یہ ۱۹۸۳کی۱۸ فروری تھی ،صبح کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے ۔آسام
کے قلب میں واقع ناگائوں ضلع کے’نیلی ‘گائوں کے مسلمانوں کویہ معلوم ہی نہ
تھا کہ آج ان پرکیاقیامت ٹوٹنے والی ہے۔اس مسلمانوں کا ایسا قتل عام ہوا
جسے دنیا میں دوسری عالمی جنگ کے بعد انسانوں کا سب سے بڑا قتل عام کا
عنوان دیا گیا۔ صبح ۹؍ بجے مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوا جو دوپہر ۳؍بجے تک
چلتا رہا ۔اس وقت تک غیرسرکاری اندازے کے مطابق دس ہزارعورتوں اوربچوں
کوگاجرمولی کی طرح کاٹاجاچکاتھا۔تاریخ نے اسے ہندوستان کابدترین اجتماعی
قتل عام قراردیامگرحیرت ہے مسلمانوں کے حقوق کی بات کرنے والی حکومتیں
اورسیکولزم کاڈھنڈراپیٹنے والے لیڈرآج تک نیلی کے مسلمانوں کوانصاف نہ
دلاسکے ۔
ملک کی شمالی کونے میں واقع صوبہ آسام کی تاریخ کے دامن پریہ ایک ایسادھبہ
ہے جوکبھی مٹنے والانہیں ۔آسام کے شمال مشرقی علاقے کے دس دیہاتوں میں یوں
تویہ قتل عام یکم فروری ۱۹۸۳ء سے شروع ہوگیاتھا مگراس کااختتام ۱۸فروری
کوہوا۔اس وقت کی وزیراعظم اندراگاندھی کے ایک سیاسی فیصلے کی وجہ سے اچانک
کیے گئے قتل عام کوتاریخ ’’ نیلی اجتماعی قتل عام ‘‘کے نام سے جانتی ہے ۔
سرکاری ذرائع کاکہناہےکہ اس میں صرف ۲۱۹۱لوگ ہی ہلاک ہوئے لیکن غیرسرکاری
ذرائع نے دس ہزارمسلمانوں کی اموات کی بات کہی ہے۔مقتول بنگالی مسلمان تھے
جن کے آباواجداد برٹش راج سے قبل یہاں آبادہوگئے تھے۔یہ مسلمان برٹش
دورحکومت کی آسام گورنمنٹ کی سرپرستی میں غالباًبیسویں صدی کی پہلی دہائی
میں آسام آگئے تھے ۔ اتنے مسلمانوں کاقتل عام محض ۶گھنٹوں میں کیاگیا۔اس
سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ آسامی ہندئوں نے کس بھیانک اندازسے اورکس بے
دردی کے ساتھ مسلمانوں کوماراہوگا۔ان مقتولین میں اکثریت معصوم بچوں
اورگھریلوعورتوں کی تھی ۔یہ ہندوستان کی تاریخ کاسب سے بدترین قتل عام تھا
،اس سے قبل کبھی ایساہولناک قتل عام نہ ہواتھا ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعدیہ
انتہائی بدترین قسم کاحادثہ تھا جس نے مسلمانوں کوسنبھلنے کاموقع بھی نہ
دیااورقبائلی ان پربری طرح ٹوٹ پڑے۔
دراصل ا س قتل عام کاسبب آنجہانی اندراگاندھی کاوہ سیاسی فیصلہ تھا جس میں
انہوںنے ۴ملین بنگلہ دیشی مہاجرین کوآسام میں ووٹ دینے کاحق دے دیاتھا۔یہ
جب آسام میں ووٹ دینے پہنچ گئے توپہلے آل آسام اسٹوڈینٹ یونین (اے اے
ایس یو)نے مطالبہ کیا کہ ’’غیرقانونی ووٹرس‘‘کانام ووٹ دہندگان کی فہرست سے
خارج کیاجائے۔بعدمیں ا س یونٹ نے ایک زبردست احتجاج بھی کیااورحکومت
کومجبورکردیاکہ وہ ان مہاجرین کی شناخت کرے اور انہیں ووٹ دینے سے بے دخل
