دو قومی نظریہ آفاقی نظریہ ہے جہاں بھی ایک خدا کی
پرستش کرنے والے اور معبودان باطلہ کو پوجنے والے موجود ہیں وہاں دو قومی
نظریہ موجود ہے ایک طرف اولیاء الرحمن ہیں تو دوسری طرف اولیاء الشیطان ۔
ایک طرف رب السموات والارضین کی وحدانیت پر یقین رکھنے والے اور دوسری طرف
منکر۔
دو قومی نظریے کی بنیاد مذہب ہے ۔ بقول اقبال
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
یہ دو قومی نظریہ ہی تھا جس کی وجہ سے انبیاء ورسل اور اولیاء وصلحاء کو
ظلم وتشدد کا سامنا کرنا پڑا اور پابند سلاسل ہونا پڑا۔ اگر سب ایک ہی ہیں
تو پھر ظلم کیوں؟ داستان ظلم اس بات کی دلیل ہے کہ سب ایک نہیں بلکہ نظریہ
ان میں تفریق کرتا ہے ۔ جب سے کائنات میں وجود انسانیت ہے تب سے دو قومی
نظریہ موجود ہے۔ نبی معظم رسول محتشم، خاتم الانبیاء والامم محمد رسول اﷲؐ
نے جب کوہ صفا پر چڑھ کر ایک الہ کی پرستش کی دعوت دی تھی۔ یہی دو قومی
نظریہ تھا اگر دو قومی نظریہ نہ ہوتا تو ابولہب گستاخی پر نہ اترتا۔ اپنی
زبان سے نازیبا کلمات استعمال نہ کرتا اور خود تباہی وبربادی کا حق دار نہ
ٹھہرتا۔
دو قومی نظریہ کی ترجمانی اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس میں اس طرح فرمائی
جب اکابر قریش مکہ یہ تجویز لے کر آئے تھے اے محمد آؤ جسے آپ پوجتے ہیں اسے
ہم بھی پوجیں اورجسے ہم پوجتے ہیں آپ بھی اس کی پوجا کریں اس طرح ہم اور آپ
اس کام میں مشترک ہو جائیں گے اگر تمھارا معبود ہمارے معبود سے بہتر ہے تو
ہم اس کی نوازشات کے حق دار ٹھہریں گے اوراگر ہمارا معبود تمھارے معبود سے
بہتر نکلا تو آپ اس کی نوازشات کے حق دار ٹھہریں گے ۔
اس وقت رسول اﷲؐنے ارشاد فرمایا:
’’میں اپنے رب کی طرف سے صحیح راہنمائی کا منتظر ہوں۔‘‘اس پر اﷲ تعالیٰ نے
یہ سورت نازل فرما دی:
’’(اے پیغمبر! منکرانِ اسلام سے) کہہ دو کہ اے کافرو! جن(بتوں) کو تم پوجتے
ہو ان کو میں نہیں پوجتا۔ اور جس (اﷲ) کی میں عبادت کرتا ہوں اس کی تم
عبادت نہیں کرتے ۔اور(میں پھر کہتا ہوں کہ) جن کی تم پرستش کرتے ہو ان کی
میں پرستش کرنے والا نہیں ہوں۔اور نہ تم اس کی بندگی کرنے والے (معلوم
ہوتے) ہو جس کی میں بندگی کرتا ہوں۔ تم اپنے دین پر میں اپنے دین پر۔ ‘‘
(الکافرون: ۱۔۶)
جو سینکڑوں اور لاکھوں معبودوں کی محبت اپنے دلوں میں رکھتے ہیں ان کے لیے
خدائے واحد کی پرستش اوراس کی یکتائی کا اعلان گراں گزرتا ہے اﷲ تعالیٰ
قرآن مقدس میں فرماتے ہیں:
’’اورجب اس اﷲ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل تنگ پڑ جاتے ہیں جو
آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور جب ان کا ذکر ہوتا ہے جو اس کے سوا ہیں تو
اچانک وہ بہت خوش ہوجاتے ہیں۔‘‘ (الزمر:۴۵)
رسول اﷲؐکا سفر طائف اور دو قومی نظریہ:رسول اﷲؐجب طائف کے لوگوں کے پاس
