آزادکشمیر میں تعلیم کا معاشرتی زوال چہرہ ۔۔۔۔۔قسط اول

آزادکشمیر میں تعلیم کا معاشرتی زوال چہرہ ۔۔۔۔۔قسط اول

مظفر آباد بنک روڈ ایک بک ڈپو پر سیلز مین نے ایک خاتون کو یاد کرایا آپ نے ایک خاتون کی سفارش کی تھی جو اپنے بچوں کیلئے کتابیں لے گئی تھیں جس کی ادائیگی بقایا ہے خاتون جو ایک سکول سے منسلک ہیں نے ایک لمحہ تاخیر بغیر بے ساختہ جواب دیا کتابیں لے جانے والی خاتون نے اگر ادائیگی نہیں کی تو لازماً کر دے گی وہ ہماری طرح نہیں ہے غیر مسلم (عیسائی) ہے ان کا خوشگوار لہجہ بتا رہا تھا ان کو اپنی گارنٹی پر قابل رشک اعتماد ہے وہ خاتون قطعاً بددیانتی یا جھوٹ نہیں بولے گی ‘ محتمول نظر آنے والی خاتون کا غیرمسلم عیسائی غریب صفائی گھروں میں کام کرنے والی خاتون کے حوالے سے فخریہ انداز سامنے رکھیں اور تین جڑے بک ڈپوز کے آگے سے گزرتے ہوئے ایک بوسیدہ لباس میں ملبوس شخص نے روک کر اپنے چہرے پر ہوائیاں اڑتے انداز میں کہا کچھ لکھیں کتابیں کاپیاں بہت مہنگی ہو گئی ہیں بچوں کو تعلیم دلانا ناممکن ہو گیا ہے پوچھا بچے کہاں پڑھتے ہیں بتایا پرائیویٹ سکول میں ہیں ‘ سرکاری سکول میں کیوں داخل نہیں کراتے ‘ سوال کے جواب میں گریڈ چار کے اس ملازم کا عدم اعتماد تھا یہ واقعات سارے معاشرے کے سرکاری ‘ غیر سرکاری تمام تر اداروں شعبہ جات زندگی کے معاشرتی چہرے کی اصل شکل ہیں ‘ راقم کے علم میں واقعات لطیفے باتیں صرف کانوں سے سنی نہیں آنکھوں سے دیکھی ہوتیں ہیں درج بالا واقعات جیسی بے شمار سرکار سے جڑے محکموں اور تمام معاشرتی شعبہ جات میں نیچے سے اوپر تک ماسوائے آٹے میں نمک کے برابر باقی سب کی حالت زار روز روشن کی طرح عیاں کرتے ہیں‘ وطن عزیز خصوصاً آزادکشمیر انسانیت مسلمانی سب سے آخری نام کی حد تک منسوب ہیں ‘ قومی پہچان اس کے بھی بعد ہے ‘ علاقہ ‘ برادری ‘ زبان ‘ رشتہ داریاں تعلق ان سے بھی پہلے اپنا اپنا مفاد وہ چاہے جس صورت میں بھی ملے اصل حقیقت بن چکا ہے ‘ حتیٰ کہ تعلیم بچوں کو دلانے کیلئے اپنی آمدن سے بڑھ کر جائز ناجائز کی تمیز کے بغیر رسک کی دلدل میں دھنستے چلے جانا منظور ہے ناجائز ذرائع پر تکیہ کر کے بچوں کو تعلیم دلاتے ہوئے ان سے اچھائی یا اچھا بننے کی دھوکہ پر دھوکہ کھانے کا شوق بن چکا ہے اولاد سے زیادہ پیارا کون ہوتا ہے تو ان کے بعد کے رشتوں تعلق کیلئے طرز عمل رویوں کا بخوبی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے ہر طرف ‘ ہر جگہ یہ عام سی بات ہو گئی ہے جس کا سب ہی سرکاری غیر سرکاری اداروں اور معاشرتی شعبہ جات میں کم سے کم وقت میں اندازہ لگانا ہو تو ضلعی ایلیمنٹری بورڈز کو سامنے رکھ لیں ‘ میٹرک ‘ انٹرمیڈیٹ کلاسز کے امتحان میرپور بورڈ لیتا ہے یہ نئے بورڈز بنانے کی ضرورت نہیں تھی مگر پانچویں تا آٹھویں کیلئے بھی یہ بنا دیئے گئے جبکہ سکولز یہ کام پہلے زیادہ بہتر کر رہے تھے لیکن ان کا مقصد قومی مقامی سرکاری پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں ابتدائی تعلیمی بہتری مسابقت بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے ‘ صحت مندانہ مقابلہ کی فضاء ہموار کرنا بتایا گیا کہ یہ غیر جانبدار پالیسی اختیار کرتے ہوئے نافذا لعمل کریں گے مگر عملاً یہ نئے اضلاع ‘ تحصیلوں ‘ محکموں پھر انکے شعبہ جات بڑھاتے ہوئے گریڈوں کے حصول کی نئی اسامیوں مراعات گاڑیوں پوزیشنوں اور طلبہ کے والدین پر مالیتی بوجھ بن کر اُمور کو سلجھا کر سمیٹنے کے بجائے اُلجھاتے ہوئے بڑھانے کا باقی دوچار کے علاوہ دیگر سب اداروں کی طرح کا گورکھ دھندہ بن چکے ہیں ‘ (جاری ) انشاء اللہ کل قسط دو میں)
 

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 131473 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.