27لاکھ سے زائد تارکین وطنوں کو گرفتارکیوں کیا ۔؟

دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والے سعودی عرب نے27لاکھ سے زائد تارکین وطنوں کو گرفتارکیوں کیا ۔؟

سعودی عرب کو عالمی سطح پر حرمین شریفین کی وجہ سے فوقیت اور مرکزیت حاصل ہے اور یہاں کے حکمرانوں کو ان ہی مقدس ترین مقامات کی وجہ سے احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ سعودی شاہی حکومت کی جانب سے دنیا کے مختلف ممالک میں قہر خداوندی اورزمینی وآسمانی آفات و مصیبتوں کے بعد مظلوم و مصیبت زدہ افراد کیلئے ہزاروں ڈالرس کی امداد کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ سعودی عرب کے حکمرانوں بشمول موجودہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے بھی فلسطین اور دیگر ممالک کیلئے وسیع تر تعاون کیا ہے اور شاید یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔ اب رہی بات سعودی عرب کو روزگار کے سلسلہ میں جانے والے ان تارکین وطنوں کی جنہوں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگاکر دنیا کے کئی ممالک خصوصاً ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، افغانستان، مصر، فلسطین، انڈونیشا، یمن وغیرہ سے آئے ہیں۔ سعودی عرب کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں سب سے زیادہ خدمات انجام دینے والے ممالک میں ہندوستان، پاکستان بنگلہ دیش، افغانستان کے مزدور پیشہ افراد ملیں گے جنہوں نے تپتی ہوئی دھوپ،ٹھٹھرا دینے والی سردی کا مقابلہ کرتے ہوئے ،سخت محنت و مزدوری کے ذریعہ مملکتِ سعودی عربیہ کو دنیا بھر میں خوبصورت اورجگمگاتے ہوئے ممالک میں شامل کیا۔ ان لاکھوں تارکین وطن کی دن رات محنت و مزدوری نے آج شاہی خاندان کے بیشتر افراد کو تعیش پرست زندگی مہیا کی۔ کم سے کم پیسوں میں سخت جان لیوا کام کرنے والے مزدور آج جس کسمپری اور پریشان کن صورتحال سے دوچار ہیں اس کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ لاکھوں افراد کو روزگار سے محروم کردیا جارہا ہے ۔ ٹھیک ہے شاہی حکومت اپنے ملک کے عوام کو روزگار سے مربوط کرنے کیلئے اقدامات کررہی ہے لیکن جنہوں نے اس ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے دن رات محنت و مزدوری کی ہے انہیں کم از کم انکے اپنے ممالک کو واپس جانے کیلئے انتظامات کریں ، انہیں انکی محنت کی کمائی کا پورا پورا حصہ ادا کریں ۔ آج لاکھوں تارکین وطن جو سعودی عرب میں گرفتار کئے گئے ہیں ایسے ہیں جنہیں کئی کئی ماہ تک تنخواہوں سے محروم کردیا گیا ان میں سے کئی لاکھ تنخواہوں سے محروم اپنے اپنے وطنوں کوواپس بھی ہوچکے ہیں۔ خدمات کے صلہ میں ان تارکین وطنوں سے کام تو لیا گیا لیکن انکے لیبر کارڈس، اقامے (سعودی عرب کی جانب سے دیئے جانے والے آئی ڈی کارڈس)اور میڈیکل انشورنس نہیں کروائے گئے جس کی وجہ سے یہ لاکھوں تارکین وطن سعودی عرب کے مختلف شہروں و قصبات میں غیر قانونی قیام کے زمرے میں آگئے ۔ انکے پاس نہ تو لیبر کارڈس ہیں اورنہ اقامے ۔ جب حکومت کے ادارے بشمول جوازات (ادارہ پاسپورٹ و اقامہ) کی جانب سے پکڑنے کا کام جاری رہتا ہے تو پھر یہ افراد جو سڑکوں، ہوٹلوں ، رہائش گاہ،یاکہیں اور کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، ایسے میں ان سے جب جوازات یا دیگر محکموں کے عہدیدار اقامہ طلب کرتے ہیں تو وہ اپنا اقامہ دینے سے محروم رہتے ہیں ، جب ان افراد کے پاس اقامہ ہی نہ ہوتو پھر جوازات کی جانب سے انہیں حراست میں لے لیا جاتا ہے اور کئی کئی ماہ تک انہیں جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ اس کے ذمہ دار کون ہیں یہ جاننے سے قبل گذشتہ دیڑھ سال کے عرصہ میں مملکتِ سعودی عربیہ میں گرفتاریوں کی جو کارروائیاں کی گئیں اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی وزرارت محنت و سماجی بہبود کی جانب سے گذشتہ دنوں بتایا گیا ہے کہ 26؍صفر 1439ھ سے لیکر30؍جمادی الثانی 1440ھ تک ملک بھر میں مجموعی طورپر 27 لاکھ 48 ہزار 20 تارکین وطن گرفتار کیے گئے ہیں۔اس آپریشن میں مملکت کی 19 سے زائد سیکیورٹی ایجنسیاں اور مختلف سرکاری و نجی ادارے حصّہ لے رہے ہیں جن میں سعودی وزارت محنت اور محکمہ جوازات بھی شامل ہیں۔’غیر قانونی تارکین وطن سے پاک مملکت‘ کے نام سے جاری اس مہم میں اب تک 21 لاکھ 41 ہزار 312 افراد اقامہ،4 لاکھ 20 ہزار 668 افراد قانونِ محنت جبکہ ایک لاکھ 86 ہزار 40 تارکین کو سرحد سلامتی کے قوانین کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا۔اس کے علاوہ45 ہزار سے زائد افراد مملکت میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے اور تقریباً 19 سو مملکت سے فرار ہونے کی کوشش کے دوران گرفتار کئے گئے۔مملکت میں دراندازی کی کوشش کے دوران گرفتار کیے جانے والوں میں سے 51فیصد یمنی، 46فیصد ایتھوپین اور 3فیصددیگر ممالک کے بتائے جاتے ہیں۔ جبکہ 35 سو کے قریب افراد غیر قانونی تارکین کو پناہ دینے، اْنہیں ٹرانسپورٹ کی سہولت دینے اور ملازمتیں فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار کیے گئے ہیں۔ وزارت داخلہ کے مطابق مملکت میں کسی بھی شخص کو غیر قانونی رہائش دینے کی اجازت نہیں ہے۔ اب رہی بات غیر قانونی طور پر مقیم لاکھوں تارکین وطن کی سعودی عرب میں مقیم رہنے کی ۔ مختلف ممالک خصوصاً ہندو پاک ، بنگلہ دیش، افغانستان وغیرہ کے مزدور پیشہ یا تعلیم یافتہ نوجوان تلاشِ روزگار کے سلسلہ میں لاکھوں روپیے دے کر سعودی عرب کا رخ کرتے ہیں ۔ ایجنٹس انہیں مختلف قسم کے جھانسے دیتے ہیں یا بعض افراد آزاد ویزے کے نام پر جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ،سعودی عرب پہنچ کر بہتر سے بہتر روزگار کی تلاش کرنے کے خواب دیکھتے ہیں جس میں بعض کو کامیابی بھی ملتی ہے ۔ سعودی شاہی حکومت اپنے شہریوں (جنہیں کفیل کہا جاتا ہے )کو مختلف زمروں کے تحت کام کرنے کیلئے دیگر ممالک سے آسامیوں کو لانے کیلئے اجازت نامے دے دیتی ہے جسے ویزا کہا جاتا ہے ، ان میں سے بعض جھوٹے کمپنیوں یا عرب اشخاص حکومت سے ویزے نکال لیتے ہیں لیکن سعودی عرب آنے کے بعد ان افراد کواپنے پاس رکھنے کے بجائے ہزاروں ریال لے کر ان تارکین وطنوں کو آزاد چھوڑ دیا جاتاہے تاکہ وہ روزگار اپنی حیثیت کے مطابق روزگارتلاش کرلیں ۔اگر یہ تارکین وطن کسی کمپنی یا کفیل کے پاس کام کرتے ہیں اور وہ اپنا ویزا اس کمپنی یا کفیل کے پاس ٹرانسفر نہیں کروالیتے ہیں تو پھر انہیں کبھی بھی پکڑے جانے کا ڈر رہتاہے اور اگر یہ افراد جس جگہ کام کررہے ہیں وہاں پر اپنا ویزا ٹرانسفر کروالیتے ہیں تو قانونی زمرے میں شمار کئے جاتے ہیں۔ اس طرح تارکین وطنوں کو غیر قانونی طور پر رکھنے کے ذمہ دار وہ کفیل ہوتے ہیں جو جھوٹ پر مبنی کاغذات دے کر ویزے حاصل کرتے ہیں اور ہزاروں ریال کے عوض ان کو بلاتے ہیں ۔ اسی طرح اس کی ذمہ داری ان عہدیداروں پربھی عائد ہوتی ہے جو سعودی کفیلوں یا کمپنیوں کی جانب سے جھوٹے کاغذات داخل کرنے پر صحیح تحقیق و تنقیح نہیں کرتے کیونکہ جس شخص یا کمینی کو آسامیوں کی ضرورت ہے وہی ویزا حاصل کرکے آسامیوں کو دیگر ممالک سے بلائیں۔شاہی حکومت کو چاہیے کہ وہ ان لاکھوں تارکین وطنوں کو جو مختلف کمپنیوں اور کفیلوں کی جانب سے بقایا جات ادا شدنی ہے یا انکے اقامے تجدید نہ کرنے کی وجہ سے وہ غیرقانونی زمرے میں آچکے ہیں اس کی تحقیق کی جائے اور ان لاکھوں تارکین وطنوں کو انکے بقایاجات دلائیں اور انکے اپنے ملک واپس ہونے کیلئے انتظامات کریں۔ورنہ شاہی حکومت کی جانب سے عالمی سطح پر کئے جانے والے فلاحی کام اور تعاون صرف دکھاوا ہی کہلائے گا یا نہ انسانیت کیلئے۰۰۰

ہتھیار خریدنے والے ممالک میں سعودی عرب سب سے آگے۰۰۰
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک اپنے دفاع اور سلامتی کے لئے ہتھیار بنانے والے ممالک سے کروڑوں روپیے کے ہتھیار خریدتے ہیں ۔ دنیا میں دہشت گردی کا لیبل مسلمانوں پر لگایا جاتا ہے لیکن دہشت گردی کیوں پروان چڑرہی ہے اس سلسلہ میں تحقیق کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اصل دہشت گرد کون ہیں۔ عالمی سطح پر اپنا لوہا منوانے والے ان ممالک جنہوں نے اپنے خطرناک ہتھیاروں کے ذریعہ دنیا کو ایک ایٹمی بم کی شکل دے رکھی ہے ، نہیں معلوم کب کون کس کو ختم کرنے کے لئے اپنے ان ہتھیاروں کا استعمال کرسکتا ہے۔ کوئی ہتھیار بناکر کروڑوں ڈالرس کما رہے ہیں تو کوئی اپنی معیشت اور خوشحالی کو تباہ و برباد کرنے کیلئے کروڑوں ڈالرس کے ہتھیار صرف اپنے ملک کے دفاع کے نام پر خرید رہے ہیں۔ اگر ان ممالک کے حکمراں ایک دوسرے سے بہتر روابط بنائے رکھنے اور اپنے اپنے ملک میں عوام کی سلامتی اور خوشحالی کیلئے لائحہ عمل ترتیب دیتے ،تو شاید ان ممالک کو کروڑوں ڈالرس کے ہتھیار خریدنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ایک طرف دشمنانِ اسلام خطرناک ہتھیار بناکر اس کے ذریعہ اپنی معیشت کو استحکام دے رہے ہیں تو دوسری جانب عالمِ اسلام کے حکمراں اپنی معیشت کو تباہ و برباد کرتے ہوئے ان دشمنانِ اسلام سے کروڑہا ڈالرس کے ہتھیار خرید رہے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ دنوں اسٹاک ہولم میں قائم امن پر تحقیق کرنے والے انسٹیٹیوٹ سِپری نے کہاہے کہ ہتھیاروں کی عالمی سطح پر تجارت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ہتھیار فروخت کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک امریکہ ہے، جو عالمی سطح پر بیچے گئے ہتھیاروں کا 36 فیصد حصہ فروخت کرتا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق اسٹاک ہولم میں قائم انسٹیٹیوٹ سِپری نے کہاکہ 2009 سے2013کے مقابلے میں دنیا بھر میں 2014سے لے کر2018 تک ہتھیاروں کی تجارت میں تقریباً 8 فیصد کا اضافہ ہواہے۔ امریکہ کے بعد اسلحہ برآمد کرنے والے سب سے بڑے ممالک میں بالترتیب روس، فرانس، جرمنی اور چین ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والے ممالک میں سعودی عرب پہلے نمبر پر ہے ۔ سِپری کی اس رپورٹ کے مطابق حقائق اس طرح پیش کئے گئے ہے کہ 2014 سے لے کر2018 تک جتنے بھی ہتھیار فروخت ہوئے ہیں، ان میں سے 36 فیصد امریکہ نے برآمد کیے۔ اس طرح بتایا جاتاہے کہ2009 سے لے کر 2013تک کے مقابلے میں امریکی ہتھیاروں کی فروخت میں 6 فیصد اضافہ ہوا۔امریکہ نے مجموعی طور پر ایک سو سے کچھ کم ممالک کو ہتھیار فروخت کیے جبکہ مجموعی طور پر ان ہتھیاروں کا نصف حصہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو فروخت کیا گیا۔دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ہتھیار برآمد کرنے والا ملک روس ہے، جس نے تقریبا 28 ممالک کو اسلحہ بیچا۔ دنیا بھر میں ہتھیاروں کی فراہمی کے حوالے سے ہر پانچویں ڈیلیوری روس نے کی۔بین الاقوامی سطح پر جرمن ہتھیاروں کی فروخت میں 13 کا فیصد اضافہ ہواہے۔ بیرونی ممالک نے خاص طور پر جرمن آبدوزوں کی خریدی میں دلچسپی کا اظہار کیا۔امریکہ کے ہر چار ہتھیاروں میں سے ایک سعودی عرب نے خریدا۔ اس طرح 2014سے لے کر 2018تک دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار سعودی عرب نے ہی درآمد کیے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک نے اس عرصے میں ماضی کے چار برسوں کے مقابلے میں دو گنے ہتھیار خریدے ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ چھوٹے چھوٹے ہتھیار خریدنے کا رواج ختم ہوتا جارہاہے اور بیشتر ممالک زمینی سطح پر لڑائی لڑنے کے بجائے فضاء سے ہی اپنے دشمنوں پر حملہ چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سپری کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2014سے لے کر2018 تک بڑے جنگی طیاروں، ٹینکوں اور میزائلوں جیسے بھاری ہتھیار زیادہ فروخت کیے گئے جبکہ دستی بموں اور رائفلوں جیسے چھوٹے ہتھیاروں کی فروخت میں کمی آئی۔اس طرح سعودی عرب اپنے دفاع کے نام پر یمن و شام کی لڑائی میں حصہ لے کر معاشی بدحالی کا شکار ہوچکا ہے اور نہیں معلوم ہتھیاروں کا زخیرہ کرنے کا شوق اسے کس جانب لے جائے گا۰۰۰

***

Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209698 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.