سرمایہ دارنہ و جاگیردارنہ نظام میں جس طرح صحت تعلیم '
جنگ ایک کاروبار ہے اسیطرح سیاست بھی اسی نظام کا ایک کاروبار ہے جس میں
سیاسی ورکر نہیں بلکہ سیاسی نوکر پیدا کئے جاتے ہیں ۔ اور ان سیاسی نوکروں
کو اتنا سیاسی شعور دیا جاتا ہے جتنا ایک جعلی پیر اپنے مریدوں کو دیتے ہیں
تاکہ انکی پیری مریدی برقرار رہے۔ اس کاروبار کا بھی عجیب طریقے سے پرچار
کیا جاتا ہے ۔ اور عام عوام کو دھوکے میں رکھا جاتا ہے ۔ اس نظام کی سیاسی
پارٹیاں باظاہر تو سیاسی پارٹیاں نظر آتی ہیں لیکن وہ اصل میں پرائیویٹ
لیمٹڈڈ کمپنیاں ہی ہوتی ہیں ۔ جو چند خاندانوں یا کسی ایک خاندان کے گرد
گومتی ہے ۔ اور اس پارٹیوں کے ورکرز کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ ان چند
خاندانوں کی پیروکاری ہی ایک نظریہ ہے اور ان ورکرروں کو اس ٹرک کی بتی کے
پیچھے لگادیا جاتا ہے ۔ عمر گزر جاتی ہے لیکن یہ ورکرز اپنے مخلصی کو ثابت
کرتے کرتے اکثر اس دنیا سے بھی چلے جاتے ہیں ۔اور ایک ہی دھن میں مگن رہتے
ہیں ۔ نظریہ ' نظریہ انکو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ نظریہ ہمیشہ معاشی
مفادات کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ انفرادی نظام کپیٹل ازم(سرمایہ دارنہ یا
جاگیردارنہ) یا اشتراکی نظام (سوشلزم ) کا نظریہ ۔
یہ سیاسی پارٹیاں اپنے آپ کو جمہوریت کا چیمپین کے طور پر پیش کرتی ہیں
لیکن یہ بھی ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ کیونکہ اگر دیکھا جائے تو ان
پارٹیوں کے اندر جمہوریت کا فقدان ہوتا ہے ۔ اور ایک ڈکیٹیرشپ کے زریعے
پارٹیوں کو چلایا جاتا ہے ۔ اگر تنظیمی لحاظ سے ان پارٹیوں میں جمہوریت کا
فقدان ہو تو وہ ملک میں ایک عوامی جمہوری حکومت کیسے بناسکے گی ۔ بلکہ ہم
یہاں پر یہ کہ سکتے ہیں کہ یہاں حکومت سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی گھٹ
جوڑ سے ہی بنتی ہے ۔ انتخابات محض ایک ڈرامے کے سواکچھ نہیں ہوتا ۔ اگر یہ
انتخابات حکومت سازی کے لئے ہو یا تنظم سازی کے لئے دورانِ انتخابات ایک
ایسی فضاء قائم کی جاتی ہے کہ ایک عام مزدور یا مڈل کلاس تعلیم یافتہ
نوجوان اس میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ اور انکو یہ باور کریا جاتا
ہے کہ سیاست عام عوام کا کام نہیں بلکہ یہ ایک محسوس طبقے کا کام ہے ۔ جس
کے لئے بڑے سرمائے یا جاگیردار کا ہونا لازمی ہے اور عام عوام میں سے جو
بھی اس کا حصہ بنتے ہیں ۔ ان ذہنی طور پر اسطرح مایوس کیا جاتا ہے تاکہ وہ
یا غیر سیاسی بنے ۔ یا اس محسوس طبقے کی مریدی کرے ۔۔.
اس لئے ہم اگر سیاست میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا
لازمی ہے کہ ہم کس طبقے کی سیاست کررہے ہیں ۔ اور اپنے سیاسی جدوجہد سے کس
طبقے کو مضبوط کررہے ۔ کیونکہ ہمیں اپنے طبقے کی سیاست کرنی چاہئے ناکہ
ایسے طبقےکے ساتھ سیاسی جدوجہد کا حصہ بنے جس کی سیاسی جدوجہد سے حاصل ہونے
والے ثمرات کا عام عوام سے کوئی واسطہ نا ہو ۔ بلکہ ان کے ثمرات ایک محسوس
طبقے کے لئے ہو ۔۔۔ !!!! |