دعوت توحید لے کر گئے تو ان لوگوں نے حبیب خدا کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا
وہ آج بھی تاریخ نے محفوظ رکھا ہے ۔ طائف والا دن رسول کریم ؐکے لیے
انتہائی تکلیف دہ اور مشکل دن تھا۔ جب آپ لہولہان ہو کر پریشانی اورغم میں
ڈوبے واپس پلٹ رہے تھے تو آپ فرماتے ہیں:
’’میں نے اپنا سر اٹھایا تو ایک بادل مجھ پر سایہ فگن تھا جس میں جبرائیل ؑ
تھے انھوں نے مجھے آواز دی اورکہا کہ اﷲ عزوجل نے آپ کی قوم کا جواب سن لیا
ہے اور آپ کی طرف پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے آپ فرماتے ہیں مجھے پہاڑوں کے
فرشتے نے بلایا اور سلام کہا اور کہا اے محمد اﷲ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی
بات جو انھوں نے آپ سے کہی سن لی ہے اور مجھے آپ کی طرف اﷲ نے بھیجا ہے آپ
کا جو حکم ہو اگر آپ چاہیں تو میں دونوں پہاڑوں کو ملا دوں تو نبیؐنے اس سے
فرمایا:
’’بلکہ میں امید رکھتا ہوں کہ اﷲ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ کو نکالے گا جو
اکیلے اﷲ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں بنائیں
گے۔‘‘(بخاری،:۳۲۳۱)
آپ کا زخمی ہونا، غم زدہ ہو کر لوٹنا اور فرشتے کا آکر یہ کہنا کہ میں ان
کو دو پہاڑوں میں رکھ کر پیس دو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دو قومی نظریہ
تھا۔
دو قومی نظریہ اور صحابہ کرامؓکی برصغیر میں آمد:نبیؐنے جو دعا کی تھی کہ
اﷲ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ نکالے گا جو صرف اس کی عبادت کریں گے تو آپ دعا
اس انداز میں پوری ہوئی کہ یہاں کے قبائل میں بنو ثقیف نے اسلام قبول کیا
اور برصغیر میں سب سے پہلے آنے والے اور دو قومی نظریہ کی ترویج واشاعت
کرنے والے اسی قبیلہ کے اورایک ہی باپ کے تین بیٹے تھے حضرت عثمان بن ابی
العاص ثقفی، حضرت حکم بن ابی العاص ثقفی اور حضرت مغیرہ بن ابی العاص
ثقفیؓ۔
مختلف ادوار میں برصغیر میں آنے والے پچیس صحابہ کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت
عمرؓکے دور میں بارہ صحابہ آئے جن میں تین کا اوپر ذکر ہو چکا ہے اور باقی
ربیع بن زیاد حارثی، حکم بن عمر ثعلبی غفاری، عبداﷲ بن عبداﷲ انصاری، سہل
بن عدی انصاری، شہاب بن مخارق تمیمی، صحار بن عباس عبدی، عاصم بن عمرو
تمیمی، عبداﷲ بن عمیر اشجعی اور نسیربن دسیم عجلیؓ۔
پانچ صحابہ حضرت عثمان کے دور میں برصغیر تشریف لائے جن کے نام یہ ہیں:
حکیم بن جبلہ عبدی، عبیداﷲ بن معمر تمیمی، عمیر بن عثمان بن سعد، مجاشع بن
مسعود سلمی، عبدالرحمن بن سمرہ قرشیؓ۔
تین صحابہ حضرت علیؓ کے دورمیں آئے۔ خریت بن راشد سامی، عبداﷲ بن سوید
تمیمی، کلیب ابووائلؓ۔
چار صحابہ حضرت معاویہؓکے دورمیں تشریف لائے۔مہلب بن ابو صفرہ ازدی، عبداﷲ
بن سوار عبدی، یاسر بن سوار عبدی، سنان بن سلمہ ہذلی ؓ۔
