ایرانی صدر حسن روحانی کا بھارت کو چاہ بہار بندر گاہ
کے پہلے فیز شاہد بہشتی پورٹ کے اپریشنل کا کنٹرول 18 مہینوں کے لیے بھارت
کے سپرد کرنے سے مشرق وسطیٰ اور پاکستان کے لیے کیا خطرات لاحق ہو سکتے ہیں؟
افغانسان پاکستان کی سٹرٹیجک ڈیپتھ ہے۔یہ ایسی پالیسی ہوتی ہے ،جس کے ذریعے
کوئی بھی ملک اپنے دشمن ملک کے خطرات سے نمٹنے ،قریبی ممالک سے خوشگوار
تعلقات استوار کرنے کا خواہاں ہوتا ہے۔دنیا کے ہر ملک کا ایک سٹر ٹیجک
ڈیپتھ ہوتا ہے ۔سوویت یونین کے افغانستان میں در اندازی کے بعد پہلی بار
1980 ء میں افغانستان کو سٹر ٹیجک ڈیپتھ ڈیکلیر کیا گیا ۔بھارت اورایران کے
باہمی تعلقات کی ابتدا 1950 ء میں ہوئی ۔1979ء کے خمینی انقلاب میں بھارت
نے انقلاب خمینی کا ساتھ نہیں دیاتھا ۔اور عراق ایران جنگ میں بھی بھارت نے
عراق کو سپورٹ کیا تھا۔1990ء میں افغانستان کی جنگ میں بھارت اور ایران نے
افغان طالبان کے خلاف شمالی اتحاد کا ساتھ دیا تھا ۔اور اب تک افغانستان
میں بھارت اور ایران کا باہمی انفراسٹراکچر کے کاموں میں تیزی اور دونوں
ممالک کا افغانستان پر خاص کرم پاکستان کے لیے خطرناک خدشات کو مہمیز دے
رہا ہے ۔
(TAPI ) منصوبہ جو 2019ء تک مکمل ہوناتھا ۔اور اس سے ترکمانستان سے
افغانستان کے راستے پاکستان پھر بھارت کو گیس سپلائی کی جانی تھی ۔یہ ایران
کے اپنے منصوبے (IPI ) سے متصادم ہے۔(TAPI) ملک کو ناصرف مائع گیس کے بحران
سے نکالے گا بلکہ خطے کی معاشی ،سیاسی اور ثقافتی شعبوں کو بھی باہم جوڑنے
میں مدد گار ہوگا ۔ (TAPI)کی سیاسی اہمیت اور (IPI ) کا مخدوش مستقبل ایران
کو ہضم نہیں ہورہا ۔وقت کی اہم ضرورت اور جنوبی وسطی ایشیا کی عوام اور
حکومتیں بھی چاہتی ہیں کہ پاکستان دنیا کے لیے تجارت ،توانائی اور مواصلاتی
رابطوں کا ذریعہ بنے جو کہ پاکستان چین اکنامک کوریڈار سے ممکن ہے۔بھارت
اپنے مفادات کی سوچ کا متحمل ملک ہے اور ایران ہمیشہ سے پاکستانی تجزیہ
کاروں کی آنکھ میں تنکا بنارہا ہے ۔ایسے میں دونوں ملکوں کا افغانستان کے
منصوبوں میں بھر پور توجہ دینا پاکستان کو دیوار سے لگانے کا نقطہ آغاز
ہوسکتا ہے۔
پاکستان نے صوبہ بلوچستان سمیت خطے میں امن و امان کی مخدوش صورت حال
پرقربانیوں کے بعد قابو پایا ہے ۔ایران بھارت گٹھ جوڑ دراصل ایسے حالات میں
تیزی دیکھا رہا ہے ،جس وقت کہ پاکستان نے بھارت کی پیشانی خاک آلود کر دی
ہے اور بھارت کی عزت آسمان کی بلندیوں سے زمین پر آچکی ہیں ۔پاکستان کو
ناپاک عزائم سے دہشت گردی کی جڑ باور کرانا اور عالمی دنیا کے ناک کا بال
بننا بھارت کا پرانا وطیرہ رہا ہے ۔دوسری طرف ایران اپنے جوہری معاہدوں سے
ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ چاہ بہار بندر گاہ کا کنٹرول 18 مہینوں کے لیے بھارت کے
حوالے کرنا اور 85 ملین ڈالر کی انڈین انوسٹمنٹ گوادر سے صرف 90 کلو میٹر
کی دوری پر کرنا حالات کا رخ کس طرف متعین کررہے ہیں ؟
دنیا جانتی ہے کہ پاکستان چین اکنامک کوریڈار عظیم منصوبہ ہے۔اور اس منصوبے
کی شکل میں سنجیدہ حلقوں کو گوادر مستقبل کا دبئی نظر آرہا ہے۔چین کی اتنی
بڑی سرمایہ کاری انڈیا ایران سے برداشت نہیں ہو رہی ۔دوسری طرف ایرانیوں کو
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی عدم تکمیل کا غصہ اپنی جگہ موجود ہے
۔یاد رہے پیپلزپارٹی کے دور میں سابق صدر آصف علی زرداری نے (IPI )منصوبہ
شروع کیا تھا۔ اس منصوبے میں پاکستان ،ایران،بھارت شامل تھے۔کیوں کہ اس وقت
پاک بھارت تعلقات کا دور اچھا تھا ۔ لیکن بعد میں بھارتی حکومت نے زائد
اخراجات کا بہانہ بنایااور (IPI )منصوبے سے الگ ہو گیا ۔ایران نے اس
علیحدگی کاالزام پاکستان پر عائد کر تے ہوئے کہا کہ پاکستان بھارت سے
کشیدگی کو ختم کرے اور اپنے حصے کی پائپ لائن بچھائے۔لیکن پس پردہ انڈیا
ایران گٹھ جوڑ پاکستا ن کو عالمی سیاست میں تنہا کرنا تھا ۔
ایران پڑوسی ملکوں سے تعلقات کو کتنا اہمیت دیتا ہے اس کا ندازہ اس بات سے
باخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ سال پاکستان نے بلوچستان سے بھارتی جاسوس
کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا ۔اس کیس کو لے کربھارت نے عالمی سطح پر بندر
نچاتماشے کیے وہ کسی آنکھ سے اوجھل نہیں ۔کلبھوشن یادیو نے اپنے مکروہ
جرموں کا عتراف کیا ۔پاکستان سرخرو ہوا اور بھارتی جاسوس کو سزا موت سنا دی
گئی ۔ایسے سنگین ترین صورت حال میں ایران کی کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی
کی درخواست اور پوچھ گچھ کی اجازت مانگنا پاکستان کے اندرونی معاملات میں
مداخلت نہیں؟ اورکیا ایران پہلے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے ہویے تھا جب
اس کی سر زمین بھارتی جاسوس کے لیے تَر نوالہ ثابت ہورہی تھی؟ایران میں
بھارتی مداخلت کے باوجود ایران نے کبھی بھی بھارت کو عالمی افق پر شرمندہ
نہیں کیا ۔بجائے ایک ہمسایہ ملک ہونے کے ایران کا بھارت سے دوستی کی بانگیں
بھڑانا ،سوائے اپنے قلبی بھڑاس نکالنے کے اور کس چیز سے تعبیر کیا جاسکتا
ہے؟
|