کرے۔ آل آسام اسٹوڈینٹ یونین (اے اے ایس یو)کے اس زبردست احتجاج
اورالیکشن کے بائیکاٹ کرنے کی وجہ سے آسام کاریاستی الیکشن متنازع بن
گیامگرآسام پولیس کی جراءت اورمستعدی کی وجہ سے الیکشن کرالیاگیا۔آسام کے
انسپکٹرجنرل آف پولیس کے پی ایس گل نے بتایاتھا کہ آسام کے۶۳؍اسمبلی
حلقوں میں الیکشن بہت امن وامان کے ساتھ مکمل ہوگیا مگر ۲۳حلقے ایسے تھے
جہاں کسی بھی صورت میں امن برقراررکھناممکن نہ ہوسکااوروہاں الیکشن کرانے
میںآسام پولیس کوکامیابی نہ ملی ۔ان میں سے ایک حلقہ نیلی کاتھا۔بعدمیںسب
سے زیادہ قتل عام اسی حلقے میں ہوئے۔الیکشن میں کسی ممکنہ خطرے کے پیش
نظرسینٹرل پیراملیٹری فورس کی ۴۰۰کمپنیا ںاورانڈین آرمی کے ۱۱برگیڈتعینات
کیے گئے تھے۔
اس قتل عام کی ابتدااس طرح ہوئی کہ دوٹرکوں میں پولیس کی نفری گائوں آئی
اورگائوں والوں کویقین دلایاکہ وہ لوگ ان کی حفاظت کررہے ہیں اورانہیں مکمل
تحفظ فراہم کیاگیاہےچنانچہ اس یقین دہانی اورتحفظ کے بہکاوے میں آکرنیلی
کے مسلمان روزانہ کے معمول کے مطابق بے فکرہوکرکام کاج کے لیے گائوں سے
باہرچلے گئے ۔یہ ۱۹۸۳کی فروری کی ۱۸تاریخ تھی اورصبح ساڑھے آٹھ بجے
کاوقت،جب گائوں والوں پرتین اطراف سے بھیڑنے اچانک حملہ کردیا۔انہوںنے
گائوں کوگھیرلیااورانہیں قریب ہی کی ندی کوپیلی پرلے گئے ۔یہ لوگ خطرناک
ہتھیارسے لیس تھے ۔ان کے پاس بندوقیں بھی تھیں اور نیزے بھی ۔پہلے
توانہوںنے گائوں کوچاروں طرف سے گھیرا،صرف اس طرف سے کھلارہنے دیاکہ جہاں
سے کوپیلی ندی کی طرف راستہ جاتاتھا ۔۔ندی پربھی کشتیوں میں حملہ
آورتیاربیٹھے تھے ۔ انہوںنے صبح ۹بجے قتل عام کاآغازکیاتھا اور۳بجے تک
قتل عام کرتے رہے تھے۔مردتوپہلے ہی کام پرجاچکے تھے ،گھرمیں عورتیں اوربچے
ہی تھے جوبے چارے ظالموں کے ہاتھوں شہیدہوگئے۔ پولیس بھی ان کاتعاون کررہی
تھی اس لیے انہیں توشہیدہوناہی تھا۔جومسلمان خوش نصیبی سے بچ گئے انہیں
ناگائوں پولیس اسٹیشن لے جایاگیا۔زیادہ ترلوگوں کوناگائوں کے نیلی کیمپ میں
رکھاگیااور حالات معمول پرآنے کے ۱۴دنوں کے بعدانہیں گائوں جانے کی اجازت
دی گئی۔ بعدمیں اس قتل عام پرایک کمیشن بھی بٹھایاگیامگراس کی رپورٹ کوصیغہ
رازہی میں رکھاگیااوریہ فیصلہ کیاگیاکہ اس کے مندرجات عوام میں مشتہرنہیں
کیے جائیں گے ۔اس کمیشن کی صدارت ہتیس ورسائیکیاکررہے تھے ۔۶۰۰صفحات
پرمشتمل یہ رپورٹ ۱۹۸۴میں آسام حکومت اورمرکزکی کانگریسی حکومت کو سونپ دی
گئی ۔آسا م میں آنے والی بعد کی حکومتوں نے بھی اس رپورٹ کے مندرجات
ظاہرنہیں کیے ۔پھرکم ازکم ۲۵سال کے بعدآسام یونائٹیڈڈیموکریٹک فرنٹ نے
اوردیگرپارٹیوں نے کوشش کرکے رپورٹ منظرعام پرلانے میں کامیابی حاصل کرلی ۔شایداسی
