ریمنڈ کا استثنیٰ اور چندحقائق

گزشہ کالم میں انہی سطور میں اپنے حکمرانوں کو بے حس اور عوام کو لکیر کے فقیر قرار دیکر تین بے گناہ پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کے استثیٰ کے معاملے پر بحث کو فضول قرار دیا اکثر دوستوں کی جانب سے یہی شکوہ آیا کہ حکمرانوں کی حد تک بات درست ہے لیکن عوام کو ذمہ دار ٹھہرانا قطعاً درست نہیں کہ اپنے ہی مسائل میں دھنسے وہ بے آداب زندگی تک بھول چکے ہیں انہیں سفارتی آداب اور قوانین سے کیا لینا دینا۔ بات اگرچہ تنقید کی ہی ایک شکل ہے لیکن ہے بہرحال وزن دار کہ واقعی ایک دو فیصد کو چھوڑ کر شاید کتابوں اور اخبارات کے شوقین ہی عالمی سیاست سے شغف رکھتے ہوئے سفارت خانوں اور ان میں کام کرنے والے عملے کے متعلق قوانین سے آگاہی رکھتے ہونگے جبکہ باقی سب تو بس جو سن لیا وہی مان لیا ہی کی پالیسی پر اکتفاء کرنے پر مجبور ہیں۔ قصور دراصل عام آدمی کا نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ اس صورت حال کے ذمہ دار ہمارے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ بڑی حد تک اہل قلم بھی ہیں جو اپنے اپنے مفادات سیاسی وابستگیوں کے پیش نظر تو نت نئے موضوعات پر طبع آزمائی کرتے نہیں تھکتے لیکن شعور اور آگاہی کے حوالے سے اپنے قارئین کو صرف انہی معلومات تک محدود رکھتے ہیں جو ان کے اپنے مفاد میں ہوں ، اس کے برعکس بات اگر عوامی مفاد کی ہوتو”پالیسی میٹرز“آڑے آجاتا ہے، بدقسمتی سے ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے جبکہ اردو کے ایک محاورے ”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ کے مطابق لاہور میں ریمنڈ ڈیوس پر قتلِ عمد کا الزام عائد ہونے کے بعد امریکی حکام کے روز بروز بدلتے مؤقف نے صورتحال کو اور زیادہ پیچیدہ بنا دیا ہے جس کے بعد اس کو سفارتی استثنٰی حاصل ہونے یا نہ ہونے کی بحث مزید زور پکڑ گیا ہے۔

امریکی صدر باراک اوبامہ کی جانب ریمنڈ کو رہا کرنے کا نہ صرف مطالبہ سامنے آچکا ہے بلکہ اس کے فوراً ہی بعد سینٹر جان کیری پاکستان کے دورے پر آئے اور خاصے پر امید واپس گئے ۔ بیانات کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ وائٹ ہاﺅس نے باقاعدہ طور پر پھر ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی اہلکار قرار دے کر اس کی رہائی کا حکم سنا ڈالا۔ یہ تو معلوم نہیں کہ حکومت نے اندر کھاتے اس کا کیا جواب دیا یا پھر مستقبل قریب یا بعید میں وہ اس معاملے کو کیسے سلجھائے گی لیکن دوستوں سے اصرار پر ہم نے جو تحقیق کی ہے اس کے مطابق خود امریکہ نے آج تک کسی بھی سفارت کار کو کوئی بھی استثنٰی نہیں دیا ہے جبکہ دوسری جانب جس ویانا کنونشن کا شور مچایا جارہا ہے اس میں کہیں بھی درج نہیں کہ کسی بھی ملک کا سفارتی اہلکار یوں سر عام بے گناہ شہریوں کے خون کی ہولی کھیلتا پھرے اور پھر اسے معاف بھی کر دیا جائے۔ویانا کنونشن کے آرٹیکل اکتیس اور سینتیس کی شق نمبر دو میں واضح لکھا ہے کہ اگر کوئی سفارتی اہلکار نجی مصروفیت کے دوران کسی جرم کا مرتکب ہو تو پھر میزبان ملک کے قوانین ہی کے تحت کاروائی ہوگی۔ اگر امریکہ سفارتی استثنٰی کا دعویٰ کرتا ہے تو پھر یہ بھی تو بتائے کہ ریمنڈ ڈیوس ستائیس جنوری دوہزار گیارہ کی دوپہر لاہور کے مزنگ چوک میں کیا کر رہا تھا؟اس سوال کا جواب تو درکنار پاکستان نے تو ابھی تک ملزم کا اصل نام تک جاننے کی کوشش نہیں کی جو کہ بعض اطلاعات کے مطابق امریکی سی آئی اے کا ایجنٹ ہے۔

