کشمیر کی وادی میں خون ناحق کی ارزانی

جموں وکشمیرمیں جبرو ظلم کا بازار گرم ہے۔ کوئی ان ایسا نہیں گزرتا جب کسی نہ کسی ہلاکت کی خبر نہ آتی ہو۔ مہلوکین میں کبھی فوجی و نیم فوجی اہلکاروں کے یا کبھی جنگجو وں کے نام آتے ہیں۔ مقامی رہنماوں کو الزام ہے کہ عام شہریوں کوبھی ہلاکت کے بعد جنگجو قرار دے دیا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں جموں کشمیر کی جماعت اسلامی پر پابندی لگائی گئی اور دفاتر کو سیل کردیا گیا ۔ اسی کے ساتھ جماعت کے زیراہتمام چلائے جانے والی تعلیم گاہوں اور فلاحی اداروں پر بھی چھاپہ مارا گیا ۔ وادی کی تمام سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں کے متحدہ صدائے احتجاج کے سبب اسکولوں اور کالجوں کو پابندی سے مستثنیٰ کیا گیا لیکن اس کے بعد ایک اندوہناک خبر یہ آئی کہ پولس کے اسپیشل آپریشن گروپ (ایس او جی) نے رضوان پنڈت نامی نجی کالج کے جواں سال پرنسپل کو حراست میں لے کر شہید کردیا ۔انتظامیہ اگر اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ ظلم و جورسے جماعت کے لوگ ڈر جائیں گے تو اسے رضوان کے بھائی ذوالقرنین کا ایمان افروز بیان جو اقبال کے شعر’کشادِ در دل سمجھتے ہیں اس کو ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں ‘کا آئینہ دار ہے، دیکھ لینا چاہیے۔

ذوالقرنین نے بلاخوف و تردد اعتراف کیا کہ ان کا کنبہ جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے ساتھ وابستہ ہے اور یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ اس نے کہا ’میرا بھائی بالکل بے قصورتھا۔ اس کا کسی جنگجو تنظیم کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ رضوان کو زیر حراست قتل کیا گیا۔ اس کی تحقیقات بھی نہیں ہوگی، یہ ظلم ہے‘۔ رضوان پنڈت کو۶ ماہ قبل ایک جھوٹے کیس میں پھنساکرپبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کٹھوعہ جیل میں بند کیا گیا تھا تاہم عدالت نے پی ایس اے کے اطلاق کو کالعدم قرار دےکر ضمانت دے دی اس کے باوجود انہیں بلاوجہ مزید دو ہفتوں تک بند رکھا گیا۔رضوان کے قتل کے خلاف مشترکہ مزاحمتی قاکدتنے ہڑتال کااعلان کیا جس سے وادی ٹھہر گئی۔ یہاں تک کہ ریل سروس بھی معطل کرنی پڑی اور امتحانات ملتوی کےک گئے۔ حساس علاقوں مںو امکانی احتجاجی مظاہروں کی روک تھام کے لئے سکوسرٹی فورسز کے اضافی نفری تعنایت رہے۔ ضلع پلوامہ سری نگر اور بڈگام اضلاع مںں فور جی (انٹرنیٹ) خدمات معطل رہںد۔ شمالی کشمری کے تینوں اضلاع مں ہڑتال پوری طرح کامیاب رہی ۔

احتجاج و مذمت کی ان اطلاعات کے درمیان جموں وکشمیر کے ضلع ادھم پورسے ایک اور دل دہلادینے والی خبرآگئی۔ سی آر پی ایف کی ۱۸۷ بٹالین کے کانسٹیبل اجیت سنگھ نے اپنے ساتھی ہیڈ کانسٹیبل پوکرمال (ساکن راجستھان)، ہیڈ کانسٹیبل امید سنگھ( ساکن ہریانہ) اور ہیڈ کانسٹیبل جوگیندر شرما (ساکن دہلی )کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اپنے ساتھیوں پر گولیاں چلانے کےبعد کانپور کے متوطن اجیت سنگھ نے خود پر گولیاں چلاکر اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی اور موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہوگیا ۔ اس قتل و غارتگری کی وجہ یہ بتائی گئی کہ سی آر پی ایف کیمپ میں رات قریب دس بجے کانسٹیبل اجیت سنگھ کی اپنے سینئر ساتھیوں کے ساتھ کسی بات پرحجت بازی ہوگئی۔ اس لفظی جنگ کے بیچ اس نے سروس رائفل سے اپنے سینئر ساتھیوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی ۔ ان کو خون میں لت پت دیکھ کر اجیت سنگھ نے خودکشی کی سعی کی اورزخمی ہوگیا ۔ اب حالت نازک ہےاور تھانہ ادھم پور میں اس پر مقدمہ درج کرکےتحقیقات شروع کردی گئی ہے۔

ان دونوں قابلِ مذمت واقعات کے پیچھےوطن عزیز میں پروان چڑھنے والی عدم رواداری کی تہذیب ذمہ دار ہے۔ سرکاری اہلکار آئین کی پاسداری چھوڑ کر قانون کے بجائے بندوق کی زبان بولتے ہیں ۔ کبھی اس کا شکار رضوان پنڈت ہوتا ہے تو کبھی پوکرمال، امید سنگھ اور جوگیندر شرما ہوجاتے ہیں ۔ تشدد کی آگ وردی ، رنگ، نسل اور مذہب کا فرق نہیں جانتی ہے۔ آگ اور خون کے اس کھیل میں ایسا مرحلہ بھی آتا ہے کہ اپنے سیاسی مفاد کی خاطر اسے ہوا دینے والے خود اس کی نذر ہوجاتے ہیں ۔ اسی لیے قرآن حکیم ایک انسان کے ناحق قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448902 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.