کانتیجہ تھاکہ پولیس نے ۶۸۸کیس درج کیے جس میں سے ۳۷۸کیس دستاویزات کی عدم
فراہمی کی وجہ سے بندکردیےگئے ۔۳۱۰کیسوں میں امیدکی جارہی تھی کہ مجرمین
پرکارروائی ہوگی مگرمرکزی حکومت نے یہ تمام کیس ختم کرادیے اوراس طرح سے
مجرمین کوسزاملنے کی امیدبھی ختم ہوگئی۔
جس بنیادپرمرکزی حکومت نے مداخلت کی اس کی وجہ دراصل وہ معاہدہ ہے جس
پر۱۹۵۸میںسابق وزیراعظم آنجہانی راجیوگاندھی نے Assam Accordنامی معاہدے
پردستخط کیے تھے ،وزیراعظم کے علاوہ آل آسام اسٹوڈینٹ یونین (اے اے ایس
یو)کے لیڈران کے بھی دستحظ ہوئے ۔دراصل یہ معاہدہ آسام ایجی ٹیشن کوختم
کرنے کے لیے کیاگیاتھا اوریہ آسام ایجی ٹیشن ہی مسلمانوں کے قتل عام کاسبب
بن گیاتھا اس لیے حکومت نے یہ جوازتراش لیاکہ جب اس ایجی ٹیشن کامعاملہ ختم
ہوگیاتومسلمانوں کے قتل عام کابھی معاملہ ختم ہوجاناچاہیے ۔ان دس
ہزارمسلمانوں کی روحیں آج بھی چیخ چیخ مسلمانوں کومتوجہ کررہی ہیں کہ جب
تک تم سیاسی طاقت نہیں بنوگے تب تک تمہارے ساتھ ایساہی ہوتارہے گا۔معصوم
بچے اوربے قصورعورتیں توگزرگئیں مگر اس حادثے کوتاریخ میں ا مرکرگئیں ۔اس
حادثے پرمکیکوکیمورانے ۲۸۴صفحات پرمشتمل ایک کتاب بعنوان The Nellie
Massacre of 1983لکھی جس میں مصنف نے واضح طورپریہ بات لکھی کہ آسامی
ہندئوں اورنچلے درجے کے قبائلیو ںنے ایک منظم سازش کے تحت مسلمانوں کاقتل
عام کیااورپولیس خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہی ۔
کانگریس پارٹی کومسلمانوں کی نجات دہندہ اورمسیحاکےطورپرپیش کرنے والے
ہمارے بکائومسلم لیڈوں کوکیایہ حادثہ عظیم نظرنہیں آتا؟مسلما ن بھی بے
چارے اتنے بھولے ہیں کہ وہ ظالم کوہی مسیحاسمجھ بیٹھے ہیںیایوں کہہ لیجیے
کہ حالات نے مسلمانوں کواس قابل ہی نہ چھوڑاکہ وہ کوئی ٹھوس اورمضبوط فیصلہ
لے سکیںاس لیے کانگریس کوہی اپناناخداسمجھنے لگے ہیں۔تاریخی حقائق چیخ چیخ
کربتارہے ہیں کہ اس ملک میں مسلمانوں کے خلاف اب تک جوبھی کچھ ہواہے
یاجوبھی کچھ ہورہاہے وہ سب کانگریس کی بنائی ہوئی پالیسیوں اورکانگریس کی
مکاریوں کانتیجہ ہے ۔کانگریس نے آزادی سے اب تک یہا ںدہائیوں تک حکومت کی
ہے ، بی جے پی کوتوبہت کم مدت کے لیے حکومت کاموقع ملاہے ۔سب سے پہلی
بارمئی ۱۹۹۶میں اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں اسے صرف ۱۳؍دنوں کے لیے
موقع ملاتھا۔دوسری مرتبہ مارچ ۱۹۹۸سے اپریل ۱۹۹۹تک اس کی حکومت رہی یعنی
صرف تیرہ ماہ ،ا س کے بعداکتوبر۱۹۹۹سے مئی ۲۰۰۴تک یعنی اسے پورے پانچ سال
حکومت کاموقع ملا۔اس حساب سے دیکھیے توقریب چھ سال بی جے پی نے حکومت نے کی
