ذرائع ابلاغ میں پچھلےدنوں ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملے
کہ جن میں کسان اپنے گنے کے کھیتوں کو جلا رہے ہیں ، ٹماٹر بازار میں پھینک
کر جارہے ہیں اور دودھ کے ٹینکر احتجاجاً سڑکوں پر بہا رہے ہیں ۔ ایسا کیوں
ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جب کسان کو اپنی پیداوار کی مناسب قیمت
نہیں ملتی تو وہ حزن و ملال کی کیفیت میں مبتلا ہوکراس تباہ کاری کا ارتکاب
کرتا ہے۔ کسانوں کو قیمت اس لیے نہیں ملتی کہ جب طلب و رسد کے توازن کا بگڑ
جاتا ہےتو اجناس کا بھاو گر جاتا ہے۔ جب کسان کا مال ارزاں ہوجائےتو وہ
افلاس کا شکار ہوکر خودکشی پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ یہی معاملہ سیاست کے بازار
میں بھی ہوتا ہے؟ جب کسی چیز کی بہتات ہوجاتی ہے تو اس کی اہمیت ختم ہوجاتی
ہے ۔
اس تناظر میں گزشتہ ایک ماہ میں مودی جی کی سرگرمیوں کو دیکھیں ۔ اس دوران
انہوں نے ۲۸ مقامات کے دورے کیے اور ۱۵۷ پروجکٹس کا سنگ بنیاد رکھا ۔ اب
اگر کوئی پوچھے کہ ان میں سے پانچ مقامات اور دس پروجکٹس کا نام بتادو تو
ایک فیصد مودی بھکت بھی اس کا صحیح جواب نہیں دے سکیں گے۔ اس کے علاوہ اگر
یہ پوچھ لیا جائے کہ کیا کہ انہوں نے اس موقع پر کیا کہا تو’ سارا دیش خوش
ہے ‘ کے سوا کوئی بیان کسی کو یاد نہیں آئے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ
وزیراعظم کے دورے اس کثرت سے ہورہے ہیں کہ اخبارات نے انہیں شائع کرنا چھوڑ
دیا ہے۔ اس کے برعکس اگر یہ سوال کیا جائے کہ راہل گاندھی نے اس ہفتے کہاں
کا دورہ کیا تو صد فیصد لوگ بتادیں گے وہ کانگریس ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں
شرکت کے لیے گجرات گئے تھے اور یہ بھی بتا دے گا کہ انہوں اس انتخاب کو
دوسری جنگ آزادی سے تعبیر کیا ہے اس لیے کہ یہ خبر مع تصویر تما م اخبارات
کے پہلے صفحہ پر چھپ چکی ہے۔ سیاست میں اسے کہتے ہیں سو سنار کی تو ایک
لوہار کی ۔
کانگریس پارٹی نے ۵۸ سال کے بعد گجرات میں ورکنگ کمیٹی کا اجلاس طے کیا تو
بی جے پی کے خیمہ میں کھلبلی مچ گئی ۔ اس نے کانگریس کے ارکان اسمبلی کو
ڈرا دھمکا کر اور وزارت کا لالچ دے کر بی جے پی میں شامل کرنا شروع کردیا۔
اس طرح چار ارکان ٹوٹے ان میں سے ایک جواہر چاوڈا کو تو بی جے پی نے چند
گھنٹوں کے اندر وزیر بنادیا گیا ۔ برسوں سے پارٹی کی خدمت کرنے والے وفادار
دل مسوس کر رہ گئے۔ جواہر چاوڈا کو پچھلے سال جب رشوت مانگنے کے الزام میں
گرفتار کیا گیا تھا بی جے پی والوں نے خوب ہلاّ مچایا تھا ۔وہ اب بھی ضمانت
پر ہیں لیکن سنگھ پریوار اب ان کا زعفرانی غالیچہ بچھا کر استقبال کررہا
ہے۔ فروری کے پہلے ہفتہ میں کانگریس کی آشاپٹیل نے استعفیٰ دے کر بی جے پی
میں شرکت کی تو یہ انکشاف ہوا کہ وہ میہسانہ میں اونجھا سے رکن اسمبلی ہیں
۔ وہی اونجھا جہاں مری ہوئی گائے کی کھال نکالنے والے دلتوں کی کھال ادھیڑ
دی گئی تھی۔ اس کا بدلہ بی جے پی کو ان لوگوں نے اس طرح لیا کہ اس حلقہ سے
انتخاب سے کانگریس کی امیدوار کامیاب کردیا ۔ یہی کام الور کے مسلمانوں نے
