گیارہ ستمبر2001ء کوقصرسفیدکے فرعون کی نخوت وتکبربھری
آوازنے ساری دنیاکودوحصوں میں تقسیم کردیاجس میں اس نے اپنی فرعونی طاقت کے
بل بوتے پرساری انسانیت کوللکارکرخوفزدہ کرتے ہوئے کہاکہ''آج ہماری تہذیب
اورطرزِ زندگی پرحملہ ہواہے،یاتوآپ ہمارے ساتھ ہیں یاہمارے مخالف'' ۔ ایک
وہ جویہودی منصوبہ بندی ''ورلڈ آرڈر'' کی امریکی حکمت عملی کاحصہ بنیں گے
اورجدیدتہذیب کادفاع اپنی زندگی کا نصب العین قراردیکرتن من دھن سے اس مشن
میں حصہ لیں گے ،انہیں اپنے مفادات کی حدتک محبوب رکھا جائے گااوردوسرے وہ
جویاتو جدید تہذیب کامقابلہ کریں گے یافرعونی امریکی حکمت عملی کے بارے میں
سکوت اختیارکریں گے،مؤخرالذکر دونوں کو بالتدریج عبرت کانشان بنادیا جائے
گالیکن کس کواس بات کاعلم تھاکہ غرور و تکبرکے نشے میں مدہوش عالمی طاقت
کہلانے والاایسی دلدل میں پھنسنے جا رہاہے جس میں اس سے قبل زمین پرخدائی
کادعویٰ کرنے والوں کے آثارموجودہیں۔
کاش تاریخ کوگیارہ ستمبر2001ء کادن نہ دیکھناپڑتاجس کے نتیجے میں ملکوں کے
ملک اجڑ گئے ،شہرویران کردیئے گئے،بستیاں بربادہوگئیں،لاتعداد گھروں
کاملیامیٹ کردیاگیا،لاکھوں انسانوں کو تہزیبی،معاشی وسیاسی بالادستی کی
خاطربارودسے بھسم کردیاگیا،جوان لڑکیوں کواجتماعی تشدد وہوس کانشانہ
بنادیاگیا،اولادکے سروں سے والدین کاسایہ چھین لیا گیا۔نوجوان نسل کوان کے
ماں باپ کے سامنے چیتھڑوں میں تبدیل کردیاگیا،انسانیت کوعبرت کانشان
بنادیاگیا،انسان توکیا حیوانات، نباتات اورجنگلات تک کوبھی جنگی جنون کی
خاطرجلاکرراکھ کردیاگیا۔کاش!گیارہ ستمبر2001ء کووہ 81مسافرسفرمعطل
یامؤخرکردیتے یابوسٹن کے لوگ انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی بجائے کسی دوسرے ہوائی
اڈے کاانتخاب کرلیتے یااس کی ائیرپورٹ سے موت کی طرف فلائٹ لینے کی بجائے
کسی دوسری پروازکومنتخب کرلیتے توشائد8بجکر48منٹ پر81مسافروں سے
بھراجہازجولاس اینجلزکی طرف جارہاتھا، ورلڈٹریڈ سنٹرسے جاکرنہ ٹکراتااورآج
امریکاکارعب ودبدبہ، وقاراوربین الاقوامی بالادستی بدستورقائم رہتی ،اسے
اٹھارہ سال تک ذلت ورسوائی کاسامنانہ کرنا پڑتااورآخر کارافغانستان کی خاک
پرناک رگڑتاواپس لوٹنے کافیصلہ نہ کرتا ۔
لیکن یہ توہوناہی تھاکیونکہ آسمانی رزق من وسلویٰ کھانے والی قوم کی منصوبہ
بندی نے امریکا کو آرام سے کب بیٹھنے دیااوروقتاًفوقتاً اپنی جھوٹی شان
اوربالادستی کی خاطربیک وقت مختلف ممالک جنگوں میں دھکیل دیئے گئے اوراپنے
مفادات کی تکمیل کیلئے امریکاکوکٹھ پتلی کی طرح اپنے اشاروں پر نچاتے
رہے،اورآج امریکاکوفوجی،سیاسی اورمعاشی طورپر کمزور کرنے کے بعدواپس لوٹنے
کاحکم صادرفرمایاجس پرعملدرآمدکیے بغیرامریکاکے پاس کوئی دوسراآپشن موجود
نہیں۔اس کے نتیجے میں 16دسمبرکوابوظہبی میں امریکااورافغان طالبان کے مابین
براہ راست مذاکرات ہوئے اورپھر افغانستان میں موجودامریکی سفارتخانے کی طرف
سے امریکی افواج کی واپسی کا اعلامیہ جاری کردیاگیا۔ یہ ایک طرف توافغان
مجاہدین کی فتح کا اعلان ہے تودوسری طرف امریکا کی خودمختاری پرسوالیہ نشان
ہے۔
موجودہ صورتحال کاتجزیہ کرنے کیلئے یہ جانناضروری ہے کہ کن مفادات
اورمقاصدکے پیش نظر امریکانے افغانستان میں قدم رکھا؟کیا امریکا افغانستان
میں اپنے مفادات کے حصول میں کامیاب ہوا؟ اگرہاں توافغان طالبان سے براہِ
راسے مذاکرات کی بھیک مانگنے کوآپ کیانام دیں گے؟ یہاں تک کہ اپنے ہی جگری
یاروں یعنی بھارت،اسرائیل اورکابل کی کٹھ پتلی حکومت کی حاضری کوبھی ضروری
نہ سمجھااوراگرامریکااپنے مفادات کے حصول میں اب تک ناکام رہاتوکس کے ایماء
پر اپنی قومی غیرت کاجنازہ نکالنے اورسب سے پہلے امریکاکے نعرے کو
نظراندازکرنے پرمجبور ہے اورافغانستان سے اس قدر عجلت میں کوچ کرنے کیلئے
بے چین ہے؟اس کاایک انتہائی سیدھا اورسادہ جواب ہے کہ امریکی معیشت