ہے،اوراب ۲۰۱۴سے۲۰۱۹تک اس کی حکومت ہے۔گویااگرمجموعی مدتِ حکومت شمارکی
جائے تویہ گیارہ سال ،تین ماہ اورتیرہ دن بنتی ہے ۔دوسرے طرف دیکھیے کہ ملک
۱۹۴۷میں آزادہوا،آزادی سے اب تک قریب ۷۲سال ہوتے ہیں ۔ان ۷۲برسوں میں
سےبی جے پی کے ۱۱؍برسوں کوحذف کردیجیے تو۶۱؍سال بچتے ہیں ۔گویا۶۱؍برس میں
کانگریس بارباربرسراقتدارآئی ہے ۔درمیان میں ایک آدھ دیگرپارٹیوں نے بھی
حکومت بنائی مگرپھرکانگریس مرکزمیں واپس آگئی ۔ چلیں ہم ان ۶۱؍برسوں سے
۱۱؍برس مزیدنکال دیتے ہیں توپوری ایک نصف صدی بنتی ہے اوراس پوری نصف صدی
میںکانگریس بلاشرکت غیرےپورے ملک کی حکمراں رہی ہے۔کسی بھی پارٹی کے پاس
نصف صدی تک ملک کی باگ ڈور کوئی معمولی بات نہیں ۔آزادی کے بعدسے ہی ملک
کے ہرشعبے میں مسلمانوں کاتناسب کم سے کم ترہوتاچلاگیااورجیلوں میں ان
کاتناسب بڑھتاگیا۔اس سے آپ کیاسمجھتے ہیں کہ اس کے پیچھے بی جے پی کاہاتھ
ہے؟نہیں ہرگزنہیں ،یہ صرف اورصرف کانگریس کی سازش تھی اورآج بھی کانگریس
اپنی شاطرانوں چالوں سے مسلمانوں کولبھانے کی کوشش کررہی ہے اوربیوقوف
مسلمان اس کے بہکاوے میں آتاجارہاہے ۔ آج اگرآپ سروے کرلیں تو۱۰۰میں سے
۹۰مسلمان یہی جواب دیں گے کہ ہم کانگریس کواس لیے لاناچاہتے ہیں کہ بی جے
پی کوہراناہے ۔ہمارامسئلہ یہ ہے کہ ہم ایک دشمن سےنکل کردوسرے دشمن کی
گودمیں جابیٹھتے ہیں۔اپنی ملت کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل ترتیب نہیں دیتے
،بس ضمیرفروش لیڈروں اوربکائومسلم لیڈوں کے رحم وکرم پرجیناشایدہمیں زیادہ
اچھالگتاہے۔یادرکھناچاہیے کہ ایک دشمن یعنی بی جےپی کھلم کھلادشمنی
کااظہارکرتی ہے اورجب کہ دوسرادشمن یعنی کانگریس چھپے ہوئے دشمن
کاکردارنبھاتی ہے ۔حالاں کہ چھپاہوادشمن ،ظاہری دشمن سے زیادہ خطرناک
ہوتاہے ۔مسلمانوں کواس سلسلے میں غورکرناچاہیے ،خاص طورپرمسلم لیڈران
اورسماج کے نمائندہ حضرات کوکہ وہ اپنی قوم کوکدھرلے جارہے ہیں ۔ایک
بڑاسوال یہ ہے کہ کیااگربی جے پی لوک سبھاالیکشن میں دوبارہ
برسراقتدارآگئی توکون ساپہاڑٹوٹ جائے گا۔؟بی جےپی سے مسلمان اتناخائف کیوں
ہے ؟ بلاشبہہ بی جے پی نے کچھ نہیں کیااوروہ کچھ کرے گی بھی نہیں ،عقل کے
کورے ہندوئوں کومسلمانوں کے خلاف بھڑکائے گی ،مسلمانوں کاڈران کے دلوںمیں
بٹھائے گی اور درپردہ ملک کی بڑی بڑی کمپنیوں کوفائدہ پہنچائے گی
اوربس۔مسلمانوں کویہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کانگریس اوربی جےپی دونوں ایک
سکے کے دورخ ہیں ۔دونوں کی اندرونی پالیسیاں ایک ہیں یاکم ازکم یوں کہہ
لیجیے کہ مسلمانوں کے تعلق سے دونوں پارٹیوں کے نظریات بالکل یکساں ہیں ،بس
فرق اتناہے کہ ایک پارٹی ظاہرکردیتی ہے اوردوسری اسے ظاہرنہیں کرتی ۔
|