ہم پشاور سے جہلم تک با پیادہ سفر کرتے ہوئے پہنچے
اور راستے میں کچھ کام بھی کرتے تھے یعنی باغیوں سے اسلحہ چھیننا اور ان کو
پھانسیوں پر لٹکانا۔ اور یہ معلوم ہونے پر کہ اس قسم کی موت کی وہ کوئی خاص
پرواہ نہیں کرتے تو ان میں سے چار آدمیوں کو فوجی عدالت کے حکم سے توپوں سے
باندھ کر اڑا دیا گیا۔ یہ طریقہ اگر چہ نہایت دل خراش تھا لیکن صرف اسی سزا
کا ان لوگوں پر اثر ہوا اور ہماری ہیبت ان کے دلوں پر بیٹھ گئی۔ چنانچہ ایک
دن ایک توپ کے بہت بڑے دھماکے کی آواز سے ہم چونک گئے جس کے ساتھ ایک وحشت
ناک چیخ بھی سنائی دی۔ دریافت کرنے پر ہمیں ایک آفیسر نے بتایا کہ یہ نہایت
ہی کرب انگیز نظارہ تھا یعنی ایک توپ میں اتفاق سے بارود زیادہ بھرا ہوا
تھا جس کے چلائے جانے سے بدقسمت ملزم کا گوشت ریزہ ریزہ ہو کر فضاء میں اڑا
اور تماشائیوں پر خون کے چھینٹے اور گوشت کے ٹکڑے گرے اور اس کا سر ایک راہ
چلتے شخص پر اس زور سے گرا کہ اس کو بھی چوٹ آگئی۔ عزیزانِ من۔ انگریز مصنف
مسٹر ایڈورڈ ٹامسن نے اپنی کتاب"دی آور سائڈ آف دی مڈل" میں انقلاب 1857ء
کے یہ درد ناک حالات اور انگریزوں کی درندگی کے سارے واقعات بیان کیے ہیں۔
یہ تو اس کتاب کی ایک چھوٹی عبارت تھی جو لارڈ رابرٹس نے اپنی ماں کو ایک
چھٹی لکھی تھی۔ آپ کھبی یہ کتاب نکال کر پڑھنے کی زحمت کیجیئے تو آپ جان
لیں گے کہ تہذیب و اخلاق کے ان دعویداروں نے اس حق بجانب بغاوت کا کیا علاج
کیا۔ اور مذہبی مجنوں کی اصلاح کے لیے ان دانشمندوں کا طرزِ عمل کیا تھا جو
یورپ سے خدمتِ خلق کے لیے سات سمندر پار کر کے ہندوستان آئے تھے۔ یعنی صرف
کارتوسوں کے انکار پر جو انسانیت سوز سزائیں دی گئی تھی اور جس بربریت اور
درندگی کا مظاہرہ کیا گیا تھا اس کی مثال تاریخ کے اوراق میں نہیں ملتی۔
لارڈ رابرٹس کے نزدیک اس قسم کی درندگی کا مقصد یہ تھا کہ"ان بدمعاش
مسلمانوں کو بتادیا جائے کہ خدا کے حکم سے صرف انگریز ہی ہندوستان پر حکومت
کریں گے" عزیزانِ من۔ وہ مسلمان جو بحیثیت فاتح قوم ہندوستان میں داخل ہوئے
تھے جو ہزار سال تک ہندوستان کے تخت کے تاجدار بنے رہے وہ مسلمان اتنے
مغلوب کیوں ہوئے؟ اور باوجود ایک بڑی فوجی طاقت ہونے کے انگریزوں سے شکست
کیسے کھا گئے؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں نے
تلواریں اور نیزے تو بہت بنائے لیکن جدید ہتھیار بنانے سے غافل رہے اور توپ
سازی اور بارودی ہتھیار بنانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ حلانکہ جدید
ہتھیار بنانا ایک دینی حکم بھی ہے اور ہمارے اسلاف نے بھی وقت کی جدید
ہتھیاروں کے ساتھ جنگیں لڑی ہے۔ آج دنیا بارود بنانے کا سہرا چین کے سر
باندھتی ہیں کہ چینیوں نے سب سے پہلے بارود بنائی ۔ اگر یہ بات درست ہو یا