خودتوبیساکھیوں پر کھڑی ہے اورامریکا مزید جنگوں میں جانی ومالی نقصان
کامتحمل نہیں ہوسکتا۔اس کے پاس جنگوں پرمزیدخرچ کرنے کیلئے اخراجات کافقدان
ہے اورامریکی معیشت کی پشت پر کار فرمایہودی لابی افغانستان میں مزیدسرمایہ
اوروقت ضائع نہیں کرناچاہتی کیونکہ دنیاپرخدائی نظام کی مانندایک عالمی
نظام نافذکرنے کاخواب دیکھنے والے نظریاتی یہودیوں کوامریکا کے اکتالیسویں
صدر سنیئربش(جارج ہربرٹ والکربش)کا1992ء میں بنایاگیا اٹھارہ سال کے بانی
ومالی نقصانات کے باوجودبھی ناکام دکھائی دے رہاہے،لہنداٹرمپ جوبالواسطہ
اوربلاواسطہ یہودی لابی کیلئے ایک مہرے کے طور پرامریکاکی صدارت پربراجمان
ہے،نے صدارت سنبھالتے ہی فوج کوواپس بلانے کاارادہ ظاہرکیاتھا،جس پرعملدر
آمدکیلئے گزشتہ ماہ افغانستان میں موجودامریکی سفارت خانے کی طرف سے
اعلامیہ بھی جاری ہوچکاہے اورآئندہ ماہ وسال میں اسے عملی جامہ پہنانے کے
امکانات بھی واضح دکھائی دے رہے ہیں۔
میرے اس مؤقف سے یقیناً بعض حضرات کواختلاف ہوسکتاہے کہ فلسطین میں
غیرقانونی سکونت اختیارکرنے والے صرف 65لاکھ یہودی عالمی طاقت امریکاکوکیسے
مجبورکرسکتے ہیں کیونکہ امریکاتوجمہوریت کاعلمبردارہے اورٹرمپ اپنے
تمامتراختیارات کواستعمال کرنے کے باوجودبھی جمہوری اقدارکوپامال نہیں
کرسکتا اوراگروہ چاہے بھی توکابینہ میں ایسے افراد ضرورپائے جاتے ہوں گے
جوٹرمپ کے ایسے اقدامات کوہرگزقبول نہیں کریں گے جس سے امریکی بالادستی اور
مفادات پرزدپڑتی ہے۔امریکی خودمختاری کس طرح یہودی لابی کے پنجے میں ہے
اورکابینہ، سرکاری وغیرسرکاری اداروں میں پھیلے یہودی اپنے اختیارات
استعمال کرتے ہوئے امریکی فیصلوں پرکیسے اورکس حدتک اثراندازہوتے ہیں،یہ
حیرت انگیز انکشافات پرمبنی ایک دلچسپ تاریخ ہے جس کااندازہ آپ تاریخ کے
چندواقعات سے بخوبی لگاسکتے ہیں۔
جارج ایچ ڈبلیوبش(1989تا1993 ء)جوامریکاکااکتالیسواں صدرتھا،اس کاخاندانی
پیشہ تیل کا کاروبارتھا۔یہ لوگ امریکاکی سب سے بڑی ریاست ٹیکساس کے رہنے
والے ہیں جسے امریکی تیل کادارلحکومت بھی کہاجاتاہے،چونکہ اس زمانے میں
امریکاتیل کاسب سے بڑادرآمدکنندہ تھا اور اس کی اپنی پیداواراستعمال کے بیس
فیصدکے برابرتھی ، باقی سعودی عرب،میکسیکو اور وینزویلاسے
درآمدکیاجاتاتھا،اس لئے ریاست ٹیکساس میں تیل کے کاروبارسے وابستگی کے
باوجودجارج ڈبلیو بش نے دنیابھرکے تیل پرقبضہ جمانے کیلئے ایک منصوبہ
بنایااور1992ء میں تیل کی تین بڑی کمپنیوں کے سربراہان کوواشنگٹن میں جمع
کیا۔خلائی اسٹیشنوں سے لی گئی تصاویراسکرین پرچلائی گئیں اوراپنی چھڑی سے
آذربائیجان ۔قازقستان ،ترکمانستان اورازبکستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے
کہاکہ ان چارملکوں کے نیچے پانچ کھرب ڈالرکاتیل اورگیس پوشیدہ ہے جس پرمیں
قبضہ کرنا چاہتاہوں ،کون میراپارٹنربنناپسندکرے گا؟
تمام کمپنیوں کے سربراہان نے ہاتھ کھڑے کردیئے ۔مذاکرات ابھی حتمی شکل
اختیارنہیں کرپائے تھے کہ سنیئربش کی حکومت ختم ہوگئی تاہم مذاکرات پھربھی
جاری رہے۔اسی دوران اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موسادکوان تمام سرگرمیوں کی
اطلاعات موصول ہوئیں اوروہ بھی متحرک ہو گئی۔اب موسادکویہاں
دوچیلنجزکاسامناتھا،ایک نئے منتخب ہونے امریکاکے42 ویں صدرکوحصار میں لینا،
کابینہ اوراردگردتمام سرکاری اور حساس اداروں تک رسائی حاصل
کرنااوردوسرادنیابھرکے تیل کے ذخائرپرقبضہ کرنا۔آپ یہ جان کرچونک اٹھیں گے
کہ تقریباًایک سال بھی کم عرصے کے دوران یہودیوں نے بل کلنٹن کے گرد ایک
مضبوط حصارقائم کردیامثلاً کلنٹن کاویزرخارجہ میڈلین البرائٹ ،نائب
وزیرخارجہ سٹینلے ارتھ، وزیر دفاع ولیم کوہن،وزیرخزانہ لارسن سمرز،نائب
وزیر خزانہ اسٹورن آنزن ٹیسٹ،اقوام متحدہ میں امریکی سفیررچرڈہال
بروک،نیشنل سیکورٹی کا سربراہ سینڈل برگر،چیف آف سوشل سیکورٹی کینتھ
