جنگ بندی لائن کے بہادر عوام

وادی نیلم، وادی لیپا، نکیال، کھوئی رٹہ، تتہ پانی، منڈھول، چکوٹھی سیکٹر، فاروڈ کہوٹہ سمیت سیز فائر لائن پر بھارتی جارحیت جاری ہے اور حکمران صرف دعوے اور وعدے کر رہے ہیں۔گولہ باری سے بچنے کے لئے عوام کو بنکرز کی تعمیر کے لئے اعلان کردہ فنڈز نہ دیئے گئے ۔ یہ مورچے 2005کے زلزلہ میں تباہ ہوئے۔ کچھ بارشوں اور برفباری کی نذر ہوئے۔جنگ بندی لکیر کے عوام بظاہر زمانہ امن میں بھی بھارتی جارحیت کا شکار رہتے ہیں۔ 1989سے 2003تک آزاد کشمیر کی جنگ بندی لائن پربھارت نے مسلسل گولہ باری کی۔ جس سے ہزاروں کی تعداد میں شہری شہید ہوئے۔ شہداء میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی بھی تھی۔ ہزاروں لوگ معذور ہوئے۔ عوامی ، تعلیمی، کاروباری سرگرمیاں ٹھپ ہوئیں۔ معیشت تباہ ہوئی۔ کھیتی باڑی کا سلسلہ رک گیا۔ لوگ مال و مویشیوں سے بھی محروم ہوئے۔ زیر تعلیم بچے شہید اور زخمی ہی نہیں ہوئے بلکہ سکولی عمارتیں بھی گولی باری سے خاکستر ہو کر زمین بوس ہو گئیں۔ جنگ بندی لائن پر کئی راستے بھارتی گولہ باری کی زد میں آ گئے۔ جس کی وجہ سے ان کے متبادل بائی پاس راستے تعمیر کئے گئے۔ یا قدیم راستوں کے آگے کنکریٹ دیواریں لگائی گئیں۔ یہ سب عارضی انتظام تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہی یہ دیواریں بھی گر گئیں۔ نئے راستے بھی تباہ ہو گئے۔ کیوں کہ ان کی مرمت پر بعد ازاں توجہ نہ دی گئی۔ کروڑوں روپے ضائع ہو گئے۔

2003میں پاکستان اور بھارت نے جنگ بندی کا معاہدہ کر لیا۔ قدیم راستے پھر کھل گئے۔ بھارت نے اس معاہدہ کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔ اپنے مورچے تعمیر کر لئے۔ نئی شاہرائیں بھی تعمیر کیں۔ خار دار تاریں اور دیواریں لگا دیں۔ تا ہم پاکستان یا آزاد کشمیر کی حکومتوں نے انتہائی غفلت کا مظاہرہ کیا۔ زمانہ امن سے کچھ فائدہ نہ اٹھایا۔ بائی پاس راستوں کی مرمت کی جانب بھی توجہ نہ دی۔ یہاں متعلقہ لوگ پتہ نہیں کیوں چادر تان کر سوئے رہے اور دوسری طرف جنگی تیاریاں جاری رہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی بھی کچھ نہ کیا گیا۔ جنگ بندی لائن پر بھارت نے شیلنگ کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ بھارت کی مکاری اور عیاری بھی کسی کو خواب سے بیدار نہ کر سکی۔

آج ایک بار پھر بھارت نے سیز فائر لائن پر گولہ باری تیز کر رکھی ہے۔ وہ گولہ باری سے آبادی کو خوفزدہ کرنا چاہتا ہے۔ بلا شبہ عوام بہادر اور دلیر ہیں۔ وہ بھارت سے کوئی خوف محسوس نہیں کرتے۔ تا ہم یہ بھی درست ہے کہ اگر بھارت نے گولہ باری کا سلسلہ تیز کیا تو اہم راستے اس کے نشانہ پر آ جائیں گے۔ کم از کم بائی پاس راستوں کی مرمت کی جانی چاہیئے تھی یا قدیم راستوں کو گولہ باری سے بچانے کے لئے کوئی اقدام ہی کیا جاتا۔ نئی دیواریں بھی تعمیر کی جا سکتی تھیں۔ تباہ ہونے والی کنکریٹ اور حفاظتی بندوبست کی طرف بھی توجہ دینا ضروریتھا۔ اس کے ساتھ ہی جنگ بندی لائن پر اشیائے خوردنی، ادویات کا سٹاک ہنگامی نوعیت کا مسئلہ ہے۔

لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت تباہی کو تعمیر میں بدلا۔ سیاحت کو فروغ دیا۔ نیا ڈھانچہ کھڑا کیا۔ گولہ باری سے بچنے کے لئے گھروں کے ملحقہ تباہ ہونے والے بنکرز اور دیگر حفاظتی اقدامات بھی حکومت کی توجہ چاہتے تھے۔ان کالموں میں اس طرف توجہ دلائی گئی۔ حکومت کو اس کے وعدے اور اعلانات بھی یاد کرائے گئے۔مگر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ ان بنکرز کی فوری تعمیر اور مرمت ضروری ہے۔ گولہ باری کی صورت میں تعلیمی سرگرمیاں بھی ٹھپ ہو جاتی ہیں۔ اس لئے جنگ بندی لائن پر ہنگامی طور پر تمام انتظامات پر اس سر نو غور ہو تو زیادہ بہتر ہو گا۔ خاص طور پر زیر زمین بنکرز کی تعمیر اولین ترجیحات کی حامل ہو گی۔ بھارتی گولہ باری سے عوام کو محفوظ رکھنا ان ہی بنکرز کی وجہ سے آسان ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ زیر زمین مورچوں کو سکولوں کے متبادل کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

بھارتی گولہ باری کی زد میں رہنے کی وجہ سے سپلائی لائن کٹ جاتی ہے۔ لاکھوں کی آبادی ان علاقوں میں محصور ہو کر رہ جاتی ہے۔ سب جانتے ہوں گے کہ حکومت نے دفاعی لحاظ سے اہم کیرن بائی پاس شاہراہ پہاڑوں اور سنگلاخ چٹانوں کو چیر کر تعمیر کی۔ جس پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے۔ جو انتہائی خراب حالت میں رہی۔ اس کی مرمت یا تعمیر نو کی طرف توجہ دی گئی۔ مگر یہ ابھی شاید نا مکمل ہے۔

وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ محمد فاروق حید خان نے چند برس قبل ایک اعلان کیا۔ جس میں انھوں نے جنگ بندی لائن پر عوام کے بنکرز کی تعمیر کے لئے سات ارب روپے حفاظتی اقدامات کے لئے مختص کرنے کا اعلان کیا ۔ وفاق اور ریاست مل کر کشمیر کی جنگ بندی لائن پر زیر زمین مورچوں کی فوری تعمیر اور مرمت کے لئے کام کرسکتے تھے۔مگر شاید انتظار کیا گیا کہ آگ لگنے پر کنواں کھودا جائے گا۔ نیز بھارتی گولہ باری کی زد میں آنے والی شاہراؤں کی حفاظت کے لئے بھی معقول نوعیت کا بندو بست نہ کیا جا سکا۔
جنگ بندی لائن کے دورہ کے موقع پر پتہ چلا کہ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑنے پر بالکل تیار نہیں ہیں۔ وہ بھارت کا مردانہ وار مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ان کی مزید تربیت اور حفاظت کو یقینی بنایا جائے تو انہیں سر کرنا بھارت کے لئے کسی ہمالیہ سے کم نہ ہو گا۔توقع ہے وزیراعظم عمران خان آزاد کشمیر کی جنگ بندی لائن پرآبادی کی سپلائی لائن ، بائی پاس سڑکوں، زیر زمین مورچوں کی مرمت اور تعمیر کے لئے ہنگامی طور پر فنڈز جاری کریں گے۔ تا کہ کسی بھی جارحیت یا مہم جوئی کی صورت میں بھارت کی ناکامی اور شکست کے تمام امکانات کا مظاہرہ کیا جا سکے۔ کیوں کہ یہ لوگ فرنٹ لائن پر بھارتی توپوں کے سامنے سینہ تانے کھڑے ہیں۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555201 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More