نہ ہو لیکن یہ درست ہے کہ انگریزوں سے بہت پہلے 692 عیسوی میں حجاج بن یوسف
کے دور میں مسلمانوں نے توپ اور بارود کا استعمال کیا۔ اسی بارودی ہتھیار
کی مدد سے عثمانی ترکوں نے بازنطینی عیسائی سلطنت کا خاتمہ کیا اور سلطان
محمد نے 1453 عیسوی میں یورپ میں قسطنطنیہ فتح کیا۔ اسی سے 73 سال بعد 1526
عیسوی میں ظہیر الدین بابر نے ہندوستان پر حملہ کیا اور پہلی بار بارودی
ہتھیار توپ کا استعمال کیا۔ بابر کے فتح کے بعد ہی ہندوستان کے اس سنہری
دور کا آغاز ہوا جس کو مغلوں کے عظیم مغل اورنگزیب عالمگیر نے آخری حدوں کو
پہنچایا جس میں کابل اور قندھار بھی ہندوستان میں شامل رہے۔ یہی وہ دور تھا
جس میں دنیا ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہتی تھی۔ دراصل یہ ہندوستان کی دولت
اور خوشحالی ہی تھی جس کے لیے یورپی قومیں کتوں کی طرح روندتی ہوئی آئی
تھی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد اور مغلوں کے سرخیل ظہیر
الدین بابر کے جانشین توپ سازی کو مزید فروغ دیتے اور ساتھ ہی دوسرے بارودی
ہتھیاروں کے موجد بنتے لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا اور یورپ کی دوسری اقوام
نے اس کی طرف توجہ دی تو رائفل، مشین گن، دستی بم اور چھوٹی توپیں وغیرہ
ایجاد کئے۔ جب انگریز 1601ء میں پہلی بار برصغیر کی جنوبی بندرگاہوں پر
اترے تو وہ اپنے ساتھ بندوق ، رائفل اور بھاپ سے چلنے والے سمندری جہازوں
کا بیڑا بھی لیکر آئے۔ لیکن پھر بھی اس حقیقت پر کسی مغل بادشاہ نے غور
نہیں کیا۔ جس کا نتیجہ کیا ہوا یہ آپ 1707ء میں عالمگیر کے وفات کے بعد
1857ء کے انقلاب آزادی تک کے حالات میں پڑھ سکتے ہیں۔ عزیزانِ من۔ سویڈش کے
تحقیقاتی ادارے سپری نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں کے
دوران عالمی سطح پر اسلحے کے خرید وفروخت میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ
میں کہا گیا ہے کہ جو ممالک انسانی ترقی کے لحاظ سے 30ویں نمبر سے پیچھے ہے
وہ سب سے زیادہ ہتھیار خرید رہے ہیں۔ مثال کے طور پر سعودی عرب جو انسانی
ترقی کے لحاظ سے 39ویں نمبر پر ہے وہ اسلحہ خریدنے میں دوسرے نمبر پر ہے۔
یو اے ای انسانی ترقی کے لحاظ سے 34وہں نمبر پر ہے اور اسلحہ خریدنے میں
چوتھے نمبر پر ہے۔ تحقیق کے لحاظ سے ہمارا دوست ملک چین انسانی ترقی کے
لحاظ سے 86ویں نمبر پر ہے جبکہ اسلحہ خریدنے میں 5ویں نمبر پر ہے اور
پاکستان انسانی ترقی کے لحاظ سے 150 جبکہ اسلحہ خریدنے میں 9ویں نمبر پر
ہے۔ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جو ممالک اسلحہ فروخت کرتے ہیں وہ
دوسروں کے بنسبت زیادہ خوشحال اور انسانی ترقی کے لحاظ سے زیادہ مضبوط ہے۔