اورایک صحابی یزید کے دور میں آئے جن کا نام منذر بن جارود عبدی ؓ تھا۔
صحابہ کی یہ تعداد مختلف کٹھن مراحل طے کرنے کے بعد ہندوستان میں پہنچی۔
سبب کیا تھا؟ دو قومی نظریہ ۔ اﷲ کی زمین پر اﷲ کی عبادت ہو اور اسی کا
قانون ہو۔
محمد بن قاسم ؒکی سندھ آمد:ان کا تعلق طائف کے قبیلہ بنو ثقیف سے تھا۔یہ
بھی محمد رسول اﷲؐکی دعا کا ثمرہ تھا۔ بنو ثقیف کے یہ سپوت سترہ سال کی عمر
میں فارس کی مہم پر گئے پھر اس کے تقریباً دس سال بعد ستائیس سال کی عمر
میں حجاج بن یوسف نے آپ کو ۹۳ ہجری میں سندھ کی طرف روانہ کیا۔ اسلامی لشکر
کی کمان کرتے ہوئے دیبل یعنی کراچی تک آئے پھر یہاں سے کفر کے ستونوں کو
گراتے ہوئے دین حق کو بلند کرتے ہوئے ملتان کی سرزمین تک پہنچے۔
یہ محض اسفار نہیں تھے بلکہ دو تہذیبوں کی جنگ تھی دو قومی نظریہ تھا۔ اسی
لیے صحابہ کرامؓ، تابعین عظام ؒ اپنے گھروں سے نکلے بہت کم ایسے تھے جو
اپنے وطن واپس جا سکے ان کے پیش نظر ایک ہی چیز تھی:
ربّ کی دھرتی ربّ کا نظام
اور وہ اس مشن پر تھے:
ہر ملک ملک ما است
کہ ملک خدائے ما است
اسلام اور ہندوازم:اسلام اور ہندو ازم دو الگ الگ نظریے ہیں ان کے ماننے
والے ایک سرزمین میں رہنے کے باوجود دلی طور پر ایک دوسرے کے قریب نہیں ہو
سکتے۔ اس لیے کہ مسلمانوں کا معبود ایک معبود ہے اور ہندو ہر اس چیز کو
معبود مانتے ہیں جو ان کے لیے نفع ونقصان کا سبب بنتی ہے۔ اسلام مساوات اور
برابری کا درس دیتا ہے اور ہندو ازم ذات پات کا ۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں
اکٹھے رہنے کے باوجود ایک نہیں ہو سکتے۔ عادات وخصائل، رسوم ورواج تو ایک
ممکنہ حد تک ایک دوسرے کے قبول کر سکتے ہیں لیکن نظریات نہیں۔ دو قومی
نظریہ ہی ہے کہ مسلمان گائے کو ذبح کر کے اس کا گوشت کھاتے ہیں اور ہندو اس
کو اپنی ماں اور مقدس جانور مانتے ہیں اوراس کی پرستش اور پوجا کرتے ہیں۔
پاکستان کا وجود بھی دو قومی نظریہ کی وجہ سے قائم ہوا ۔ البیرونی نے اپنی
مشہور کتاب، ’’کتاب الہند‘‘ میں کہا تھا:’’ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان
صدیوں تک ساتھ رہنے کے باوجود دو الگ الگ دھاروں کی طرح اپنی اپنی راہ پر
چل رہے ہیں جو کبھی کبھی ایک دوسرے چھو لیتے ہیں لیکن مدغم نہیں ہوتے۔‘‘
دوقومی نظریہ اور ہجرت:۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ء کو ہونے والی دنیا کی ایک بہت بڑی
ہجرت جس کا سبب بھی دو قومی نظریہ تھا۔جسے ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو برصغیر پاک وہند
میں پیش کیا گیا تھا وگرنہ ہستے بستے گھر، اپنی املاک ، جائیدادیں ، کھیت
اور کھلیان لوگ نہ چھوڑتے۔ کتنے تھے جو خاندان قافلوں کی صورت چلے تو ان کا
کوئی فرد اس ارض پاک پر قدم نہ رکھ سکا۔ کتنے قافلے لٹے، عصمتیں لٹیں، ماؤں
