23مارچ 1940ہمارے لئے بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے چونکہ
اس دن قرار داد پاکستان پیش کی گئی ،اس دن کی مناسبت سے ہم ہر سال اس کو
یادگار کے طور پر مناتے ہیں یقینا یہ ہمارے لئے خوشی و مسرت کی بات ہے ،پاکستان
کا ہر شہری خوشی سے جھوم رہا ہو تا ہے ،ہر چھوٹا بڑا بوڑھا جوان مرد عورت
کے ہاتھ سبز ہلالی پرچم ہو تا ہے اور وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتا ،کیوں نہ
خوشی ہو،میرا وطن جو ہے میرا پیار جو ہے ،ہماری مسلح افواج ہو یا حکومت یا
عوام سب کا جذبہ دیدنی ہو تا ہے ،اس دن کو ہماری مسلح افواج اپنے اپنے فن
کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کو یہ بتا دیتے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں اور
پاکستان کو کلمہ کی بنیاد پر لیا گیا ،کلمہ کی محبت اور شوق شہادت سے سرشار
ہیں،اس لئے یہ دن ہمارے لئے ایک تاریخ ساز دن کی حیثیت رکھتا ہے،جس کو ہم
بھرپور طریقے سے مناتے ہیں،23 مارچ 1940ء کو لاہور کے وسیع میدان منٹو پارک
میں ایک لاکھ انسانوں کے سامنے اور قائد اعظم کی صدارت میں آل انڈیا مسلم
لیگ نے تقسیم ِ ہند کی وہ مشہور قرارداد منظور کی تھی، جس نے بعد میں
قراردادِ پاکستان کا نام حاصل کیا تھا۔ اسی قرارداد کی رو سے پاکستان کی
مملکت وجود میں آئی23 مارچ کا دن وطن عزیز پاکستان کی تاریخ میں انتہائی
اہمیت کا حامل ہے، 23 مارچ 1940 ء کو لاہور میں واقع ’’منٹو پارک‘‘ موجودہ
’’اقبال پارک‘‘ میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی اور 23 مارچ ہی کے دن 1956
ء میں پاکستان کا پہلا آئین منظور ہوا، 23 مارچ کی تاریخی اہمیت کو مد نظر
رکھتے ہوئے ہر سال 23 مارچ کو یوم پاکستان منانے کا اعلان سرکاری طور پر
کیا گیا، اس تاریخی دن کو منانے کیلئے پورے پاکستان میں سرکاری و غیر
سرکاری سطح پر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، 23 مارچ 1940 ء کو قائد اعظمؒ
کی زیر صدارت منظور کی گئی قرارداد پاکستان نے تحریک پاکستان میں نئی روح
پھونک دی تھی جس سے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوا،
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے پیش کی گئی قرار
داد کو اس وقت ’’قرار داد لاہور‘‘ کا نام دیا گیا تھا جس کو دشمنان اسلام و
پاکستان نے طنزیہ طور پر ’’قرار داد پاکستان‘‘ کے نام سے پکارنا شروع کر
دیا تھا اسی دن سے قرار داد لاہور، قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور ہو
گئی،اور مسلمانوں نے اس نئے نام یعنی ’’قرار داد پاکستان‘‘ کو بخوشی قبول
کر لیا۔23 مارچ 1940 ء کی قرارداد کی تیاری میں اس امر کو خاص طور پر توجہ
کا مرکز بنایا گیا تھا کہ قرار داد میں کہیں بھی کوئی کمی یا خامی نہ رہ
جائے جس کا فائدہ دشمن عناصر اٹھائیں اس مقصد کیلئے بہت سے عبقری، دانشور
اور قانونی ماہرین کو قرار داد کے متن کی تاری میں شامل کیا گیا تھالیکن
ہندوؤں کی کینہ پرور لیڈر شپ ایک جامع اور مکمل قرار داد پر تنقید کرنے سے
باز نہ رہ سکی، قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی سیاسی بصیرت کی وجہ سے قرار
داد کی تیاری سے لیکر تمام معاملات بخیر و عافیت طے پا گئے، آل انڈیا مسلم
لیگ کی مجلس عاملہ نے 22,23,24 مارچ 1940 ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ
اجلاس عام منعقد کرنے کا فیصلہ کیا جس میں تاریخی اہمیت کی حامل یہ قرار
داد لاہور پیش کرنا تھی جو بعد میں چل کر قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور
ہوئی، 21 مارچ 1940 ء کا قائد اعظم محمد علی جناحؒ فرنٹیئر میل کے ذریعے
لاہور ریلوے سٹیشن پر پہنچے جہاں لوگوں کا جم غفیر آپ ؒ کے شاندار استقبال
کیلئے موجود تھا اور تاریخ بتاتی ہے کہ لاہور کے ریلوے سٹیشن پر تل دھرنے
