دس سالوں سے سلاخوں کے پیچھے قید شان کی رہائی میں اب بس
چند دن ہی باقی رہ گئے تھے۔
پہلی بار جب اسے منشیات سمگل کرنے کے جرم میں جیل لایا گیا تو پولیس والے
نے نہایت ہی بدتمیزی سےاور برے القابات سے نواز کراسے جیل میں دھکا دیا
چل اوئے اندر۔۔۔چل۔۔۔کمینہ کہیں کا“
”تمیز سے بات کر دو ٹکے کے حوالدار۔۔تو جانتا نہیں ہے کس سے بات کر رہا
ہے۔۔اوقات کیا ہے تیری“۔۔۔۔شان جو اپنے نام کی طرح اونچی شان رکھتا
تھا۔کوئی اسے گالی دینا تو دور کی بات اس کے خلاف بات بھی نہیں کرسکتا
تھا۔لوگ اسے جھک جھک کر سلام کرتے تھے۔لیکن آج پہلی بار اسے اس کی اوقات
یاد دلائی جا رہی تھی۔ وہ دل ہی دل میں اپنے چھوٹنے کے بعد اس پولیس والے
سے بدلہ لینے کا تہیہ کرچکا تھا۔تب ہی وہ خاموشی سے،اس حوالدار کےجانے کے
بعد دوسرے ملزموں کو حقارت سے دیکھتا ہوا ایک کونے میں بیٹھ گیا۔
دو دن گزر جاتے ہیں مگر کوئی بھی اس کی رہائی کے لیے نہیں آتا ۔۔۔پھر ایک
ہفتہ۔۔۔ایک مہینہ۔۔۔اور پھر عدالت اسے دس سال کی سزا سنا دیتی ہے۔۔۔زندگی
میں پہلی بار اسے اپنی اوقات پتہ چلتی ہے مگر وہ پھر بھی نہیں
سنبھلتا۔۔۔اتنے بڑے بڑے لوگوں سے دوستی بھی کسی کام کے نہیں آتی۔۔کوئی اسے
چھڑانے نہیں آتا۔
اسے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا اور قیدی نمبر بھی الاٹ کردیا گیا۔صبح سے
رات تک وہ کبھی جیل کی صفائی کرتا ،کبھی برتن مانجھتا اور کبھی چکی
پیستا۔۔۔لیکن ان سب کے باوجودوہ دوسرے قیدیوں کو حقارت سے دیکھتا ،انھیں
اپنے سے کمتر سمجھتا۔۔اور ان بات کرنا پسند نہیں کرتا۔پورا دن چپ چاپ اپنا
کام کرتا اور رات کو ایک کونے میں بستر بچھا کر سو جاتا۔
اسی اثنا میں دو سال بیت گئے مگر اس کے رویے میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔اور
پھر مزیددوسال بیت گئے۔۔۔وہ جو ستائیس سال کی عمر میں جیل لایا گیا تھا،وہ
جو بہت جوشیلااورخوبرو نوجوان تھا۔۔ان چارسالوں میں ہی اس کی رنگت پھیکی
پرگئی،ہاتھ پاوں سوکھی لکڑی کی طرح بے جان ہوگئے اور ہڈیاں صاف نمایاں ہونے
لگی۔۔ڈاکٹروں نے کوئی بیماری نہ بتائی مگر حال اس کا بے حال ہی رہا۔
پھر مزید دو سال گزرے تو اس کی جوانی مزید ڈھل گئی۔رنگ مزید زرد
پڑگیا،بالوں میں چاندی اتر آئی،آنکھیں اندر کو دھنس گئی،جسم سوکھ کر بے جان
ہوگیا۔اب تو لوگ اسکی حالت دیکھ کر عبرت پکڑبے لگے۔پہلے وہ جو لوگوں کو
اپنے سے کمتر سمجھ کر کسی کو پاس بھٹکنے نہیں دیتا تھا اب سب پلٹ کر رہ
گیا۔قیدی اس کے پاس جانے سے کترانے لگے۔
اب وہ ہر وقت کسی سوچ میں مبتلا رہتا۔اپنی آزادی کے دن یاد کرتا کہ کیسے وہ
اپنی صحت کا خیال رکھتا تھا۔اپنے بالوں کو سنوارتا،شیمپو کرتا،مہنگے کپڑے
اور جوتے ایک بار دو بار پہن کر پھینک دیتا۔اپنے استعمال کی اشیا کو کسی کو
ہاتھ تک لگانے نہیں دیتا۔اپنے انھیں رئیسانہ شوق کو پورا کرنے کے لیے وہ
منشیات کے دھندھے میں داخل ہوا۔