ایفل،ٹریڈکانمائندہ چارلس برشینکی،ڈائریکٹرسی آئی اے ڈیوڈکوہل،آئی بی
ڈائریکٹرہال آئزنر،کیمونیکشن ڈائریکٹررابی امونیل راہم،نیشنل ہیلتھ کئیر
ایڈوائزر ٹھامس ریپٹن،ڈائریکٹرمینجمنٹ آف بجٹ ایلیس ریولن،اکنامک پالیسی
ایڈوائزر صتیلے پوسکن،یہاں تک خودکلنٹن اورہیلری کاذاتی سٹاف تک یہودی
تھالہندا صد راور خاتون اوّل کی جنی اورکاروباری مصروفیات کاتماترشیڈول یہی
لوگ بناتے تھے۔ یہ دوریہودیوں کیلئے انتہائی سنہری دورتھا جس میں خوب کھل
کرامریکی انتظامیہ،مقننہ اورعدلیہ کے ذریعے اپنی پالییسیوں کوعملی جامہ
پہناتے رہے۔یوں محسوس ہوتاتھاکہ تین فیصدامریکی یہودی ستانوے فیصدامریکیوں
اورسوفیصددنیاکے مالک بنے بیٹھے ہیں اوریہ تمام یہودی انتہائی درجہ کے
متعصب ،بنیادپرست اورنظریاتی تھے۔
دوسری طرف دنیابھرکے تیل کے ذخائرپرقبضہ کرنے کیلئے موسادنے یوسف اے میمن
کو ترکمانستان میں تعینات کیا۔یوسف اے میمن موسادسے ریٹائرڈہونے کے
بعداسرائیل کی ایک کمپنی مہیروگروپ کاصدربن گیا۔اس وقت ترکمانستان کے
صدرنیازوف نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے یوسف اے میمن کونہ صرف
ترکمانستان کی شہریت دی بلکہ اسے آئل وگیس کامشیراورخصوصی سفیربنادیا
اوریوں ترکمانستان کے تیل پراسرائیل کاقبضہ ہوگیا۔اس کے ساتھ ساتھ تیل کے
دیگرتجارتی معاہدوں کے ذریعے یوسف اے میمن نے آذربائیجان کے تیل کے ذخائر
تک بھی رسائی حاصل کرلی ۔ادھرسنیئربش کے تیل کی بڑی کمپنیوں کے ساتھ
مذاکرات کے نتیجے میں امریکاکی دیگر آئل کمپنیوں نے بھی ترکمانستان
اورقازقستان میں مجموی طورپر33ْ/ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی اورپاکستان
سے افغانستان اورافغانستان سے ترکمانستان گیس پائپ لائنز بچھانے کی سرمایہ
کاری اس کے علاوہ تھی۔اسصورتحال نے اسرائیل اوربش خاندان کوایک دوسرے کے
مدمقابل کھڑاکردیاکیونکہ تیل کے ذخائر پرقبضہ کرنادونوں کامقصدتھا۔
بش خاندان نے جب سینٹرل ایشیاکے تیل کویورپ اورامریکاپہنچانے کے بارے میں
سوچاتواس کے صرف تین راستے تھے۔پہلاراستہ ترکمانستان ،قاقستان،ازبکستان
اورآذربائیجان سے روس اورروس سے یورپ،دوسراچارممالک سے ایران،ایران سے
بحیرۂ عرب اوروہاں سے یورپ اور امریکا ،اور تیسراان چارممالک سے
افغانستان،افغانستان سے پاکستان،بھارت اوروہاں سے بحرہندسے یورپ
اورامریکا۔روس کے صاف انکار کر دینے پرصرف دوآخری آپشن تھے لیکن چونکہ
امریکاایران پراعتمادکرنے کیلئے تیار نہیں تھا ،اس لئے ان کے پاس صرف ایک
ہی راستہ بچا۔اسی راستے میں جوسب سے بڑاخطرہ تھاوہ افغان طالبان کاانقلاب
تھا۔چنانچہ سنیئربش نے دوجون 2000ء کوامریکا میں تیل کمپنیوں کے بڑے بڑے
مالکان کوکھانے پربلایااوران کے سامنے تجویزرکھی کہ اگرمیرے بیٹے(جارج
ڈبلیوبش)کوامریکاصدرمنتخب کرادیاجائے توہم پانچ کھرب ڈالرکے تیل کے ذخائرآپ
کی جھولی میں ڈالنے کیلئے تیارہیں۔کمپنیوں کے مالکان نے جب گارنٹی مانگی
توبش نے انہیں پیشکش کی کہ حکومت تشکیل پاتے ہی آپ تمام کو کابینہ کے ارکان
کے طورپرلے لیاجائے گا۔بس پھرکیاتھاتیل کمپنیوں کے مالکان نے ڈالروں کی
بارش کردی اورہرطرف بش کاندان کاڈنکابجنے لگا۔ٹی وی،ریڈیواخبارات،رسائل
وجرائد میں اشتہارات کی بھرمارہوگئی یہاں تک کہ پاناما اور ایتھوپیاجیسے
بدحال ممالک کے اخبارات میں بھی بش کی حمائت میں مضامین چھپائے گئے اوراس
مہم کے نتیجے میں بش خاندان ایک بارپھروائٹ ہاؤس میں داخل ہوگیا۔وعدے کے
مطابق تیل کمپنیوں کے مالکان کووزیرداخلہ، وزیرخارجہ، وزیر توانائی
اوردیگرحساس نوعیت کے سرکاری عہدے سونپ دیئے گئے ۔الیکشن مہم میں سب سے
زیادہ چندہ دینے والی آئل کمپنی ایزون کے وائش چیئرمین تھامس وائٹ
کوامریکاکی سب سے مضبوط وزارتِ فوج کاسربراہ مقررکردیاگیا۔
بش خاندان چونکہ مذہباً عیسائی تھااوریہ لوگ ہراتوارکوباقاعدگی کے ساتھ چرچ
بھی جایاکرتے تھے بلکہ سنئیربش کے بارے میں تویہاں تک بیان کیاجاتاہے کہ یہ