کو جگہ نہ تھی، مسلمانوں کا جوش و خروش دیدنی تھا اور گرد و نواح کے تمام
علاقے فلک شگاف نعروں سے گونج رہے تھے۔قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اپنے
ضروری معاملات نمٹانے کے بعد جب جلسہ گاہ پہنچے تو انہوں برجستہ تقریر کرنے
کا فیصلہ کیا اور اس وقت کے میڈیا کے مطابق قائد اعظم ؒ نے تقریباََ 100
منٹ پر مشتمل شاندار تقریر کی جس کو سن حاضرین جلسہ دم بخود رہ گئے۔
قائداعظمؒ نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے جداگانہ قومیتی وجود کو حقیقی فطرت
قرار دیتے ہوئے فرمایا: ’’ہندوؤں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتا کہ اسلام اور
ہندوازم مذہب کے عام مفہوم ہی نہیں بلکہ واقعی دو جداگانہ اور مختلف
اجتماعی نظام ہیں اور یہ محض خواب ہے کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک مشترکہ
قوم بن سکیں گے‘‘ بالآخر وہ وقت آن پہنچا کہ وزیراعظم بنگال مولوی اے کے
فضل الحق نے تاریخی قرار داد پیش کرنے کے بعد اس کی حمایت میں تقریر بھی کی
جس میں انہوں نے بنگال اسمبلی میں اپنی ایک تقریر کا حوالہ بھی دیا اور یہ
ثابت کیا کہ فرزندانِ توحید کی آزادی کی صرف یہی ایک صورت ہے، چودھری خلیق
الزماں نے اس قرار داد کی تائید کی، ان کی تائیدی تقریر کے بعد مولانا ظفر
علی خاں‘ سرحد اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر سردار اورنگ زیب خاں اور
سرعبدا ﷲ ہارون نے تقاریر کیں، کم و بیش پورے برصغیر کی مسلمان قیادت نے اس
پلیٹ فارم سے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے نئے
عزم اور ولولے سے سفر آزادی شروع کرنے کا عہد کیا، اس تاریخی جلسے اور
قرارداد کو اس لیے بھی اہم مقام حاصل ہے کہ یہ ایک اجتماعی سوچ کا شاخسانہ
تھا۔ اجتماعی طور پر تمام مسلمان ایک قوت اور ایک تحریک کا روپ دھارے ہوئے
تھے۔ باہمی اختلافات اور ایک دوسرے پر کیچڑ اْچھالنے کا کوئی سوچ بھی نہیں
سکتا تھا، قرار داد کی پیشی اور منظوری کے بعد مسلمان ایک نئے عزم اور
حوصلے کے ساتھ ایک روشن صبح کی جانب اپنا سفر شروع کرنے جا رہے تھے جس کی
سربراہی تاریخ کے عظیم ترین لیڈر حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کر رہے تھے،
یہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی سیاسی بصیرت و حالات کو دیکھتے ہوئے
بہترین حکمت عملی اور خدائے بزرگ و برتر کا فضل و کرم تھا جس نے مسلمانوں
کیلئے بروقت ایک آزاد، خود مختار مملکت خدادا پاکستان قائم کرنے میں حقیقی
کردار ادا کیا تھا۔اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی سیاسی مصلحتوں اور آپس کی ریشہ
دوانیوں کو بھلا کر پھر سے متحد ہو جائیں،آج 78 سال گزرنے کے بعد ایک بار
پھر ہمیں اپنے اندر 23 مارچ 1940 ء کا جذبہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے اور
تجدید عہد وفا کرتے ہوئے قرار داد پاکستان کے اغراض و مقاصد کی تکمیل اور
قائد اعظم ؒ اور دیگر قومی رہنماؤں کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہمیں
پھر سے ایک قوم بننا ہوگا، دو قومی نظریہ جو موجودہ حالات میں دم توڑتا
دکھائی دے رہا ہے اسے بچانا ہوگا، دنیا کو دکھانا ہوگا کہ ہم وہی قوم ہیں
جس نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر پاکستان کے قیام کے خواب کو پورا کیا تھا،
ہم وہی قوم ہیں جس نے اپنے قائد کی رہنمائی میں دو قومی نظریے کو سچ ثابت
کرکے دکھایا تھا، ہمیں قرار داد پاکستان کی روشنی میں مملکت خدادا پاکستان
کو پروان چڑھانے کیلئے انفرادی و اجتماعی طور پر سر ڈاکٹر محمد علامہ اقبال
ؒ کا شاہین بننا ہوگا۔اﷲ تعالیٰ پاکستان کی قدم بقدم حفاظت فرمائے اور
قیامت تک قائم و دائم رکھے ،دہشت گردی جیسی لعنت سے محفوظ رکھے،امن کا
گہوارہ بنائے نظر بد سے بچائے ،آمین ثم آمین پاکستان زندہ باد |