لیکن آج اس کی حالت کچھ اور ہی بتا رہی تھی۔جیسے برسوں سےاس نے کپڑے تبدیل
نہیں کیے۔دو جوڑی کپڑے جو بار بار پہن کر گھس چکے تھے اور ایک جوڑی جوتے جن
میں چھید ہوچکا تھا اس کا کل اثاثہ رہ گئے تھے۔
آج وہ بالکل اکیلا رہ چکا تھا۔شروع کے دو تین سال کوئی ایک آدھ بندہ اس سے
ملنے آ بھی جاتا مگر اس کے اس سنگین جرم اور طنزیہ باتوں کے پیش نظر اس کے
اپنے اس سے ملنے سے کتراتے۔ماں باپ اس دنیا میں تھے نہیں جو وفا کرتے اور
شادی اس کی ہوئی نہیں تھی۔باقی بچے بہن بھائی وہ اپنی اپنی زندگی میں مگن
تھے۔
دوسال مزید گزر گئےاور اب تنہائی ہی اس کی واحد ساتھی بن کر رہ گئی اور وہ
خواب۔۔۔جو پچھلے آٹھ سالوں سے اسے ستا رہے تھے۔۔جس میں کوئی خون سے لت پت
لوگ اپنے مرنے کا حساب مانگتے تھے۔اب تو ان خوابوں نے بھی ذہن میں قبضہ جما
لیا تھا۔لوگوں کی آہ و پکار اسے سونے نہیں دیتی تھی۔آج اسےاحساس ہورہا تھا
کہ اس نے برا کیا۔منشیات نے ہزاروں لوگوں کی جانیں لی اور لاکھوں لوگوں کے
گھر اجاڑے تو بھلا وہ آج مطمن کیسے ہوسکتا تھا۔اللہ کی مخلوق کو کم تر سمجھ
کر وہ خود افضل کیسے بن سکتا تھا۔
آج اس نے اپنے ہم قیدیوں سے معافی مانگی اپنے برے رویے کی،خدا سے معافی
مانگی اپنے گناہوں کی۔۔۔مگر اسے سکون کیوں نہیں مل رہا تھا۔۔وہ خواب کیوں
ستا رہے تھے۔
پھر ایک قیدی نے اسے بتایا”اللہ تب تک معاف نہیں کرتا جب تک بندے معاف نہ
کردے“ اور یہ بات اسے مزید بےچین کر گئی۔
”میں رہا ہوکر سب سے معافی مانگ لوں گا۔۔۔میں پوری کائنات کے ایک ایک بندے
سے معافی مانگو گا “
بس پھر اس نے تہیہ کرلیا۔۔اب وہ اپنی رہائی کے دن گننے لگا۔۔اب وہ ہر وقت
اللہ کے حضور سجدہ ریز رہتا۔نماز ،روزہ اور تسبیح بس یہ ہی دنیا رہ گئی۔
اب لوگ اس کے گرویدہ ہو نے لگے۔۔اس نے اپنی زنگی دین اور خلق خدا کی مدد
کرنے میں وقف کردی۔۔
دو سال مزید گزر گئے۔۔کل اس کی رہائی کا دن تھا۔سورج طلوع ہوتے ہی اسے
زندگی بھر کے لیے جیل سے رہائی ملنےوالی تھی۔وہ اپنی آنے والی زندگی میں
خوش ہونے کی بجائے مطمئن تھا۔جو نحوسیت اس کے چہرے پر کئی سالوں سے عیاں
تھی آج کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔آج وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا
تھا۔اب وہ لرزادینے والے خواب بھی آنا بند ہوچکے تھے۔
بس ایک دن مزید انتظار اور زندگی بھر کے لیے اس قید سے رہائی ۔لیکن وہ دن
تھا کہ طویل ہی ہوتا جارہا تھا۔لیکن جلد ہو یا دیر،وقت تو گزر ہی جاتا ہے
اور وہ وقت بھی گزر گیا۔صبح کی پہلی کرن جیسے ہی پھوٹی تمام قیدی اسے آخری
سلام دینے کے لیے پہنچے۔
”اٹھ جایں شان بھائی آج آپ بالکل آزاد ہیں۔۔۔اب اپنی نئی زندگی شروع
کریں۔۔۔اٹھ جائین شان بھائی۔۔۔۔دیکھیے سب آپ کو الوداع کہنے آئے ہیں۔۔۔آپ
کو رہائی مل چکی ہے“
اور واقع آج اسے رہائی مل گئی تھی۔۔۔اس قید سے ،ان خوابوں سے،ہر وقت کی بے
چینی سے اور اس زندگی سے۔ |