یہودیوں کاسخت مخالف اور فلسطین کے معاملے پرعربوں کاحامی تھا۔اس لئے عربوں
کاخیال تھاکہ جونیئربش صدرمنتخب ہونے کے بعدفلسطین کے مسئلے میں ہماری
حمائت کرے گااورمشرقِ وسطیٰ میں امن قائم ہو جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ جارج
ڈبلیوبش کی الیکشن مہم کیلئے عربوں نے ڈیڑھ بلین ڈالرچندہ دیاتھا جو الیکشن
مہم کے اخراجات کاتقریباً نصف بنتاتھا۔ کامیاب مہم کے نتیجے میں جب جارج
ڈبلیوبش امریکاکا43واں صدر منتخب ہوااوراس نے اپنی کابینہ کااعلان کیاتواس
میں یہودیوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابرتھی اوریہ یہودیوں کیلئے
شدیدجھٹکاتھا۔اس سے قبل چونکہ امریکی معیشت اور حکومت پریہودی مکمل
طورپرقابض ہوچکے تھے لہندابش حکومت کیلئے مشکلات پیداکرناان کیلئے کوئی
مشکل کام نہ تھا چنانچہ تمام یہودیوں نے شٹرڈاؤن کرکے بش حکومت کوگھٹنے
ٹیکنے پرمجبورکردیااوراستاک ایکسچینج اپنی آخری حدتک گرگیا۔کارخانوں کیلئے
آتش بازی کا سامان تک چین سے منگواناپڑگیا جس کی وجہ سے بش حکومت کو125ملین
ڈالرکا یومیہ خسارہ برداشت کرنا پڑگیا۔
یہودیوں نے اسی پراکتفانہیں کیابلکہ موسادنے اپنے120/ اعلیٰ تربیت یافتہ
افرادکوورلڈ ٹریڈسینٹر پرحملے کی منصوبہ بندی میں لگادیاجوبعدمیں امریکی
تحقیقات کے خفیہ ادارے سی آئی اے کی تفتیشی کاروائیوں کے نتیجے میںگرفتار
بھی ہوئے لیکن تاریخ مزیداس حوالے سے خاموش رہے ۔ دوسری جانب امریکاکی
الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیاکی تمام بڑی کمپنیاں جن کے مالکان کٹر متعصب یہودی
تھے،نے اپنی توپوں کارخ بش کی طرف پھیردیا۔میڈیاپراسامہ بن لادن کو
بنیادبناکرافغان طالبان اوراسلامی سزاؤں کے خلاف پرزور پروپیگنڈہ کاآغاز کر
دیاجس کے نتیجے میں امریکی عوام کے دلوں میں طالبان کوانسانیت اورامریکی
تہذیب کابدترین دشمن بناکرپیش کیاگیااور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت
امریکی عوام کی طرف سے یہ مطالبہ کیاجانے لگاکہ طالبان کوجلداز جلدسبق
سکھانا چاہئے۔
طالبان حکومت کے بعض لوگ اس منصوبے کے پیچھے خفیہ عزائم کوبھانپ گئے تھے
لہنداانہوں نے تعلقات عامہ کی ماہرخاتون اورسی آئی اے کے سابق سربراہ رچرڈ
ہیلمزکی بھتیجی لیلیٰ ہیلمز نامی خاتون کوباقاعدہ معاوضہ دیکرخدمات حاصل
کیں۔لیلیٰ ہیلمزکی کوششوں سے امریکاانتظامیہ طالبان کے نمائندوں سے
گفتگوکیلئے تیارہوگئی اورمارچ 2001ء کوطالبان حکومت کے مشیر سید رحمت اللہ
ہاشمی پانچ روزہ دورے پرواشنگٹن پہنچ گئے جہاں ان کے سامنے صلح کی صرف ایک
ہی شرط رکھی گئی کہ افغانستان میں لبرل اورماڈریٹ حکومت تشکیل دی جانی
چاہئے بصورت دیگرامریکاطالبان پر حملہ کردے گا۔6/اگست کواسلام آبادمیں
موجودافغان سفیرکے ذریعے طالبان کوآخری وارننگ دی گئی لیکن طالبان نے
امریکی دہمکیوں کو نظر انداز کر دیا۔جونیئربش افغانستان پرحملے کااس لئے
بھی خواہشمندتھاکہ ایک طرف تواس کے والدسنیئربش کے منصوبے کے تحت تیل کے
ذخائر پر قبضہ کرلیاجائے گاتو دوسری طرف بش جونیئرکی حکومت کی پذیرائی ہوگی
اورامریکی صنعت وحرفت کاپہیہ چلناشروع ہوجائے گا۔
بش حکومت نے ورلڈٹریڈسنٹرپرحملے کاکبھی سوچابھی نہ تھایہ توموسادکے ایک
سوبیس اعلیٰ تربیت یافتہ جاسوسوں کوورلڈٹریڈسنٹرپرحملے کی منصوبہ بندی
کاجوٹاسک دیاگیاتھا،وہ پورا ہوا اورپھردنیانے گیارہ ستمبر2001ء کادن بھی
دیکھاکہ دنیاکابلندترین تجارتی مرکزجس کی تکمیل چند ماہ قبل ہی 22 اپریل
2001ء کوہوئی تھی ،جس میں روزانہ ساڑھے آٹھ ارب ڈالرکابزنس ہوتا تھا اور
جس99سال کیلئے تین ارب بیس ملین ڈالرزکی لیز پر سلوراسٹیشن پراپرٹیزاورویسٹ
فیلڈامریکانے حاصل کیاتھا،زمین بوس ہوگیا۔اس حملے سے بش خاندان حواس باختہ
ہوکراپنی تمامتر انتظامی صلاحیتیں گنوابیٹھااورافغانستان پرچڑھ دوڑااوراس
طرح یہودی لابی نے امریکاکونہ ختم ہونے والی طویل جنگ میں جھونک دیا۔ایک