بی جے پی کو ہراکر کیا تھا۔
آشا پٹیل کے انتخاب کی خاص سے بات یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کا
آبائی گاوں واڈ نگر اسی حلقہ انتخاب میں پڑتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ
۲۰۱۷ کے اندر جبکہ رافیل اور چوکیدار چور ہے کا نعرہ تک نہیں تھا اس وقت
بھی مودی جی اپنے گاوں سے بی جے پی کاا میدوار نہیں کامیاب کرپائے تھے۔ اس
نتیجے کے اندر اس سوال کا جواب بھی پوشیدہ ہے کہ مودی جی اپنا آبائی وطن
میہسانہ چھوڑ کر بڑودہ اور وارانسی سے انتخاب کیوں لڑتے ہیں؟ یہ عجب ستم
ظریفی ہے کہ ایک ایسے رہنما کوجو اپنے گاوں کے رکن اسمبلی کو بھی جیتا نہیں
سکتا ۲۰۱۴ میں سارے ملک کے اندر کمل کھلانے کی ذمہ داری دی گئی اور وہ
کامیاب بھی ہوگیا ۔ میہسانہ کا نتیجہ گواہ ہے کہ ہے مودی جی کو اب ان کی
والدہ آشیرواد بھی فائدہ نہیں پہنچا رہا ہے۔ آشا پٹیل کے منتخب ہونے
پرکوئی اور نہ سہی تو کم از کم جسودھا بین ضرور خوش ہوئی ہوں گی۔ اس کو
کہتے ہیں گھر میں گھس کر مارا۔
آشا پٹیل کے بی جے پی میں چلے جانے سے کیا ان کے رائے دہندگان بھی بی جے
پی کے وفادار ہوجائیں گے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے اس لیے کہ آشا پٹیل
کو کوئی نہیں جانتا مگر کانگریس کے اندر شامل ہونے والے میہسانہ کے سپوت
ہاردک پٹیل کو ہر کوئی جانتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آشا پٹیل کی کامیابی
ہاردک پٹیل کے مرہونِ منت تھی۔ یہ وہی رہنما ہے جس نے سب سے پہلے چوکیدار
چور ہے کا نعرہ بلند کیا تھا ۔ ہاردک پٹیل ، الپیش ٹھاکر اور جگنیش میوانی
کے ذریعہ کانگریس کی حمایت سے گجرات کی سیاست پر وہی اثرات مرتب ہو سکتے
ہیں جو اترپردیش میں اکھلیش اور مایا وتی کے اتحاد سے پڑے ہیں ۔ راہل کے
ساتھ راجستھان میں پائلٹ اور مدھیہ پردیش میں جیوترمہ سندھیا جیسی ابھرتی
ہوئی قیادت کے درمیان ہاردک پٹیل ایک انمول اضافہ ہے۔
ایک زمانے میں ۲۲ سالہ ہاردک پٹیل نے ریزرویشن کی تحریک سے پورے گجرات کو
ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کا وہی اصلی وارث ہے جس نے
۸۰ سے زیادہ ریلیاں کرکے ان کے جعلی نام لیواوں کو ناکوں چنے چبوادیئے اور
مودی جی کی ولیعہد آنندی بین پٹیل کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا۔
کانگریس میں شامل ہونے کے بعد ہاردک پٹیل کے جام نگرلوک سبھا سیٹ سے الیکشن
لڑنے کا امکان ہے ۔ کیشو بھائی پٹیل کے زمانے میں اس علاقہ سے بی جے پی کے
چندریش کوراڈیا کو ۱۹۸۹ سے ۱۹۹۹ کے درمیان مسلسل پانچ بارجیت ملی تھی
لیکن ۲۰۰۲ کے بعد مودی یگ میں یہ حلقہ کانگریس کی جھولی میں چلا گیا ۔
۲۰۰۴ اور ۲۰۰۹ میں جام نگر سے کانگریس کے امیدوار کامیاب ہوئے ۔ ۲۰۱۴ کی
مودی لہر میں چونکہ گجرات کی ساری نشستوں پر بی جے پی کامیاب ہوگئی تھی اس
لیے جام نگر بھی اس نے جیت لی لیکن اب کی بار گجرات میں مودی لہر نہیں بلکہ
ہاردک لہر ہے۔ دیکھنا ہے کہ یہ نئی لہر کیا گل کھلاتی ہے لیکن ۴ اور ۵ مارچ
۲۰۱۹ کو مودی جی کا بے شمار پروجیکٹس کا سنگ بنیاد رکھنا ان کی داخلی
گھبراہٹ کا بین ثبوت ہے۔ |