سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی
کو عین وقت پر نئی کابینہ میں حلف لینے سے روک دیا گیا یا انہوں نے خود
انکار کردیا، ذرائع کے مطابق انہوں نے وزارت خارجہ کے سینئر اہلکاروں کے
ساتھ تفصیلی مشاورت کے بعد، حکومت کی مخالفت کے باوجود ریمنڈ ڈیوس کو
سفارتی استثنیٰ کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے انکار کردیا تھا اور اسی وجہ سے
امریکہ اور ان کی ”سہیلی“ ہیلری کلنٹن ان سے شدید ناراض ہوگئی تھیں۔ سب لوگ
بخوبی جانتے ہیں کہ جس سے امریکہ ناراض ہوجائے اس سے زرداری اینڈ کمپنی
کبھی خوش نہیں ہوسکتے نہ اسے اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ بعض لوگ تو یہاں تک
بھی کہتے ہیں کہ چونکہ امریکہ محترمہ بینظیر بھٹو سے بھی ناراض ہوچکا تھا
اس لئے وہ بھی زرداری صاحب کے ساتھ نہ رہ سکیں، یہ تو جملہ معترضہ تھا، بات
ہورہی تھی شاہ محمود قریشی کی کہ کیوں انہیں نئی کابینہ میں وزارت سے محروم
کردیا گیا، حالانہ اگر سابقہ کابینہ کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو شائد اس
میں شاہ صاحب ہی ایسے وزیر نظر آئیں گے جنہوں نے پاکستان کا کیس بہت مضبوطی
سے لڑا اور اس کا امیج بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی، یہ سوال اپنی جگہ
اہم ہے کہ کیوں پیپلز پارٹی کے اکابرین کو ان کے خلاف بیان بازی کرنا پڑی
یہاں تک کہ پیپلز پارٹی کی ترجمان ”علامہ و فہامہ“ فوزیہ وہاب صاحبہ (مجھے
سردست پتہ نہیں کہ کسی خاتون کی علمیت کا اقرار کیسے کیا جاسکتا ہے، اس لئے
”علامہ و فہامہ“ لکھ کر میں ان کی قابلیت، علمیت اور فہم و فراست کا اقرار
کررہا ہوں) کو اپنی فہم و فراست کا اظہار ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ کرنا
پڑا تاکہ وہ ریمنڈ ڈیوس کی وکالت اور اس کا دفاع کرسکیں، انہوں نے باقاعدہ
قوانین کا ذکر کرتے ہوئے ریمنڈ ڈیوس کا دفاع کیا اور فرمایا کہ مجھے سمجھ
نہیں لگتی کہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنیٰ حاصل
ہے، یہ کام انہوں نے عین اس وقت کیا جب ”عزت مآب ، محسن پاکستان“ جناب کیری
لوگر صاحب مدظلہ ہنگامی دورہ پڑنے پر پاکستان تشریف لانے ہی والے تھے،
فوزیہ وہاب کے بیان پر شدید رد عمل کے بعد ایوان صدر سے نیم دلانہ طور پر
اس کی وضاحت کی گئی کہ یہ بیان فوزیہ وہاب کا ذاتی حیثیت میں ہے اور پارٹی
مؤقف نہیں ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ فرحت اللہ بابر صاحب! آپ کسے بیوقوف بنا
رہے ہیں؟عوام تو اب اس معاملہ میں مزید بیوقوف بننے کو ہرگز تیار نہیں،
امریکی آپ سے بیوقوف بنائے نہیں جاتے تو یقیناً آپ اپنے آپ اور ایوان صدر
کے مکینوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں....! شاہ محمود قریشی تو ایک اصولی مؤقف
اپنا کر ہیرو بن گئے، انہوں نے نہ صرف امریکی دباﺅ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا
بلکہ زرداری اینڈ کمپنی کی غیر قانونی اور غیر اخلاقی بات بھی رد کردی، اگر
شاہ صاحب ایسا نہ کرتے تو شائد وزارت خارجہ اب تک پچھلی تاریخوں میں ریمنڈ
ڈیوس کا کارڈ وغیرہ جاری کرنے کی ”کاروائی“ ڈال چکی ہوتی اور ریمنڈ ڈیوس
ایک ”فاتح“ کی طرح امریکہ واپس پہنچ چکا ہوتا۔ یہ شاہ صاحب اور ان کی ٹیم
کی حب الوطنی اور ایمانداری ہی ہے جس نے حکومت کو ایسا کرنے سے روک رکھا
تھا ورنہ رحمان ملک ، وزارت خارجہ کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود یہ
بیان دے چکے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس ”ڈپلومیٹ“ ہے۔
پنجاب پولیس کی تفتیش ،تحقیق اور موقع کے گواہان کے بیانات کے بعد یہ بات
ثابت ہورہی ہے کہ ملزم نے دونوں قتل کم از کم اپنے دفاع میں ہرگز نہیں کئے،
اس کی یقیناً وجوہات کچھ اور ہیں، امریکی سفارتخانہ اور امریکی حکومت ابھی
تک ان باتوں کی وضاحت نہیں کرسکی کہ قاتل مزنگ میں کیا کررہا تھا، اس کے
پاس جاسوسی کے آلات کیوں تھے، اس نے ممنوعہ مقامات کی تصاویر کیوں اتاری
تھیں، وہ لاہور کے اہم مذہبی مقامات کی جاسوسی اور ریکی کیوں کررہا تھا۔ جب
اسے پکڑ کر تھانے لیجایا گیا تو اس نے وہاں پر اپنے پہلے بیان میں اپنے
سفارتکار ہونے کی کوئی بات نہیں کی بلکہ یہ کہا کہ وہ صرف ایک ”کنسلٹنٹ کے
طور پر کام کرتا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے سفارتکار اور اسثتنیٰ
کی کہانی بعد میں تراشی کی گئی۔ راقم نے ریمنڈ ڈیوس کیس کے سلسلہ میں 9
فروری کو ایک کالم ”ریمنڈ ڈیوس کیس، امریکہ سے دس سوال“ کے عنوان سے لکھا
تھا جس کے جواب میں یو ایس اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ڈیجیٹل آﺅٹ ریچ ٹیم کے مسٹر
ذوالفقار نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، موصوف کے خیالات بغیر کسی تبصرے کے
شامل کئے جارہے ہیں، قارئین خود فیصلہ کرلیں کہ امریکہ کس حد تک ویانا
کنونشن کے تحت استثنیٰ کے پراپیگنڈہ میں حق بجانب ہے۔ مسٹر ذوالفقار لکھتے
ہیں ”سب سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ آپ کے تمام سوالات کا جواب دینا ممکن
نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سوالات کی بوچھاڑ میں مجھے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے
کہ کون سے موضوعات ایسے ہیں جن کا جواب کئی فورمز پر ایک ساتھ پوسٹ کیا جا
سکے کیوں کہ اسی قسم کے بے شمار سوالات مجھ سے دیگر فورمز پر بھی کیے جا
رہے ہیں۔ جہاں تک رہا تعلق امریکی سفارتکار کے نام کا، تو یہ کوئی چھپانے
والی بات نہیں ہے جیسا کہ گزشتہ جمعہ کو امریکی قونسل جنرل نے واضح طور پر
کہا کہ زیر حراست امریکی سفارتکار کا نام ریمنڈ ڈیوس ہے۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے
کہ آپ اس کیس کو جارجیا کے سفارتکار کے ساتھ تشبیہ دے رہے ہیں۔ میں آپ کو
کچھ حقائق دینا چاہوں گا جارجیا کے سفارتکار کے پاس سفارتی استثنیٰ تھی
لیکن ان کی حکومت نے اپنی رضامندی سے ختم کیا۔ رہی بات امریکی سفارتکار کی،