طرف بش حکومت پہلے ہی سے غیرمستحکم حالات اور ہچکولے کھاتی معیشت کاشکارتھی
تودوسری طرف افغان جنگ سے یہودی لابی نے نہ صرف امریکی معیشت کو دیوالیہ
کردیابلکہ ریکارڈحدتک ورلڈبینک اورآئی ایم ایس جیسے اداروں کا مقروض بھی
بنادیا،اوریہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ دونوں ادارے عالمی سودی مالیاتی
نظام کی تشکیل کا سرچشمہ ہیں جس کے تحت ممالک کومقروض بناکرجکڑلیاجاتاہے
۔بتایاجاتاہے کہ امریکاپرمجموعی طورپر بائیس کھرب ڈالرزکاقرضہ چڑھ چکاہے
جواوسطً امریکاکے ہرفرد پر ایک کروڑ دالربنتاہے۔
اس کے علاوہ عراق امریکاجنگ میں بھی ان 32یہودیوں کے مرکزی
کردارکونظراندازنہیں کیاجا سکتاجوورلڈٹریڈسنٹرپرحملے کے بعد بش انتظامیہ
اورتمام اہم کلیدی عہدوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔یہی وہ
یہودی تھے جواس وقت تمام امریکاکے سیاہ وسفیدکے مالک بن بیٹھے تھے اورتمام
پالیسیوں کوتشکیل دے رہے تھے۔ان میں سے ایک رچرڈپرل تھاجو پینٹاگون کے
ڈیفنس پالیسی بورڈکاچیئرمین اورخارجہ پالیسی کے سلسلے میں بش کامشیرتھا۔اس
سے قبل رچرڈاسرائیل کی اسلحہ ساز فیکٹری سولٹم میں ملازم تھا دوسراشخص پال
ولف اوٹس جوامریکا کا نائب وزیر دفاع اوررچرڈ کے ڈیفنس پالیسی
بورڈکاممبرتھا۔یہ وہ شخص ہے جس کے اسرائیل سے خفیہ تعلقات کی خبریں
متعددبارامریکی اخبارات میں شائع ہوئیں ۔تیسراشخص ڈگلس فیتھ تھاجودفاع
کاانڈرسیکرٹری اورپینٹاگون میں پالیسی ایڈوائزرتھا۔یہ شخص ایک متعصب یہودی
تھاجوعرب مخالف پالیسیوں کی بناء پرامریکامیں خاصامقبول تھااوریہودیوں کی
بدنام زمانہ تنظیم زاہانسٹ آرگنائزیشن آف امریکامیں بھی شامل رہا۔
چوتھاشخص ایڈورڈلٹواجوپینٹاگون میں قائم سیکورٹی اسٹڈی گروپ کاممبرتھا۔یہ
ایک نظریاتی اور انتہاء پسندیہودی تھاجس کی تعلیم وتربیت تل ابیب میں ہوئی
اوراخبارات میں مسلسل اسرائیل کی حمائت میں مضامین بھی لکھتارہا ۔اگلاشخص
ڈوزاخم جو دفاع کاانڈرسیکرٹری اورمحکمہ دفاع کاچیف فنانشل آفیسرتھا۔یہ شخص
بھی نسلاً یہودی ہے اوراورامریکاکے ساتھ ساتھ اسرائیل کی شہریت بھی
رکھتاہے۔اس کاکہناہے کہ جب تک مسلمانوں کی طاقت ختم نہیں ہوجاتی یہودیوں کا
عروج شروع نہیں ہوسکتا۔کینتھ ایڈولمین پیٹاگون میں مشیرتھااوررچرڈکے ڈیفنس
پالیسی بورڈ کا ممبربھی تھا ۔یہ بھی ایک انتہائی متعصب اورانتہاء پسندیہودی
ہے ،اس کاکہناہے کہ اگردنیاامن چاہتی ہے تومسلمانوں کی بیخ کنی کرناہوگی
اوراگریہ ممکن نہ ہوتو مسلمانوں کواس جگہ پر رکھنا چاہئے جہاں لوگ پرانے
غلاموں کورکھاکرتے تھے۔اس شخص کوآپ ہمیشہ کی طرح بین الاقوامی ٹی وی چینل
فاکس نیوز پرعربوں اورمسلمانوں کے خلاف گفتگوکرتاہواپائیں گے۔ لیویزلیبی
امریکا کے نائب صدرڈک چینی کاچیف آف سٹاف تھا،اس کاکہناہے کہ اگردنیاسے
دہشتگردی کوختم کرنا ہے توجہادکے جذبے کومٹاناہوگا،اس کیلئے مسلمانوں کے
اندرایک گروہ ''احمدی''(قادیاانی)کے نام سے جوکام کررہاہے ،ان کی ہرموقع
پرحوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔
رابرٹ سٹالوف امریکی قومی سلامتی کامشیرتھاجواس سے قبل اسرائیل کے تھنک
ٹینک ،واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فارنیئرایسٹ کاڈائریکٹرتھا۔اس کا کہنا ہے کہ
عربوں کاتیل بنیادی طورپریہودیوں کی جاگیرہے لیکن مسلمان اسے استعمال کررہے
ہیں،یہ سراسربے ایمانی ہے اورایک دن یہودی اپناحق لیکرہی رہیں گے۔ایسٹ
ابرامزکاشماربھی انتہاء پسندیہودیوں میں ہوتاہے اوریہ شخص اس دورمیں نیشنل
سیکورٹی کونسل کامشیرتھا۔اس کاکہناتھاکہ اس وقت تک دنیامیں امن قائم نہیں
ہوسکتاجب تک وہ تمام ذرائع مسدودنہ کر دیئے جائیں جن سے اسامہ بن لادن جیسے
لوگ پیداہوتے ہیں۔پس منظر کے طورپرعرض کیاجاتاہے کہ بش کوعراق پرحملے کی
چنداں ضرورت نہیں تھی ،کیونکہ عرب حکمرانوں کی تمام دولت امریکامیں ہے