اسلحہ فروخت کرنے میں امریکہ، روس، فرانس، جرمنی اور چائنہ بالترتیب
سرفہرست ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ممالک اپنی بجٹ کا زیادہ فیصد
اسلحے کے خرید وفروخت پر خرچ کرتے ہیں۔ آج دنیا بھر کے دانشوروں کی طرح
ہمارے دانشور بھی یہ کہہ رہےہیں کہ اسلحہ خریدنے اور بنانے پر اتنی رقم خرچ
کرنے کے بجائے یہ رقم معیشت کو مضبوط کرنے غربت کو ختم کرنے اور صحت وتعلیم
وغیرہ پر خرچ کیوں نہیں کرتے؟ میری ان بھائیوں سے گزارش ہے کہ کیا جدید
ہتھیار خریدنا اور بنانا چھوڑ کر آپ دوبارہ ہندوستان کی تاریخ دہرانا چاہتے
ہیں؟ کیا آپ یہ بھول گئے ہیں کہ ہمارا پڑوسی ملک بھارت انسانی ترقی کے لحاظ
سے 130 جبکہ اسلحہ خریدنے میں پہلی پوزیشن پر براجمان ہیں۔ کیا اب کے بار
آپ بھارت کے توپوں سے ہمارے سینے چھلنی کرنا چاہتے ہیں؟ یہ تو خالص اللہ
تعالیٰ کے احسان سے ، افواجِ پاکستان کی محنت اور ذوالفقار علی بھٹو کے
جزبے سے "کہ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے" یہ ممکن ہوا
اور ہم ایٹمی قوت بن گئے۔ آج ساری دنیا پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے
معترف ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام دنیا کا سب
سے تیز رفتاری سے ترقی کرنے والا پروگرام ہے جو جلد ہی پاکستان کو دنیا کا
تیسرا بڑا ایٹمی ملک بنا دیگا۔ اور پاکستان نے تو میزائل ٹیکنالوجی میں
آمریکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آج پاکستان کے ایٹمی پروگرام نے مسلم
دشمن طاقتوں کی نیندیں حرام کردی ہے ہمیں چاہیے کہ ہم بحیثیت مجموعی جدید
ہتھیار بنانے اور ایٹمی پروگرام کو بڑھانے پر متفق رہے کیوں کہ اسی میں
ہماری بقا ہے اور یہ ہمارا دینی فریضہ بھی ہے۔ اور میرے وہ بھائی جو ہتھیار
بنانے کے بجائے معیشت کی بات کرتے ہیں انہیں یہ جاننا چاہیے کہ میرے نبی نے
بھوک کی شدت سے پیٹ پر دو پتھر باندھے تھے لیکن تلواریں 9 رکھی تھی۔ میرے
نبی نے کرتا ایک ، کمبل ایک، عمامہ ایک، یمنی جامہ ایک اور رومال ایک رکھی
لیکن زرہیں 7 رکھی تھی۔ محمد رسول اللّٰہ کے پاس وضو کے لیے برتن ایک، شیشے
کا پیالہ ایک، اور پیتل کا بڑا کونڈا ایک تھا لیکن ڈھال 2 ، نیزے 5، ترکش 2
اور کمان 6 کی تعداد میں تھے۔ اور جنگ پر جانے کے لیے سواریوں میں2 گدھے، 4
خچر،اور 9 گھوڑے پال رکھے تھے۔ عزیزانِ من ۔ اگر آپ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کریں گے تو آپ یہ جان لیں گے کہ آپ ہر
وقت جنگ کے لیے تیار رہتے تھے اور آپ ہر جنگ جدید ہتھیار اور نئی حکمت عملی
کے ساتھ لڑتے تھے۔ اب آپ لوگ خود ہی فیصلہ کرلیں کہ ہمیں جدید ہتھیار بنانے
چاہیے کہ نہیں۔ |