یہ 2010 کی بات ہے جب میں کورین لینگویج پڑھاتا تھا اور
اسی سلسلہ میں ادارے کی جانب سے ملتان میں تدریسی ذمہ داریاں نبھا رہا
تھا۔ایک دن کلاس پڑھانے کے دوران ایک طالب علم نے سوال کیا کہ سر آپ ہمیں
کوریا جہازسے بھیجیں گے یا "چیتا جاگر شوز’’ پہنا کر؟ میں نے حیرانی سے اس
سوال کا سبب پوچھا تو جواب میں میرے سٹوڈنٹ نے ایک کہانی سنائی کہ ایک دفعہ
وہ ریل گاڑی میں کوئٹہ سے ملتان آ رہا تھا تو اس کے ساتھ کچھ مخدوش الحال
مسافر بھی محو سفر تھے جن کے پھٹے ہوئے پاوں،زرد رنگ، پچکے گال انکے ساتھ
بیتے کسی سخت وقت کا احوال بیان کر رہے تھے۔ ان کی حالت دیکھ کر میرے طالب
علم سے رہا نہ گیا اور اس نے پوچھ ہی لیا کہ آپ کون ہیں اور کہاں سے آئے
ہیں؟ ان میں سے ایک جو باقیوں کی نسبت کچھ بہتر دکھائی دیتا تھا بولا کہ ہم
پنجاب کے مختلف علاقوں سے ہیں اور ایران سے آئے ہیں۔ انہیں انسانی سمگلروں
نے یورپ پہنچانے کے سبز باغ دکھا کر ایران بارڈر پار کروایا اور اس کے بعد
کئی دن تک ویرانوں میں چلا چلا کر کہا کہ اب تم بارڈر پر پہنچ چکے ہو,۔یہاں
سے اگلے ملک کا بارڈر کراس کرو اور آگے تمہیں ہمارا اگلا ایجنٹ ملے گا جو
تمہیں آگے لے جائے گا۔ جب انہوں نے وہ بارڈر کراس کیا تو پاکستانی سیکیورٹی
فورسز کو دیکھ کر پتہ چلا کہ وہ تو اتنے دن ذلیل و خوار ہو کر دوبارہ
پاکستان میں داخل ہو چکے ہیں۔ یعنی اتنے دن انہیں دھوکہ دیا جاتا رہا اور
وہ پاکستان بارڈر کے ساتھ ساتھ ہی چل چل کر نڈھال ہوتے رہے اور اس مسافت نے
انہیں بہت اذیتیں دیں، کئی دن تک لگاتار چل چل کر انکے گھٹنے سوج گئے اور
ان کے پاوں پھٹ گئے۔ میرا سٹوڈنٹ کہتا ہے کہ میں نے غور کیا تو اس کے باقی
سب ساتھیوں کا وقعی بہت برا حال تھا لیکن جو اس سے مخاطب تھا وہ قدرے بہتر
تھا اس لئے سٹوڈنٹ نے اس سے پوچھا کہ آپ ان سب میں کچھ بہتر دکھائی دیتے
ہیں اس کی کوئی خاص وجہ؟ اس سوال پر وہ مسافر ہنسا اور کہنے لگا جب میں اس
سفر پر نکلنے لگا تو میرے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ جاتے وقت "چیتا جاگر
شوز’’ لے کر پہن لینا ورنہ سینڈل وغیرہ کے ساتھ بہت برے پھنسو گے لہذٰا میں
نے چیتا جاگر شوز لے لئے اور اس طرح سفر کے دوران میرے پاؤں پھٹنے سے محفوظ
رہے…
جی ہاں ایسے لوگ جو آنے والے چیلنجز کو بھانپ کر اس کیلئے کچھ زاد راہ تیار
کر لیتے ہیں وہ حالات کی سختیوں سے قدرے محفوظ رہتے ہیں۔آج ملک پاکستان میں
حالات جنگ کی طرف جارہے ہیں لیکن ہم جانتے ہی نہیں کہ اس حالت میں ہم نے
کرنا کیا ہے؟ یا ان حالات میں کیا کیا مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور
ان مشکلات سے کیسے نبرد آزما ہوا جاسکتا ہے. جی ہاں یہ کوئی مزاح کی بات
نہیں بلکہ اس کی فکر اب لازم ہوچکی ہے۔ تو آئیے کچھ چیدہ چیدہ چیزیں دیکھ
لیتے ہیں جن کا دھیان رکھنا ضروری ہے۔حالت جنگ میں کس کا کیا کام ہے
’’افواج (بری فضائی و بحری)‘‘ملک کی زمینی فضائی اور سمندری سرحدوں کا
تحفظ،’’پیرا ملٹری / نیم فوجی دستے‘‘ پہلے سے ملی ذمہ داری کے ساتھ
ساتھ،بطور سیکنڈ ڈیفنس لائن تیار رہنا۔’’پولیس و سول آرمڈ فورسز‘‘ملک میں
امن و امان برقرار رکھنا اور بطور تھرڈ ڈیفنس لائن تیار رہنا۔’’سویلین
نوجوان‘‘فوجی بھرتی کے لیے دستیاب رہنا،سول ہسپتالوں میں رضاکار ذمہ داریاں
سنبھالنا،فوجی و سول ہسپتالوں میں خون کے عطیات دینا اورشہری دفاع کا حصہ
بننا۔اگر کسی ایسے علاقے میں موجود ہوں جہاں دشمن خدانخواستہ ہماری فوج کی
سپلائی لائن کاٹ دے تو فوری طور پر مقامی مذاحمت کو منظم کرنا، اور کسی