اورامریکا کوتیل کی ترسیل روک کروہ اپنے اربوں کھربوں ڈالرزکوخطرہ میں نہیں
ڈال سکتے لیکن یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے کہ وزارتِ خارجہ اورڈیفبس جیسے حساس
اداروں پرانتہاء پسنداورمتعصب یہودی تعینات ہوں جوبرسوں سے مسلمانوں کے
زوال اوربیخ کنی کے منتظرتھے اورجونیئربش (جارج ڈبلیو بش)کوعراق پرحملہ
کرنے کی تجویز نہ دیں بلکہ مجبورنہ کریں۔اس بات کااندازہ لگانابھی مشکل
نہیں کہ ان حضرت کے ہوتے ہوئے امریکی صدر جارج ڈبلیوبش عراق پرحملہ کرنے سے
کیسے انکارکرسکتاتھاجبکہ صدربش کواپنے آگے اورپیچھے دونوں طرف موت منڈلاتی
دکھائی دے رہی تھی اوراسے اس بات کابخوبی علم تھا کہ امریکاکے 16ویں
صدرابراہام لنکن اور20ویں صدرچیمزگارفیلڈ عالمی مالیاتی نظام جسے براہِ
راست یہودی کنٹرول کرتے ہیں میں رخنہ ڈالنے کے سبب قتل کئے جاچکے ہیں،اس
لئے وہ کسی بھی صورت میں اپنی جان کوخطرے میں نہیں ڈال سکتاتھا۔
یہودی اگرامریکاکوعراق اورشام کے خلاف جنگ کرنے پرابھارتے ہیں اورحملہ کرنے
پرمجبور کرتے ہیں توبات سمجھ میں آتی ہے کہ ایساکرنے سے یہودیوں کے
گریٹراسرائیل (جو مصر کے نیل سے لیکرفرات تک پھیلاہواہے اورجس میں اردان
سمیت سعودی عرب کاشمالی علاقہ نصف عراق اور پوراشام شامل ہے) کاخواب تکمیل
تک پہنچتاہے،لیکن سوال یہ ہے کہ یہودی لابی نے امریکا کوافغانستان کی دلدل
میں کیوں دھکیلا؟تواس بات کو رسول اکرم ۖکی حدیث مبارکہ سے باآسانی
سمجھاجاسکتاہے ۔سنن ابن ماجہ میں حضوراکرم ۖ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ
جب تم دیکھوکہ خراسان کی جانب سے سیاہ جھنڈے نکل آئے ہیں تواس لشکرمیں شامل
ہوجاؤ تمہیں اس کیلئے برف پرگھسٹ کرہی کیوں نہ جاناپڑے کہ اس لشکرمیں اللہ
کے آخری خلیفہ مہدی ہوں گے۔
اس وقت توپوری دنیامیں خراسان نام کے کسی ملک کاوجودنہیں ملتالیکن صدیوں
پہلے یہ افغانستاان،ایران،پاکستان کے وسط ایشیائی ریاستوں تک پھیلا
ہواتھا۔یہ تمام وہ علاقہ ہے جس کے بارے میں نبی اکرم ۖنے فرمایاکہ امام
مہدی علیہ السلام کی مددکیلئے یہاں سے کالے جھنڈے لیکر مسلمان فوجیں چلیں
گی اوران کوراستہ کوئی نہ روک سکے گایہاں تک کہ وہ کالے جھنڈے ایلیائی (بیت
المقدس)میں نصب کئے جائیں گے اورچونکہ یہی علاقے یہودی لابی کے عالمی غلبے
کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ،اس لئے یہودی امریکاکوافغانستان کی جنگ
میں دھکیل کرخراسان کے علاقوں کوکمزورکرناچاہتے تھے اورایک تیرسے
دوشکارکرناچاہتے تھے اوردوسری وجہ یہ ہے کہ افغانستان سے متصل پاکستان کی
حدودشروع ہوتی ہیں اور کرۂ ارض پردوہی نظریاتی ریاستیں وجودرکھتی ہیں،ایک
پاکستان اوردوسرااسرائیل،چونکہ پاکستان قومی نظریہ اورلاالہٰ الااللہ کی
بنیادپروجودمیں آیا ہے جویہودیوں کے عالمی نظام کے بالکل متصادم ہے
لہندااسرائیل کیسے اپنے نظریاتی حلیف کوبھول سکتاہے؟ اس کابرملااظہاران کے
سرکردہ رہنماؤں نے کئی باراپنے نظریاتی کارکنان کے سامنے کیاہے تاکہ وہ
اپنے ٹارگٹ کوکسی بھی حالت میں بھولنے نہ پائیں۔
1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں جب اسرائیل کوفتح حاصل ہوئی توکامیابی کاجشن
منانے کیلئے بن گوریان نے پیرس(فرانس)کاانتخاب کیا اور ساربون یونیورسٹی
میں متاز یہودیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:بین الاقوامی صہیونی تحریک کوکسی
بھی طرح اپنے لئے پاکستان جیسے عظیم خطرے کانظراندازنہیں کرناچاہئے
اورپاکستان اب بھی ان کااوّلین ہدف ہوناچاہئے،اس لئے کہ یہ نظریاتی ریاست
ہمارے وجودکیلئے خطرہ ہے۔(پاکستان کا ذہنی وفکری سرمایہ اورجنگی وعسکری قوت
وکیفیت آگے چل کرکسی بھی وقت ہمارے لئے باعثِ مصیبت بن سکتی ہے)پاکستان کل
کلاں یہودیوں سے نفرت اور عربوں سے محبت کرتاہے،عربوں سے محبت کرنے والایہ
ملک ہمارے لے خودعربوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے چنانچہ عالمی صہیونیت کیلئے
