا اپنے غلاموں کی کسی
تحویل کو ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ہیلیری کلنٹن کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ
نے صدر زرداری کو صاف صاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ ان کی حکومت کے پاس اس
کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ پاکستان ریمنڈ ڈیوس کی سفارتی حیثیت کو تسلیم
کرے اور اسے سفارتی استثنیٰ دے کر فوری طور پر رہا کیا جائے۔انکا یہ بھی
کہنا تھا کہ امریکی شہری کو مسلسل ہراست میں رکھنا بین الاقوامی قانون کی
سنگین خلاف ورزی ہے۔گویا امریکی جو قتل جیسے بھیانک جرم کا مرتکب ہوا ہے
اسے ہراست میں رکھنا اس لئے غیر قانونی ہے کہ وہ ایک امریکی ہے!!! یہ بڑی
عجیب بات ہے کہ امریکیوں کی دھمکی آمیز کالوں کو بھی ہمارے حکمراں چھپانے
کی مسلسل کوششیں کر رہے ہیں۔جبکہ یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ریمنڈ
ڈیوس خود بھی پولیس کے سامنے یہ اعتراف کر چکا ہے کہ وہ سفارتی عملے کا حصہ
نہیں ہے۔اور نہ ہی اُسے کوئی استثنیٰ حاصل ہے۔
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنے اُصولی موقف کے اختیار
کرنے کے جرم میں ہی حکومت سے دیس نکالے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ بلکہ ان کا
کہنا ہے کہ انہیں وزارت پانی و بجلی کی آفر وزارت خارجہ کے بدلے میں دی گئی
تھی۔مگر انہوں نے اپنے اصولی مؤقف سے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا تھا جس
پر انہیں بَلی کا بکرا بنا کر امریکہ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔تاہم محسوس
یہ کیا جا رہا ہے کہ صدر زرداری نے ایماندری کی سزا کے طور پر اور ریمنڈ
ڈیوس کیس میں حکومت کا ہم نوا نہ بننے پر اپنے وزیر خارجہ کی بَلی چڑھا کر
ایک اور ناقابل فہم کارنامہ انجام دیدیا ہے۔لگتا یہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس ہی
پاکستان میں ڈرون حملے کرانے کا ذمہ دار تھا۔جس دن سے یہ پکڑا گیا ہے
پاکستان میں امریکہ کے ڈرون حملے نہیں ہوئے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ امریکہ کا
ہر سرکاری کارندہ اس کی گرفتاری سے بوکھلایا ہوا ہے۔ |