تو اس نے اپنی جان بچانے کے لیے یہ اقدام اٹھایا کیوں کہ دو مسلح ڈاکووؤں
نے اسے گھیرنے کی کوشش کی تھی۔ حتیٰ کہ عینی گواہوں نے بھی اس بات کی گواہی
دی کہ ریمنڈ نے موٹر سائیکل پر سوار دو مسلح افراد سے اپنے آپ کو بچانے کے
لیے یہ قدم اٹھایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک افسوس ناک واقعہ ہے جس
کے نتیجے میں زندگیوں کا ضیاع ہوا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابتدائی پولیس
رپورٹ کے مطابق ان دونوں آدمیوں سے گولیوں سے بھرا ہوا پستول اور لوٹی ہوئی
چیزیں برآمد ہوئی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ ہر
شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنی زندگی کی حفاظت کے لیے کوشش کرے۔ امریکی
سفارت کار اس اصول سے مبرا نہیں ہے۔ میں آپ کو یاد دلانا چاہوں گا کہ
جارجیا کا سفارتکار نشے سے دھت تیز رفتار گاڑی چلا رہا تھا جس کے نتیجے میں
ایک لڑکی جاں بحق اور کئی لوگ زخمی ہوئے تھے۔ لہٰذا ان دونوں مقدمات کی
نوعیت بالکل مختلف ہے۔ امریکی حکومت پاکستان کے قوانین اور عدالتی نظام کی
قدر کرتی ہے اور ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمارے تمام سفارتکار ان کا
احترام کریں۔ یہ بتانا ضروری سمجھوں گا کہ امریکی سفیر نے یقین دہانی کرائی
ہے کہ امریکی سفارت کار اور ان کا عملہ حکومت پاکستان کے ضوابط کی پاسداری
کریں گے، لیکن وزارت خارجہ امور اور حکومت پاکستان نے ابھی تک طے شدہ عالمی
سفارتی طریقہ کار پر عمل نہیں کیا ہے۔ امریکی سفارت کار، ریمنڈ ڈیوس،
امریکی سفارت خانہ کے تکنیکی اور انتظامی عملہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اور اس
وجہ سے جرم میں ملوث ہونے کی صورت میں مکمل سفارتی استثنیٰ کا حقدار ہے اور
اسے ویانا کنونشن 1961ء کی رو سے قانونی طور پر گرفتار یا زیر حراست نہیں
رکھا جا سکتا۔ یہ قانون امریکہ سمیت تمام ممالک پر لاگو ہوتا ہے۔ اور اس
قانون کے مطابق اسے فوری طور پر رہا کیا جائے۔ آپ کے آخری سوال کے جواب میں
بتانا ضروری سمجھوں گا کہ امریکہ پاکستان کی سالمیت کی عزت کرتا ہے اور سب
سے اہم بات یہ ہے کہ اس علاقے میں دہشت گردوں کو شکست دینے اور ان کو تباہ
کرنے کے لیے امریکہ اور پاکستان کے درمیان قریبی رابطے اور افہام و تفہیم
ہے۔ ہم سب جانتے ہیں پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا ہے اور اس وقت پاکستانی
شہریوں کو سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی کی لعنت سے ہے۔ دہشت گرد امریکہ اور
پاکستان کے مشترکہ دشمن ہیں اور ہم پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کی صلاحیتوں
کو بہتر بنانے میں ان کی باقاعدگی سے مدد کر رہے ہیں۔ ذوالفقار – ڈیجیٹل
آؤٹ ریچ ٹیم – یو ایس اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ“ مسٹر ذوالفقار کے متذکرہ بالا
خیالات www.makepakistanbetter.com پر میرے کالم ”ریمنڈ ڈیوس کیس، امریکہ
