ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی 23مارچ کو افواج پاکستان کی
پریڈ کی تقریب ہو رہی ہے اور میڈیا پر بھی پاکستان کی دفاعی عسکری طاقت کے
اظہار کو23مارچ کے حوالے سے نشر کیا جا رہا ہے۔معلوم نہیں کہ قیام پاکستان
کے سیاسی عزم کے یوم تجدید کے موقع ملک میں سیاسی قوت کے بجائے فوجی طاقت
کے مظاہرے کی ضرورت کب سے محسوس ہونا شروع ہوئی اور یہ سلسلہ کب سے شروع ہو
ا۔تاہم غالب امکان ہے کہ یہ طریقہ کار جنرل ایوب خان کے دور اقتدار سے ملک
میں متعارف کرایا گیا۔ملک کی فوجی طاقت کا اظہار یوم دفاع 6ستمبر کو کیا
جانا عین مناسب معلوم ہوتا ہے۔23مارچ خالصتا نظرئیہ پاکستان کے حوالے سے
ایک تاریخی سیاسی کارنامہ ہے لیکن ملک میں 23مارچ کو پاکستان میں سیاسی
کردار کی بحالی کی آواز بلند کرنے کے بجائے ملکی سیاسی نظام پر حاوی طریقہ
کار کو تقویت پہنچانے کے اسی انداز کو جاری رکھا گیا ہے جو سابق مارشل لا
حکومتوں کا طریقہ کار تھا۔
قرار داد پاکستان ایک سیاسی عزم کا اظہار تھا،اس عہد کی تجدید کا دن منانے
کا بہتر طریقہ ملک میں حقیقی سیاست/سیاسی کردار کی بحالی اور اس کی ترویج
ہی ہو سکتا ہے۔پاکستان کے قیام کی بنیادی قوت سیاسی کردار ہی ہے اور ملک
میں حقیقی سیاسی کردارہی ملک کی اصل طاقت ہے،جس کی غیر موجودگی کی وجہ سے
ملک میں غیر یقینی حاوی ہو جاتی ہے۔
نظرئیہ پاکستان،قرار داد مقاصد اور قرار داد پاکستان کے حوالے سے ملک میں
اسلامی غلبے والی ریاست یا سیکولر ریاست کی بحث ا کثر ہوتی رہتی ہے۔ملک میں
اسلامی نظام ہو(اور وہ بھی مخصوص مائینڈ سیٹ کی تشریج کے مطابق)،سیکولر ہو
یا کوئی اور نظام حکومت، لیکن یہ بات طے ہے کہ پاکستان کے قیام کے بنیادی
مقصد میں عوام کی بہتری تھا اور عوام کے مفادات کے عزم کے اظہار سے ہی
پاکستان کا قیام عمل میںلایا گیا تھا لیکن پاکستان کو ''ڈی ٹریک'' کرتے
ہوئے کاروبار حکومت چلانے والوں،ملکی اداروں کو بالاتر طبقہ بنا دیا گیا۔
لیاقت علی خان کے سازشی قتل سے پہلے سے ہی ملک میں سیاسی سازشیں شروع ہو
چکی تھیں، جس کی تان ملک کے مارشل لا ء پر آ کر ٹوٹی۔مارشل لاء حکومتوں نے
ملک میں سیاسی جماعتوں کو کارنر کرتے ہوئے منظور نظر شخصیات کو سیاست میں
لاتے ہوئے تابعدار سیاسی جماعت کے کلچر کو فروغ دیا ،جس کی آج بدترین
صورتحال ملک کو درپیش ہے۔اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ آج بھی ہمارے پالیسی ساز
،ارباب اختیار کنٹرولڈ سیاسی نظام کوکارآمد سمجھتے ہیں۔یہ ان کے مفادات کے
حق میں تو موزوں ہو سکتا ہے لیکن تابعدار سیاست کے اس چلن کی ترویج کو ملک
اور عوام کے مفاد قرار دینا بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے۔
مارشل لا حکومتوں اور تابعدار سیاسی جماعتوںنے ملک میں طبقاتی نظام کو مزید
مضبوط کرتے ہوئے ناقابل تسخیر بنا دیا اور اسی حوالے سے ملک میں معاشی عدم
مساوات کو ملک کا '' میگنا کارٹا'' بنا دیا گیا۔ اور یہی نام نہاد سیاسی
جماعتیں پارلیمنٹ میں عوام کے حق میں نمائندگی کے بجائے طاقتور طبقے کے
مفادات کے تحفظ لئے استعمال ہوتی ہیں۔عوام کو جس طرح مختلف حوالوں سے
یکطرفہ پابندیوں میں جکڑا جا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ عوام پر مختلف حوالوں
سے ٹیکسز وغیرہ کی وصولیوں میںبڑے اضافے کا معاشی بوجھ دیکھنے کو ملتا ہے،
کیا پاکستان ملکی کاروبار حکومت چلانے والوں،اداروں ،سرکاری تنخواہیں پانے
والوں کو عوام پر ترجیح دیتے ہوئے ان کے شاہانہ طرز زندگی کو یقینی بنانے
کے لئے قائم کیا گیا تھا؟
خراب معاشی صورتحال والے ملک میں طاقتور،بااختیار طبقات کی سماجی زندگی،ان
کی تعلیمی و طبی سہولیات کا معیار یورپ سے بھی اچھا ہے،ان کی زندگیاں ہی
نہیں ان کی نسلوں کا مستقبل بھی شاندار وتابناک ہونا یقینی بنا دیا گیا
ہے۔ملک کی اصل طاقت عوام ہی ہوتے ہیں،عوام کو مختلف حوالوں سے تقسیم در
تقسیم اور تابعدار سیاسی کلچر کی ترویج سے ملک کو مضبوط نہیں بلکہ کمزور
کیا جا رہا ہے۔پاکستان میں سرکاری دکھاوے کے طور پر مقاصد پاکستان ،قائد
اعظم کے فرمودات پر عمل کے اعلانات بار بار کئے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر
اس کے برعکس طرز عمل کی ترویج ہی نہیں ،اسی کو ملک و عوام کا مقدر بنانے
میں پیش رفت ہوتی نظر آتی ہے۔ |