آج کل پاکستان میں ایک امریکی
دہشت گرد ریمنڈ ڈیوس جس نے زندہ دلانِ لاہور کے شہر کے ایک معروف مقام
قرطبہ چوک میں دو بے گناہ پاکستانیوں کو برسرِعام قتل کر دیا تھا کا معاملہ
کافی اہمیت اختیار کر گیا ہے بلکہ بعض ماہرین اس کیس کو انتہائی اہمیت دیتے
ہوئے پاکستان اور امریکہ کے درمیان مستقبل کے تعلقات کے تناظر میں بھی دیکھ
رہے ہیں اس کیس کے شروع میں ہی امریکہ نے ریمنڈ کو ویانا کنونشن کے تحت
سفارتی استثناء دیتے ہو ئے ماورائے عدالت رہا کرنے کا درس دینا شروع کردیا
لیکن اس دفعہ صورت حال امریکہ کی توقعات کے با لکل اُلٹ شکل اختیار کر چکی
ہے حکومت نے اس کیس کو عوامی خواہشات کے مطابق حل کرنے کا انتہائی مستحسن
فیصلہ کر لیا ہے جس پر بے شک حکومت،عدلیہ،میڈیا اور عوام بجا طور پر
مبارکباد کے مستحق ہیں ۔پاکستان کی طرف سے اس دو ٹوک موقف نے نام نہاد
عالمی طاقت کے ہوش ٹھکانے لگا دیئے ہیں پہلے پہل حسب معمول امداد کی بندش
کی دھمکیاں دی گئیں لیکن سوائے فوزیہ وہاب کے کسی کی طرف سے امریکہ کی
حمائت میں کوئی ایک بیان تک جاری نہ ہوا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان نے
صدر اوبامہ کے بیان کو بھی نظر انداز اور جان کیری کو بھی خالی ہاتھ واپس
بھیج دیا ۔ قوموں کی زندگی میں بے شمار ایسے مواقع آتے رہتے ہیں جن پر
اٹھایا گیا کوئی قدم ملک و قوم کیلئے انتہائی دوررس اثرات مرتب کرتا ہے ۔
ایسا ایک قدم آج سے تقریباََ بارہ سال پہلے اس وقت اٹھایا گیا جب 13مئی
1998ء کو بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے اور ساتھ ہی پاکستان کو ڈرانا دھمکانا
شروع کر دیا کہ تم مقبوضہ کشمیر کو بھول جاﺅ بلکہ آزاد کشمیر کی فکر کروجو
ہم عنقریب تم سے واپس لینے والے ہیں اس وقت پاکستان ایک خطرناک دوراہے پر
کھڑا تھا کہ ایک طرف امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں ''تمام کفر ایک قوم
ہے''کا ثبوت دیتے ہوئے بھارتی دھماکوں پر تو خاموش رہیں لیکن پاکستان کو ''امن
پسندی''کا درس دیتے ہوئے خاموشی کی'' تلقین'' کرتی ہوئی نظر آئیں تعمیل پر
مراعات اور حکم عدولی پر پابندیوں کی دھمکیاں دی گئیں لیکن میاں نواز شریف
نے آخرکار عوامی خواہشات اور ملکی مفاد کے پیش نظر28مئی کو چاغی کے مقام پر
جوابی ایٹمی دھماکے کر کے ایک ایسا غیرتمندانہ فیصلہ کیا جس نے نہ صرف عالمِ
کفر کی بولتی بند کردی بلکہ پاکستان کو پوری اسلامی دنیا میں ایک باوقار
مقام دلا دیا اور آج بھی پاکستان تمام تر خامیوں کے باوجود عالم اسلام کی
واحد ایٹمی قوت ہونے کا اعزاز رکھتا ہے۔ اس طرح کا ایک اور موقع اس وقت بھی
پیدا ہوا جب نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے
تحت ایک پاگل سانڈھ کی طرح افغانستان پر چڑھ دوڑا اس وقت پاکستان پر جنرل
پرویز کی آمرانہ حکومت مسلط تھی جو امریکی وزارتِ دفاع کے ایک ملازم کے آگے
ڈھیر ہو گئی اور دنیا نے دیکھا کہ برادر اسلامی ملک افغانستان کے مقابلے
میں امریکہ کی حمائت نے ارضِ پاک پر کس قدر بُرے اثرات مرتب کئے افغانستان
کے مقابلے میں لاجسٹک سپورٹ سے شروع ہونیوالی اس امداد کا صِلہ ہمیں آج
30000کے قریب ہلاکتوں ،45ارب ڈالر کے اقتصادی نقصان اور آئے روز کے
دہشتگردانہ حملوں کی صورت میں یوں ملا ہے کہ ملک میں کوئی وزیر،کوئی ادارہ
حتیٰ کہ مساجد و دربار تک محفوظ نہیں رہے،کوئی ملک سیکورٹی خدشات کے پیش
نظر ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کرنے اور کوئی ٹیم ہمارے ہاں کھیلنے کو تیار
نہیں الغرض 2001ء میں شروع ہونیوالی یہ صلیبی جنگ آج ہماری جنگ بن چکی ہے
جس میں مرنے اور مارنے والے دونوں پاکستانی ہیں اور دنیا ہم پر ہنس رہی ہے
۔ آج ریمنڈ ڈیوس کیس کی صورت میں پاکستان کو خدا نے ایک اور موقع دیا ہے کہ
جس سے فائدہ اٹھا کر ہم ملک و ملت کو ایک بار پھر ترقی و خوشحالی کے راستے
پر ڈال سکتے ہیں اور اس موقع سے فائدہ اٹھانے واحد صورت یہی ہے کہ ریمنڈ
ڈیوس کیس کا فیصلہ عوامی خواہشات کے مطابق کے پیش نظر کیا جائے اور اس
سلسلے میں کسی بھی قسم کے دباﺅ یا لالچ کو قطعی اہمیت نہ دی جائے اگر ایسا
کر دیا جاتا ہے تو یقین کریں اس سے دنیا کے سامنے ایک نیا پاکستان جنم لے
گا ایک ایسا باوقار اور طاقتور پاکستان جو امریکہ کا غلام نہیں جہاں کسی
امریکی کا خون کسی پاکستانی کے خون سے زیادہ قیمتی نہیں ۔اس موقع پر اگرچہ
چند نام نہاد دانشور قوم کو ڈرا رہے ہیں کہ پاکستان امریکہ سے تعلقات
بگاڑنے کا متحمل نہیں ہو سکتا اور یہ کہ امریکہ ہماری امداد بند کر دے گا
وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ خطے کی صورتحال کے پیش نظر اس وقت
پاکستان کو امریکہ کی نہیں بلکہ امریکہ کو ہر قدم پر پاکستان کی زیادہ
ضرورت ہے کہ پاکستان کی امداد کے بغیر امریکہ کیلئے افغانستان چند دنوں میں
ہی وہ ڈراﺅنا خواب بن سکتا ہے جو اس کی آئندہ نسلوں کو بھی ڈراتا رہے گا
اور رہی بات امداد کی تو اگر پاکستان آج صرف نیٹو کی سپلائی لائن ہی بند کر
دے افغانستان میں سالانہ تقریباََ100ارب ڈالر کھپانے والا امریکہ پاکستان
کو دی جانیوالی موجودہ امداد سے بھی دس گنا زیادہ دینے پر تیار ہو جائے گا
لیکن اس سب کیلئے تھوڑی سی جرات ایمانی کی ضرورت ہے۔ |