سے دس سوال“ کے آخر پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
پاکستانی قوم ہر راہبر (چاہے وہ اصل میں راہزن ہی کیوں نہ ہو) پر نظر رکھے
ہوئے ہے کہ کون کون سے لوگ اور گروپ ایسے ہیں جو ناجائز طور پر امریکی خفیہ
ایجنٹ کو سفارتی استثنیٰ دینے کے چکر میں ہیں، ایک حقیقت جس کا ادراک پوری
قوم کو ہونا چاہئے، وہ یہ ہے کہ 1972ء کے قانون کے مطابق کسی بھی سفارتکار
کے استثنیٰ کا معاملہ وفاقی حکومت کے ذمہ ہے اور دفتر خارجہ ہی حکومت کا
ایسا ادارہ ہے جو کسی بھی سفارتکار کو اپنے پاس رجسٹر کرتا ہے اور اسے
باقاعدہ رجسٹریشن کارڈ جاری کیا جاتا ہے، اس کے بعد ہی اس کے استثنیٰ کا
فیصلہ ہوسکتا ہے۔ وفاقی حکومت یعنی وزارت خارجہ کی جانب سے آج تک کوئی ایسا
ریکارڈ سامنے نہیں لایا گیا جس کے تحت ریمنڈ کو سفارتکار ظاہر کیا جاسکتا
ہو، مجھے یقین واثق ہے کہ اگر کوئی ایسی بات ہوتی اور ریمنڈ کو ویانا
کنونشن کے تحت سفارتی استثنیٰ حاصل ہوتا تو ہماری مرکزی حکومت ایک سیکنڈ
بھی نہ لگاتی اور اسے فوراً باعزت بری کردیا جاتا لیکن اگر ایسا نہیں ہوا
تو یقیناً اس کی وجہ یہی ہوگی کہ اس کو کسی قسم کا استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔
ریمنڈ کا معاملہ حالانکہ اس وقت عدالت میں ہے، پولیس کی جانب سے اس کا
چالان بھی عدالت میں پیش کردیا گیا ہے جس کی سماعت جیل کے اندر ہوگی۔ جیل
میں بھی قاتل ریمنڈ ڈیوس کا طرز عمل انتہائی بیہودہ اور ناقابل برداشت ہے
لیکن پنجاب پولیس بوجوہ اس کی تمام”حرکات“ پر چپ اختیار کئے ہوئے ہے کہ ان
پر کوئی بڑا ”مدعا“ نہ پڑ جائے حالانکہ جیل کے سنتریوں کے ہاتھوں پر خارش
بھی بہت ہورہی ہوگی اور ان کا دل بھی ”ڈانگ پھیرنے“ کو بہت مچلتا ہوگا،
یقیناً ان میں سے کچھ عوامی جذبات بھی رکھتے ہوں گے اور چاہتے ہوں گے کہ
ایک آدھ ”مولا بخش“ یا ”لتر“ ہی اس گورے پر ”پھیر“ سکیں لیکن داد دینی
چاہئے پولیس کے اعلیٰ افسران اور جیل حکام کی کہ وہ بڑی خندہ پیشانی اور
صبر کے ساتھ وی آئی پی شخصیت کو سنبھالے ہوئے ہیں اور اس کے ناز نخرے
برداشت کررہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ریمنڈ ڈیوس اگر زندہ و سلامت
امریکہ پہنچ بھی گیا تو وہاں CIA اس کو ہرگز زندہ نہیں چھوڑے گی کیونکہ CIA
نے آج تک اپنے کسی ایسے ایجنٹ کو اس دنیا میں نہیں رہنے دیا جو بے نقاب
ہوگیا ہو شائد یہی وجہ ہے کہ امریکہ ڈیوس کو ہر صورت میں یہاں سے لیجانے کی
کوشش کررہا ہے۔ وہ امریکہ جس نے کبھی بین الاقوامی قوانین کو قطعاً کوئی
اہمیت نہیں دی، جو کبھی عراق کی اینٹ سے اینٹ بجاتا ہے، کبھی افغانستان کی
اور کبھی پاکستان میں ڈرون حملے کر کے نہتے اور معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ
اتارتا ہے، جس کو کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں نظر نہیں آتیں، جس کو
عافیہ صدیقی کو بے گناہی کی سزا دینے پر کسی قسم کی پشیمانی اور ندامت
نہیں، جو اپنے ملک کے قوانین پر ہر صورت میں عمل کرواتا ہے چاہے اس کے لئے
کسی حکومت کو بلیک میل کرنا پڑے (جارجین سفارتکار کے کیس میں جارجین حکومت
کو مجبور کیا گیا تھا کہ وہ حادثہ کرنے والے سفارتکار کا استثنیٰ واپس لے)
یا پوری دنیا کو، جس کو نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم
نظر ہی نہیں آتے ، وہی امریکہ ویانا کنونشن کے لئے اتنا بے چین اور اتنا
متحرک کیوں ہے کہ کبھی ارکان سینٹ پاکستان دندناتے چلے آرہے ہیں تو کبھی
قونصلر جنرل کی وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات ہورہی ہے، کبھی ہیلری کلنٹن
بیان داغتی ہے تو کبھی صدر امریکہ خود اس معاملہ میں بیان بازی کرتا نظر
آتا ہے اور اب بالآخر کیری لوگر بل کے ذریعہ پاکستان کو پھانسنے والا
سینیٹر کیری لوگر خود یہاں دوڑا چلا آیا ہے، کبھی امریکہ کہتا ہے کہ ریمنڈ
کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے، کبھی کہتا ہے کہ اس نے اپنے دفاع میں فائرنگ
کی، کبھی کہتا ہے کہ مقتولین ڈاکو تھے اور کبھی کہتا ہے کہ انہیں مرنے
والوں کا بہت دکھ ہے، کبھی یہ بیان آتا ہے کہ بطور سفارتکار ریمنڈ ڈیوس پر
کسی قسم کا کوئی کیس نہیں چلایا جاسکتا اور نہ ہی ویانا کنونشن کے تحت اسے
گرفتار یا زیر حراست رکھا جا سکتا ہے، کبھی کیری لوگر کی جانب سے کہا جاتا
ہے کہ استثنیٰ کا یہ مطلب نہیں کہ ملزم کا ٹرائل نہ کیا جائے اور جرم ثابت
ہونے پر اس کو سزا نہ دی جائے، لوگر صاحب اب یہ سکیم لے کر آئے ہیں کہ
ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان سے امریکہ لیجایا جائے اور وہاں اس پر مقدمہ چلایا
جائے اسی سلسلہ میں وہ مقتولین کے لواحقین سے ملاقات کریں گے ، اندازہ ہے
کہ وہ ان سے نہ صرف معافی مانگیں گے بلکہ خون بہا دینے کی پیشکش کے ساتھ
ساتھ امریکہ میں قاتل پر مقدمہ چلانے کی یقین دہانی بھی کرائیں گے، ظاہر ہے
اس مقصد کے لئے استغاثہ اور اس کے گواہان کو بمع ثبوتوں کے امریکہ جانا
ہوگا اور وہاں کی عدالت میں اپنا کیس ثابت کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف چند دن
میں امریکی وکیل بھی پاکستان آرہے ہیں تاکہ وہ عدالت میں قاتل کے دفاع میں
سفارتی استثنیٰ کو ثابت کرسکیں۔ امریکہ اس وقت ہر طرف سے اور ہر طرح سے،
زور سے، دھونس سے، عالمی قوانین اور پاکستانی قانون کی آڑ لے کر، دباﺅ ڈال
کر اور آخری حربہ کے طور پر ہاتھ جوڑ کر، معافی مانگ کر، خون بہا دینے کی
کوشش سے اپنے شہری کو واپس لیجانے کی کوشش میں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ
مقتولین کے ورثاء کس طرح کے رد عمل کا اظہار کرتے ہیں، اپنی بات کہ ”خون کا
بدلہ خون“ پر ڈٹے رہتے ہیں یا دھونس، دباﺅ ، خون بہا، امریکہ میں کیس چلانے
کی یقین دہانی، ویزوں یا نیشنلٹی کے چکر میں آجاتے ہیں، اب گیند لواحقین کی
کورٹ میں ہے، کیا کیری لوگر اس بار بھی کامیاب واپس لوٹیں گے؟ ایک آدھ دن
میں پتہ چل جائے گا....! |