انتہائی ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف فوری طورپراقدامات کرے اورپاکستان
سے ہمیشہ خبرداررہے اورجہاں تک ہو سکے اس کو تباہ کرنے کیلئے اپنی
تدابیرکوبروئے کارلانے میں کبھی بھی سستی نہ کرے جبکہ جزیرۂ نمائے ہندکے
رہنے والے ہندوہیں جن کے دل مسلمانوں کے خلاف نفرت سے بھرے ہوئے ہیں چنانچہ
پاکستان کے خلاف کام کرنے کیلئے بھارت ہمارے لئے بہترین اڈہ ثابت ہوسکتاہے۔
ہمارے لئے یہ نہائت اہم اورضروری ہے کہ ہم اس اڈے کواپنے تصرف میں لاکرخوب
فائدہ اٹھائیں اورپنے تمام خفیہ اورپوشیدہ منصوبوں کے ذریعے پاکستانیوں
کونشانہ بناکرانہیں نیشت ونابودکردیں جویہودیت وصہیونیت کے دشمن ہیں۔بھارت
کے ستھ ہماری دوستی نہ صرف ضروری ہے بلکہ مفیدبھی ہے اورہمیں اس تاریخی
عنادسے ضرورفائدہ اٹھاناچاہئے ۔جوہندوپاکستان اوراس میں رہنے والے مسلمانوں
کے خلاف رکھتاہے۔یہ تاریخی دشمنی ہمارے لئے زبردست سرمایہ ہے لیکن ہماری
حکمت عملی ایسی ہونی چاہئے کہ ہم بین الاقوامی دائروں کے ذریعے ہی بھارت کے
ساتھ اپناربط وضبط رکھیں''۔ (یروشلم پوسٹ 19/اگست 1967)
تقریرکے مندرجہ بالااقتباس میں ڈیوڈبن گوریان نے اپنے ممتازیہودیوں
کوپاکستان کے مسلمانوں اوربھارت کے ہندوؤں کے درمیان نفرت کو بہترین
وکارآمدہتھیارکے طورپر استعمال کرنے کی تجویزبھی پیش کی ہے اورکون نہیں
جانتاکہ آج افغانستان میں بھارت کے ایک سوسے زائد مراکز میں جہاں افغانی
اوردیگرقومیت کے افرادکوپاکستان میں تخریبی ودہشتگردکاروائی کیلئے ہر قسم
کی ٹریننگ دی جاتی ہے ،آرمی پبلک اسکول جیسے وحشیانہ واقعات اسی کاشاخسانہ
ہیں۔لہنداافغانستان کے راستے پاکستان کے امن کوسبوتاژکرناہمیشہ سے
یہودوہنودکاایجنڈہ رہاہے اور کئی بارارضِ پاکستان کو شدیدنقصان پہنچانے کی
کوششیں جاری ہیں لیکن اللہ کی تائیدونصرت کی وجہ سے ہماری بہادرافواج اپنی
لازوال جانوں کی قربانیوں سے ان کی مکروہ کوششوں کو ناکام بناتی چلی آرہی
ہیں۔مثلاً27 مئی 1998 ء کوپاکستان کے ایٹمی پلانٹ کوتباہ کرنے کیلئے بھارت
کے ائیرپورٹ پراسرائیلی جہازوں کاپایاجاانالیکن پاکستان کے انٹیلی جنس
اداروں اورپاک فضائیہ کی بروقت کاروائی نے اس خطرناک منسوبے کاناکام
بنادیا۔
بہرحال افغانستان سے غاصب امریکاکاانخلاء یقیناً افغان مجاہدین کی
استعمارسے جاری اٹھارہ سالہ جنگ میںایک عظیم الشان فتح ہے جس پرافغان
مجاہدین مبارکبادکے مستحق ہیں کہ انہوں نے دنیا کی دوبڑی سپرطاقتوں کابڑی
جوانمردی سے نہ صرف مقابلہ کیابلکہ ذلت آمیزشکست دیکر افغانستان کوان دونوں
فرعونی طاقتوں کاقبرستان بھی بنایا۔افغان مجاہدین کے صبر،ہمت و حوصلے کی دل
کھول کرداددیناچاہئے جوتقریباً اٹھارہ سال تک مشترکہ مسلح امریکی اوراس کے
اتحادی افواج کے ساتھ برسرپیکاررہے اوراسلامی نظام پرکسی بھی قسم کاسمجھوتہ
کرنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی۔ لیکن کیااسے محض اتفاق کانام دیاجاسکتاہے
کہ امریکاجوبرسوں سے شام کی سرزمین پردولت اسلامیہ (داعش)کوکچلنے ،ایران کا
راستہ روکنے اورشام میں ایرانی فوج کے اثرورسوخ کومحدودکرنے کیلئے
کودپڑاتھا،اسے اب اچانک انخلاء کافیصلہ کیوں کرناپڑاہے جس پرعملدرآمدبھی
افغانستان سے قبل ہی شروع ہوچکاہے جبکہ شام میں تاحال داعش کاوجود کثیر
تعداد میں باقی ہے اورایران کے ساتھ مل کرحزب اللہ کواتاردیاہے اوراس وقت
شام میں ایرانی فوج اور پاسداران کے پانچ کمانڈ،تیرہ فوجی اڈے اورقریباً
ایک لاکھ نفری موجودہے۔یہ پانچ کمانڈدمشق کے بیس میں واقع ایرانی
ہیڈکوارٹرسے براہِ راست منسلک ہیں بلکہ التنف میں جوشام،اردان وعراق کا
انتہائی اہم سرحدی علاقہ ہے ،امریکی اڈے کے گردحزب اللہ کی پیش قدمی عروج
پر ہے۔
شام سے امریکی انخلاء کابیان سامنے آتے ہی اسرائیل پرجیسے قیامت ٹوٹ پڑی ہے
۔رپورٹ کے مطابق اسرائیلی اخباریدی ہوتھ اخرونوتھ کے مطابق ایک اسرائیلی