ایک ساعت کے لئے یہ مان بھی لیں کہ ویانا کنونشن کے تحت ریمنڈ ڈیوس کو واقعی استثنٰی حاصل ہے لیکن امریکہ بہادر سے یہ بھی تو پوچھا جائے کہ کیا ویانا کنونشن صرف پاکستان ہی پر لاگو ہوتا ہے؟ کیونکہ اگر امریکی تاریخ بتاتی ہے کہ واشنگٹن نے آج تک کسی بھی سفارت کار کو اس کنونشن یا معاہدے کے تحت معافی نہیں دی، یہی نہیں بلکہ جہاں انکل سام کو اپنے مفادات زد میں دکھائی دیئے دوسروں کو بھی اس کنونشن پر عمل سے روک دیا جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ دنیا کی بات نہیں کرتے صرف اور صرف ایشیاء کے حوالے سے دیکھیں تو یہ جنوری 2002ء کی داستانِ الم ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو پاکستان کی وزارت خارجہ کے حکام نے یقین دہانی کرائی کہ انہیں بدستور پاکستان میں رہنے کا حق حاصل ہے۔ ملا ضعیف کے مطابق ان کے پاسپورٹ پر ابھی 6 ماہ کا ویزہ موثر تھا۔ وہ اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ ایف ٹین سیکٹر میں پاکستانی حکام کی زیر نگرانی تھے۔ پھر ایک دن کو گھر سے اٹھا کر پشاور میں ایک سیکورٹی ایجنسی کی قید میں دیدیا گیا۔ دو دن بعد پاکستان میں افغانستان کے سفیر، مہمان اور سب سے بڑھ کر ایک مسلمان جِسے جنیوا کنونشن اور عالمی قوانین کے تحت بطور سفیر ہر قسم کا تحفظ بھی حاصل تھا، انکی آنکھوں پر پٹی اور ہاتھ باندھ کر امریکی فوجیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ملا عبدالسلام ضعیف پر تشدد کیا گیا۔ چھریوں سے بدن کے کپڑے تار تار کر کے برہنہ کر دیا گیا اور اس حالت میں جسے دیکھ کر انسانیت بھی شرما جائے ان کو ہیلی کاپٹر میں سوار کر کے یخ بستہ موسم میں افغانستان میں قائم امریکی عقوبت خانے میں منتقل کر دیا گیا۔ اس کے بعد ضعیف کئی سال گوانتاموبے میں عبرت کا نشان بنائے جاتے رہے۔ رہائی ملی تو 2008ءمیں پاکستان میں انہوں نے کیس کیا ہے کہ انہیں حکومتِ پاکستان نے کس قانون کے تحت امریکی حکام کے حوالے کیا جبکہ انہیں سفارتی استثنٰی اور موثر ویزہ حاصل تھا۔

آج امریکہ کا پورا زور تین پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کی رہائی پر ہے۔ اسے سفارتی استثنٰی دلانے کی سرتوڑ کوشش کی جا رہی ہے۔ خود امریکیوں کی سفارتی استثنٰی کے حوالے سے عالمی قوانین کا احترام ملا ضعیف کے واقعہ سے واضح ہو جاتا ہے۔ جن کو ابھی بھی سمجھ نہ آئے وہ ایک اور واقعہ پڑھ لیں جس کا براہ راست تعلق پاکستان ہی سے ہے ۔ امریکہ خود سفارت کاروں کو سفارتی استثنٰی کس طرح دیتا ہے اس کی دوسری مثال پاکستان کے اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب منیر اکرم ہیں۔ 2002منیر اکرم مارجینا نامی ایک خاتون سے معمولی تلخ کلامی ہوگئی، خاتون نے امریکی قانون کے تحت پولیس کو طلب کر لیا جس نے منیر اکرم کو حراست میں لے لیا لیکن جب پاکستان نے منیر اکرم کے سفارتی استثنیٰ کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا تو صاف انکار کر دیا گیا اور بالآخر پاکستانی مندوب کو خاتون سے معافی مانگنے پر رہائی ملی، ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں تو ایسا بھی نہیں، کہنے کو تو مقتولین کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر کوئی بھی ان کا حال پوچھنے نہیں گیا اور تو اور خود ملزم کا رویہ انتہائی متکبرانہ اور غرور سے بھرا ہوا ہے۔

مندرجہ بالا تناظر میں امریکی سفیر کی جانب سے ذاتی دفاع میں قتل کرنے کے حوالے سے ریمنڈ ڈیوس کو فوری طور پرامریکہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ ناقابل فہم ہے۔ قارئین یہی کہتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس جس کی شخصیت ابھی تک دھند میں چھپی ہے، نہ تو لاہور میں امریکی قونصل خانے یا اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کا حصہ تھا کیونکہ اِس اَمر کی تصدیق ابھی تک پاکستانی دفتر خارجہ نے نہیں کی‘ چنانچہ ، اردو اور پشتو زبان جاننے والے اِس امریکی شہری کا وزٹ ویزہ پر متعدد مرتبہ پاکستان آنے کا مقصد ابھی تک لاینحل ہے۔ کیا وہ کسی خفیہ امریکی مشن پر کام کر رہا تھا جسے ظاہر کرنے کیلئے امریکی حکومت تیار نہیں ہے لہٰذا ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے تیزی سے بدلتا ہوا امریکی مؤقف‘ نہ صرف مستند سفارتی آداب کے منافی ہے بلکہ جو کچھ امریکی ترجمان یا سفارتی حلقے دعویٰ کر رہے ہیں اسے انٹیلی جنس کی زبان میں ، کور سٹوری ، سے ہی تعبیر کیا جائیگا۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 58419 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.