سے ان کے جگر گوشے چھینے گئے اور نیزوں میں پرو دیے گئے۔ آخر اتنی بڑی
قربانی اور ہجرت کے پیچھے کون سے قوت اور طاقت کار فرما تھی۔؟
دو قومی نظریہ اور احسان فراموش لوگ:آج جب ہم بڑی آزادی کے ساتھ اپنی
عبادات اور معاملات کو جاری رکھے ہوئے ہیں تو یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم جس
سرزمین پر رہ رہے ہیں وہ صرف رب کے نام پر کلمہ کے نام پر حاصل کی گئی ہے
کچھ احسان فراموش لوگ آج دو قومی نظریہ پر تنقید کرتے سنائی دیتے ہیں اور
اسے ماضی کا ایک قصہ گردانتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ سکولوں ، کالجوں
میں موجودہ نصاب میں اس قدر تبدیلی کر دی گئی کہ نسل دو قومی نظریے سے
شناسائی حاصل نہ کرسکے۔ انھیں کیا خبر کہ ایک مسلمان کا وجود خود دو قومی
نظریہ کی دلیل ہے۔ جو لوگ قوم اور مذہب دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی
کوشش کر رہے ہیں انھیں یہ بھی معلوم نہیں کہ قوم بنتی ہی مذہب سے ہے کسی
قوم کا وجود مذہب کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے۔ مذہب جو نہیں تو قوم بھی نہیں۔
جولوگ یہ سمجھتے ہیں قوم ایک وطن اور ملک میں رہنے والے افراد سے وجود پاتی
ہے ان کا نظریہ اور سوچ بالکل فرسودہ ہے۔ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
رسول اﷲؐکی بعثت کا مقصد:رسول اﷲؐکی بعثت کا مقصد بھی یہی تھا کہ اﷲ کی
زمین پر اﷲ کا کلمہ بلند ہو کسی اور کے لیے بلندی اور حکمرانی نہ ہو۔ اﷲ
تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:
’’ وہی توہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ اسے
اور سب دینوں پر غالب کرے خواہ مشرکوں کو بُرا ہی لگے۔ ‘‘ (الصف: ۹)
مساجد اور عبادت گاہوں کا قیام:مساجد اور عبادت گاہوں کا قیام اوران کا
مسمار کیا جانا دو قومی نظریے کی واضح دلیل ہے ۔ اﷲ تعالیٰ قرآن میں فرماتے
ہیں:
’’ یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دئیے گئے (انہوں نے کچھ قصور
نہیں کیا) ہاں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب، اﷲ ہے اور اگر اﷲ لوگوں کو ایک
دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو (راہبوں کے) خلوت خانے اور (عیسائیوں کے) گرجے
اور (یہودیوں کے)عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں جن میں اﷲ کا بہت سا
ذکر کیا جاتا ہے ویران ہو چکی ہوتیں اور جو شخص اﷲ کی مدد کرتا ہے اﷲ اُس
کی ضرور مددکرتا ہے بیشک اﷲ قوت والا اور سب پرغالب ہے۔‘‘(الحج:۴۰)
الغرض جہاں بھی مسلمان رہتے ہیں وہ ایک قوم کی حیثیت سے رہتے ہیں ان کا الگ
قومی تشخص ہے جو کسی دوسرے کے ساتھ نہیں مل سکتا، ان کی حکومت وہاں وہاں تک
ہے جہاں جہاں تک اﷲ کی زمین ہے ۔ چین وعرب ہمارا ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا |