پاکستان کی97 فیصدآبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ وزیر اعظم
نے اپنی ابتدائی چند تقریروں میں رسول کریمﷺکی مدینہ طیبہ میں قائم کردہ
ریاست کو رول ماڈل قرار دیا۔ اپنی تقاریر کے آغاز میں وہ ’’ہم تیری عبادت
کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں‘‘جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم
پاکستان عمران خان نے خوشنماوعدہ کیاکہ ہم پاکستان کو’’ ریاست مدینہ‘‘ کی
طرز پر اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے۔ اس کے بعدان کی ہدایت پراسلامی
نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے ریاست مدینہ کے خد و خال کا
جائزہ لینے کے لیے ماہرین اور علماء پر مشتمل 25 رکنی کمیٹی تشکیل دی ۔
ریاست مدینہ کے اصولوں کاتفصیلی جائزہ لینے کے لیے کونسل کے شعبہ تحقیقات
کو ذمے داری سونپ دی گئی ۔بقول چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل گول
میزکانفرنس کا بھی انعقاد کیا جائے گا جس میں شریک علما، مشائخ اوردیگر
قانونی ماہرین سے معاشی، سماجی، تنظیمی،فلاحی اوردیگرامور پر مشاورت کی
جائے گی۔تمام اہل وطن کا فرض ہے کہ’’ ریاست مدینہ ‘‘کے متعلق ان تمام باتوں
کو نیک نیتی پر محمول کر کے مثبت انداز میں لیں۔ جہاں تک ہو سکے اس سلسلے
میں تعاون اور حوصلہ افزائی کریں ۔ جہاں اصلاح کی ضرورت ہو وہاں مثبت تنقید
کر کے ارباب اختیار کی توجہ صحیح سمت مبزول کرائیں۔اس کا سلیقہ سورہ
المائدہ کی آیت میں ہمیں قرآن پاک نے سکھایا ہے کہ’’ نیکی اور تقویٰ کی
باتوں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون
نہ کرو‘‘۔ صحیح مسلم کی روایت میں آیا ہے کہ’’ دین تو خیرخواہی کا نام
ہے‘‘۔حضورﷺ کی تئیس سالہ دعوتی جد و جہد کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے
والی’’ ریاست مدینہ‘‘ کے جو خد و خال مستند تاریخ و سیرت کی کتب سے ملتے
ہیں، ان کی روشنی میں اس ریاست کا ہر شہری، خواہ غریب ہو یا امیر،شریف ہو
یا شریر،حاکم ہو یا محکوم، ایک اعلیٰ عہدیدار ہو یا ایک عام شہری، قانون کی
نظر میں بالکل مساوی حیثیت رکھتا ہے۔مدینہ کی ریاست میں ہر شخص اور ہر طبقہ
بغیر کسی امتیاز کے ایک ہی قانون اور ایک ہی نظام عدل کے تحت زندگی گزارتا
ہے۔ اسلامی قانون میں استثنیٰ کی کوئی شق نہیں ہے۔قانون کا احترام مسلم و
غیر مسلم، سب کے لئے لازم ہوتا ہے۔ لوگوں کے لئے سربراہ مملکت اور ارباب
اختیار تک رسائی انتہائی آسان ہوتی ہے۔عوام کے لئے مساوات کے اصولوں پر عمل
در آمد کیا جاتا ہے۔خون، نسب،رنگ اور پیشہ کی بنیاد پر شریف اور رکمتر کے
فرق کو ختم کردیا گیا۔مدینہ کی ریاست ہر قسم کی بے حیائی، فحاشی اور عریانی
سے پاک تھی۔مرد و زن کو نگاہوں کی حفاظت کا حکم دے کر ماحول کو پاکیزہ
بنایا گیا (النور۔03۔13) خواتین کو پردے کا حکم دیا گیا (الاحزاب۔53اور95)
نیز محرم و نامحرم کی فہرست بناکر اسلام کے سماجی نظام کے تفصیلی احکام
بتائے گئے۔ (النساء۔32، النور۔13)۔اسلامی قانون کی رو سے ریاست ہر اس شہری
کی وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو۔ریاست مدینہ میں رعایا کے لئے خوراک، صحت
اور تعلیم کا مناسب انتظام کیا گیا۔ دولت کی گردش اور عوام الناس تک اس کے
ثمرات پہنچنا اسلام کا بنیادی معاشی اصول ہے۔ (الحشر۔7)چنانچہ زکوٰۃ، صدقات،
اموال غنیمت ،فے اور دوسری مدات سے حاصل ہونے والی رقوم کو رعایا کی فلاح
وبہبود اور خدمت خلق کے دیگر کاموں پر خرچ کیا گیا اور چند ہی سالوں میں یہ
صورتحال ہوگئی کہ صدقات و زکوٰۃ دینے والے تو موجود تھے لیکن لینے والا
کوئی نہیں تھا۔آمدنی کے ایسے ذرائع اور طور طریقوں پر پابندی لگائی گئی جن
سے ارتکاز دولت کا امکان تھا مثلاً سود، جوا، سٹہ، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز
منافع خوری وغیرہ۔حرمت سود کے بعد آپﷺ نے تمام معاہدات میں سودی کاروبار کی
نفی
فرمائی۔محققین ومورخین متفق ہیں کہ حضرت عمر ؓ کے دور میں جب اسلامی سلطنت
بہت وسیع ہو گئی تو آپ ؓ نے قرآن پاک کے پیغام اور رسول اﷲ کے اسوہ حسنہ کی
روشنی میں اسلامی فلاحی ریاست کو عملی شکل دی۔ دنیا کے کئی ممالک نے حضرت
عمر ؓ کے ریاستی ماڈل کی روشنی میں فلاحی ریاستیں قائم کیں مگر مسلمان فرقہ
واریت کا شکار ہو کراصل مقصد سے ہٹ کر ایک دوسرے کی تانگیں کھینچنے میں
اُلجھ کر رہ گئے۔ نتیجہ یہ کہ قرآن و سنت کی اصل منشا اور فلاحی ریاست کی
تشکیل کو ہی بھول بیٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عالم اسلام زوال کا شکار ہے۔یہ
تاثر درست نہیں ہے کہ مسلمانوں کے پاس مکمل ریاست کا ماڈل ہی نہیں ہے۔ حضرت
عمر فاروق ؓ نے فلاحی ریاست کا مکمل نمونہ پیش کیا۔ آپؓ نے اسلامی ریاست کے
ہر شہری کے بنیادی حقوق کا مکمل خیال رکھا۔ آپؓ کے دور میں ریاست کا کوئی
فرد لاوارث نہیں تھا۔ حضرت عمر ؓ کے دور میں پیش آنے والے حیران کن واقعات
سے فلاحی ریاست کے خدو خال سامنے آتے ہیں‘‘۔آپ کے دورِ خلافت میں سخت قحط
پڑا جسے’’ عام الرمادہ‘‘ یعنی ہلاکت کاسال کہا جاتا ہے۔ عرب کے لوگ قحط
سالی کی وجہ سے مدینہ طیبہ کے اطراف میں پناہ گزین ہوگئے۔ حضرت عمر ؓ نے
ذاتی دلچسپی لے کر ان کے کھانے کا انتظام کیا۔ ہر روز سینکڑوں دیگیں پکا کر
کھانا مستحقین میں تقسیم کیا جاتا۔ دس ہزار ولوگ ہر روز کھانا کھاتے اور
حضرت عمر ؓ خود نگرانی کرتے، یہاں تک کہ بارش ہوگئی اور حضرت عمرؓ نے سب
پناہ گزینوں کو سواریاں اور اناج دے کر اپنے علاقوں کی جانب روانہ کیا‘‘۔(طبقات
ابن سعد)۔ یہ تو ہے ریاست مدینہ کی اصل تشکیل اور اس کے خد و خال۔ ہمیں
عمران خان صاحب کی نیت پہ ذرا بھی شک نہیں۔ وہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں
ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ البتہ بظاہر ان کے پاس کوئی ایسی
ٹیم نظر نہیں آرہی جو ان کے اس نظریہ کو عملی جامہ پہنا سکے۔ کچھ سالوں سے
غیر ملکی این جی اوز کی مالی معاونت اور نگرانی میں، پاکستانی معاشرے کی
عورتوں کو بے حیا بنانے کی گہری سازش چل رہی ہے۔ اب وہ عروج پر پہنچ چکی
ہے۔8 مارچ کوعالمی یوم خواتین کے موقع پر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں غیر
اسلامی اور بیہودہ بینرز اٹھائے اسلام آباد، لاہور اور کراچی کی سڑکوں پر
عورتیں مارچ کر رہی ہیں لیکن ریاست کی طرف سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔
اور اب فلم سٹار مہوش حیات کو یوم پاکستان کے موقع پرتمغہ امتیاز دینے کا
باظابطہ اعلان کردیا گیا ہے۔ کوٹھے پر عورت ناچے تو طوائف کہلاتی ہے۔ کالج
میں ناچے تو اسے آرٹس کا نام دیا جاتا ہے۔ ڈرامہ یا فلم کی سکرین پرناچے تو
اسے فلم سٹار کا لقب دے کر ’’تمغہ امتیاز‘‘جاتا ہے۔ اپنے ملک کی نوجوان
بیٹیوں کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ یہ آپ کی رول ماڈل ہیں۔ سوائے نیم
برہنہ لباس میں ٹھمکے لگا لگا کر قوم کی بچیوں اور بچوں کے ذہن گندے کرنے
کے کوئی تعمیری کام بھی کیا ہے اس نے۔اس سول ایوارڈ کیلئے آپ کو کوئی ایسی
خاتون نہیں ملی جس نے تعلیم، طب، ٹیکنالوجی یاسماجی خدمات میں کوئی ایسا
کارنامہ سرانجام دیا ہو جس سے ملک کا نام روشن ہوا ہو۔ اگر یہی ریاست مدینہ
ہے تو پھر العیاذ باﷲ۔ ہم تو اس سے باز آئے تمہیں ہی مبارک ہو۔ اگر ریاست
مدینہ بنا نہیں سکتے تو خدا کیلئے ’’ریاست مدینہ‘‘ کے مبارک الفاظ کا بے جا
استعمال تو نہ کرو۔ |