عہدیدارکا کہناہے کہ امریکا کی طرف سے اس قسم کابیان ہمارے لئے تعجب سے کم
نہیں بلکہ افسوسناک ہے۔ہمیں اس بیان سے کوئی فرق نہیں پڑتااورہم شام میں
ایرانی فوج کی موجودگی کے خلاف سخت اقدامات جاری رکھیں گے۔کہیں ایساتونہیں
کہ امریکاکوبیچ میں سے نکال کراسرائیل براہِ راست گریٹراسرائیل کے منصوبے
کی طرف پیش قدمی کرناچاہتاہے؟یہ محض اتفاق نہیں بلکہ ٹرمپ نے جس وقت امریکی
سفارت خانے کویروشلم منتقل کرنے کااعلان کیاتھا،امت مسلمہ کے دانشوران اس
بات کوسمجھ گئے تھے کہ اب طاقت کاتوازن امریکاسے اسرائیل کی طرف منتقل ہونے
والاہے اور اسرائیل اقتدارمیں آنے سے قبل امریکی افواج کودنیابھرسے واپس
بلانے اوراخراجات کم کرنے کے عزائم کی طےشدہ منصوبے کی تکمیل کررہاہے جہاں
پرامن،محفوظ اورلاتعلق نیا امریکا دنیاکی سربراہی سے دستبردارہوجائے
گااوردنیاپرگریٹراسرائیل کی عملاًحکمرانی ہوگی۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی کوبھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل
نے اپنے گریٹراسرائیل کی تکمیل کیلئے کس طرح بھارت کی مودی سرکارکواستعمال
کرنے کی پوری کوشش کی اورباقاعدہ پاکستان پرمشترکہ حملے میں اسرائیل کے ذہن
سازوں نے پچھلے تین برس تک اس منصوبے کی نہ صرف نوک پلک سنواری بلکہ
بالاکوٹ حملے میں بھارتی مگ جنگی جہازاسرائیلی بموں سے لیس ہوکرحملہ
آورہوئے اورباقاعدہ ایک منظم سازش کے تحت اگلے دن درجن بھربھارتی جدیدجنگی
جہازوں کی مددسے بالاکوٹ کے قریب حملے میں اسرائیلی ساختہ اسپائس 2000 بم
استعمال کئے گئے۔فی الوقت یہ بم صرف میراج طیاروں پرہی نصب کیے جا سکتے ہیں
تاہم اسرائیل ان بموں کو روسی ساختہ سخوئی 30طیاروں پر نصب کرنے میں بھارت
کی معاونت کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان قریبی فوجی تعاون کئی برسوں سے
چل رہا ہے۔
پاکستان نے بھارت کے جو طیارے تباہ کیے ان میں سے ایک مگ 21 تھا جس کا ملبہ
پاکستانی حدود میں گراجب کہ دوسراسخوئی 30 بتایاجاتاہے جس کاملبہ مقبوضہ
کشمیر میں گراہے تاہم بھارت اپنے دوسرے طیارے کی تباہی سے انکاری ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ دوسرا پائلٹ اسرائیلی ہے اس لیے بھارت کیلئےیہ
کہنا ممکن نہیں کہ اس کا ایک اور پائلٹ پاکستان کی تحویل میں ہے۔ دوسری
جانب اسرائیل بھی سرعام یہ تسلیم نہیں کرسکتا کہ اس کا پائلٹ پاکستان پر
حملہ کرنے گیا تھا۔ بھارتی میڈیا یہ بھی کہہ چکا ہے کہ پاکستانی طیاروں کا
مقابلہ کرنے کیلئےجو بھارتی جہازاڑے تھے ان میں میراج بھی شامل تھے۔
اسرائیلی فضائیہ کے پاس میراج طیارے ہیں اوراس کے پائلٹ ان طیاروں کو اڑانے
کا تجربہ رکھتے ہیں۔
اس حملے میں پاکستان کے پانچ اہم مقامات کونشانہ بنانے کاپروگرام بھی منکشف
ہواجس میں راجستھان سے بہاولپورپرحملہ کرکے پاکستان کوسندھ کی طرف سے الگ
کرنامقصودتھالیکن اس سے قبل ہی پاکستان کی فضائیہ اورجنگی ماہرین نے بھارت
کے آٹھ اہم علاقوں کوعملی طورپرلاک کرکے پیغام بھیج دیاگیاکہ پاکستان
کاجواب اس منصوبے سے تین گنازیادہ ہوگااوربھارت اپنے دو درجن حصوں کوجمع
نہیں کرپائے گاجس پربھارت واسرائیل کوویسی ہی ناکامی کامنہ دیکھناپڑا جیسا
27 مئی 1998ءکوبری طرح ناکامی کامنہ دیکھناپڑاتھا۔تاہم یہ بات طے ہے کہ
افغانستان سے امریکاکے انخلاء کے بعدبھارت واسرائیل کوجس عظیم ناکامی
کاسامناہے ،امریکی انخلاء کوناکام بنانے کیلئے بھارت واسرائیل ہلکے پیٹ
برداشت نہیں کرپائے گاکیونکہ خطے میں پانچ کھرب ڈالرزکے تیل سے دستبرداری
دنیاکومزید تباہی کی طرف لیجاسکتی ہے لیکن جس طرح حالات نے افغان مجاہدین
کوفتح سے ہمکنارکیاہے اورخطے میں جس طرح میرے رب کے نظام کے قیام کی باتیں
ہورہی ہیں ،امیدواثق ہے کہ میرارب کے فیصلوں کی بہاریں دنیاکومستفیذکرنے
جارہی ہیں اور دنیاکانیادجّال اک نئے جنجال میں غرق ہوجائے گاان شاءاللہ۔
|