ریٹائرڈ فوجی کی سربراہی میں دشمن کے خلاف مسلح اور نیم مسلح جدوجہد کرنا
اور دشمن کو گوریلا طرز پر نقصان پہنچانا۔فوج جب دشمن سے جنگ میں مصروف
ہوتی ہے تو دشمن پاکستانی فوج کی پشت پر چھاتہ بردار اتار کر فوج کی سپلائی
لائن کاٹ سکتا ہے۔یاد رکھیں چھاتہ بردار کی پہچان اس کے جہاز یا وردی پر
لگے جھنڈے سے ہو سکتی ہے یا سابقہ فوجی اس کو پہچان سکتے ہیں۔اگر کسی بھی
ایسی کاروائی کو دیکھیں تو پہلے تسلی کر لیں کہ یہ دشمن ہے یا اپنی فوج
دشمن کی صورت میں اس کے اترنے کے مقام اور جہاں پر وہ کیمپ لگائے اس پر نظر
رکھیں اور کسی بھی ذریعے سے اطلاع اپنی نزدیکی فوجی یونٹ کو دیں۔دشمن کے
معمولات پر نظر رکھیں خدانخواستہ دشمن ہماری فوج کو کمزور کرنے کی کوشش کرے
تو مقامی مزاحمت کو منظم کر کے دشمن کی پشت پر حملہ کریں۔کسی جگہ سے فوج
پسپا ہو اور دشمن قابض ہو تو دشمن کے معمولات پر نظر رکھیں اور حرکات و
سکنات کی اطلاع اپنی قریبی فوجی یونٹ کو دیں۔اگر قریب یونٹ موجود نہ ہو اور
یہ خطرہ ہو کہ دشمن آنے والی کسی فوجی یونٹ کے لیے خطرہ بن سکتا ہے تو فوج
کے آنے والے راستے پر آگے کی طرف ٹھکانہ رکھیں تاکہ آمدہ یونٹ کو بتایا جا
سکے۔اگر قریب میں کوئی یونٹ موجود نہ ہو اور خطرہ ہو کہ چھاتہ بردار اترتے
ہی بارڈر پر موجود اپنی فوج کو نقصان پہنچائیں گے تو عورتوں بچوں اور
بوڑھوں کو محفوظ علاقے کہ طرف بھیج کر نوجوان فوراً مزاحمت کو منظم کریں۔
مسلح مزاحمت کے اصول یہ ہیں:جب تک اپنی فوج موجود ہے کسی قسم کا ہتھیار
مقامی فوجی کمانڈر کی اجازت کے بغیر نہ اٹھائیں فوج کو معمولات چلانے دیں
اور ان کی عمومی ضروریات جیسے پانی راشن مورچے کھدائی کروانا یا دیگر
سہولیات میں تعاون کریں۔کمانڈنگ آفیسر اگر کہے تو رضاکارانہ خدمات کے لیے
ہمہ وقت پیش رہیں۔جنگ کی صورت میں زخمیوں کی مرہم پٹی اور دیکھ بھال کے لیے
افواج کا ساتھ دیں۔بفرض محال اگراپنی فوج کو پسپا ہونا پڑے تو دشمن کو فوج
کا پیچھا نہ کرنے دیں بلکہ عورتوں اور بچوں کو روانہ کرکے نوجوان جنگلوں
اور پہاڑوں کا رخ کریں اور کسی سابقہ فوجی کہ قیادت میں مزاحمت کو منظم
کریں اور دشمن کو مصروف رکھیں تاوقتیکہ اپنی فوج واپس نہ آ جائے. اور
مزاحمت کے دوران کوشش کریں کہ کسی نہ کسی ذریعے سے اپنی فوج سے رابطہ
برقرار رہے۔گھریلو و خاندانی دیکھ بھال:جنگ کے دوران بلیک آوٹ میں بجلی,
گیس, پانی منقطع ہوسکتے ہیں اس لئے خیال رکھیں کہ ٹینکیوں کے علاوہ جو بھی
برتن وغیرہ دستیاب ہوں وہ پانی سے بھرے رہیں،خشک خوراک جیسے آٹا چاول, گندم
دالیں ذخیرہ کر لیں،گھر کی اندرونی و بیرونی بتیاں ہرگز نہ جلائیں،رات کے
وقت کسی قسم کا شعلہ جلتے دیکھیں تو اسے بجھا دیں،پالتو جانوروں کی خوراک
کا پیشگی بندوبست کر لیں،خواتین, بچوں بوڑھوں کو حوصلہ دیتے رہیں،دائمی
امراض میں مبتلا افراد اپنی ادویات اپنے ہمراہ رکھیں،نوجوان لڑکیاں اپنے
علاقہ میں مریضوں اور بوڑھوں کی دیکھ بھال کریں اوران سارے معاملات کو ہلکا
ہرگز نہ لیں کیونکہ جنگوں سے پہلے جنگ کی تیاری کا حکم قرآن نے بھی ہمیں
دیا ہے اور جنگ کیلئے صحابہ کی تیاری خود اﷲ کے نبیﷺ کروایا کرتے۔یاد رکھیں
کہ جنگ آسان نہیں ہوتی اس میں مشکلات آتی ہیں اور اگر خدانخواستہ جنگ لگتی
ہے تو اس کیلئے ہمیں "چیتا جاگر شوز’’ پہلے سے تیار رکھنے ہوں گے کہ یہی
دانشمندی ہے اور یہی وقت کا تقاضہ ہے۔
آئیے عہد کریں کہ
اِس گھر کی ساری خوشیوں کو ہم نہ گھبرانے دیں گے
اِک سوچ بْری بھی سرحد سے اِس پار نہ آنے دیں گے۔۔۔۔! |