مائیک پومیونے کہاکہ امریکی سلامتی کو پانچ بڑے خطرات
درپیش ہیں جن میں سے ایک پاکستان کے ایٹمی اثاثے ہیں ۔بھارتی ذرائع ابلاغ
چیخ رہے ہیں کہ امریکہ اورروس کے بعدپاکستان میزائل ٹیکنالوجی میں
تیسرابڑاملک بننے والاہے۔امریکہ اوربھارت کے خطرات کی نوعیت بدلتی رہتی ہے
۔چندبڑی طاقتیں اس بات کی حامی تھیں کہ امریکہ اوراسرائیل کے بعد بھارت
کوبھی اپنے خطرات کونشانہ بنانے کی اجازت ہونی چاہیے۔اسی زعم میں آکربھارت
نے اسرائیل سے مل کر بالاکوٹ پربم پھینکے تاکہ بھارت کی ’’تڑی‘‘ اور
نفسیاتی،علاقائی اورایٹمی غلبہ قائم ہوجائے مگربدقسمتی سے تین مختلف
رائٹرزکالکھاہوایہ سکرپٹ ناکامی سے ہمکنارہوگیابلکہ دنیابھرمیں اللہ نے
پاکستان کی عزت اورقوت عیاں کردی۔جس میں ہمارے سائنسدانوں اورپاک افواج
کانمایاں کردارہے۔حکومت پاکستان کی خارجہ پالیسی نے دنیابھرمیں عمران خان
کا’’امن ڈاکٹرائن‘‘واضع کردیاجوکامیابی سے اپنے اثرات مرتب کررہاہے۔تاہم
بھارت کی نفسیاتی اورفوجی توسیع پسندانہ پالیسی کو جودھچکالگاہے اس سے
نکلنے کے لیے وہ کسی وقت بھی کوئی بڑی حرکت کرسکتاہے۔جس کے لیے ہمارے
وزیراعظم نے بھی عندیہ دیاہے کہ باوجود تناؤکم ہونے کے خطرہ اب بھی موجودہے
۔وزیراعظم پاکستان نے یہ بھی کہاکہ کالعدم تنظیموں کوبرداشت نہیں
کیاجاسکتاکیونکہ دنیاکے ساتھ مل کرچلناہے اورہم امن کوہی اپنی خارجہ پالیسی
کااہم حصہ بنائیں گے مگردفاع کے لیے ہرقوت استعمال کریں گے۔
رہی بات مائیک پومیوکے خدشات کی توامریکہ شروع ہی سے اس طرح کے بیانات
دیتاآیاہے حالانکہ اس جدیددورمیں اسے بھی معلوم ہے کہ ایٹمی ٹیکنالوجی کی
منتقلی یااس کی خریدوفروخت اب اتنی مشکل نہیں ہے کیونکہ خودامریکہ میں بڑے
بڑے مافیازموجودہیں جویہ کام کرتے ہیں۔دوسراخدشہ امریکہ کویہ ہے کہ کہیں
بڑھتے ہوئے پاک،سعودیہ تعلقات ایٹمی اورنیوکلیئرتعاون کاذریعہ نہ بن جائیں
بین الاقوامی نیوکلیئرمافیاکے ہوتے ہیں سعودی عرب کے لیے یہ کوئی بڑی مشکل
نہیں ہے ۔وہ خود خریدرکر،خوداس کوقائم بھی کرسکتاہے ۔تیسراخدشہ یہ
ظاہرکیاجارہاہے کہ کہیں ایٹمی اثاثے دہشتگردوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔یہ
واویلابھی امریکہ اوربھارت اکثرکرتے رہتے ہیں حالانکہ پاکستان کے ایٹمی
اثاثے دنیاکے سب سے زیادہ محفوظ ترین اورسیکیورٹی کے کئی پردوں کے
اندرہیں۔خودامریکہ جدیدٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے اگرنہیں جان سکا کہ پاکستان
کے نیوکلیئراثاثے کہاں اورکتنے ہیں تویہ محدودٹیکنالوجی والے مٹھی
بھردہشتگردکیاجان سکتے ہیں ؟ انٹرنیشنل ایٹمی ایجنسی (IAE)نے بھی پاکستانی
نیوکلیئراثاثوں کومحفوظ ترین قراردیاہے ۔جبکہ اندرون ملک ایک ملٹی
لیٹرسیکیورٹی کی بدولت ان تک کسی کی رسائی ممکن نہیں۔اس سارے تناظرمیں
مائیک پومیواوربھارت کے خدشات پرنظرڈالی جائے توصرف دباؤکے لیے استعمال
کیاجانے والے بیانات ہیں۔
امریکہ نے ایک خودکارسیکیورٹی سسٹم بھی پاکستان کوآفرکیاتھاجوظاہری
طورپرتوخودکارہے مگرکنٹرول امریکہ کے پاس ہے۔پاکستان نے اس تجویزسے کبھی
اتفاق نہیں کیااورکہاکہ ہم ان اثاثوں کی حفاظت کرناجانتے ہیں ۔دنیاجب بھارت
کی نظرسے پاکستان کودیکھے گی تواسے خدشات گھیرے رکھیں گے مگرجب بھی وہ
غیرجانبدارہوکرتنازعات،وجوہات اورضروریات کودیکھے گی تواسے احساس ہوگا کہ
پاکستان نے کس ذمہ داری کامظاہرہ کیا ہے ۔حالیہ پاک بھارت جنگ میں بھی
بھارت کی طرف سے خطرناک بم استعمال کیے گئے مگرپاکستان نے انتہائی ذمہ داری
سے دفاعی حکمت عملی بنائی پھرامن کاپیغام دیا۔چین سمیت خودامریکہ نے بھی اس
موقف کی تعریف کی اوربالاآخرامریکہ ،چین ،سعودی عرب،متحدہ عرب امارات
اورقطر کی کوششوں سے جنگ کے بادل چھٹ گئے۔خودامریکی ذرائع ابلاغ ،پینٹاگون
اورصدرٹرمپ نے کہاتھاکہ پاکستان اوربھارت جنگ کے خطرناک دہانے پرکھڑے تھے
۔اگرچہ پاکستان یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہاکہ اس اشتعال انگیزی کے پیچھے
مودی کاالیکشن بخارتھاجس کوغیرملکی،غیرجانبدارتھینک ٹینکس اورذرائع ابلاغ
نے بھی تسلیم کیا۔ابھی مائیک پومیو کے خدشات پربات ہورہی تھی کہ صدرٹرمپ
کاایک اوربیان آگیاکہ پاکستان اورامریکہ کے تعلقات بہترین ہیں
اورجلدپاکستانی قیادت سے ملاقات ہوگی۔افغانستان سے امریکی انخلااورطالبان
کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کے کلیدی کردارنے بھی امریکہ کوپاکستان کے
قریب کردیاہے ۔دوسری طرف پاک چین تزویراتی تعلقات بھی عروج پرہیں ۔سلامتی
کونسل میں چین مسلسل پاکستان کے ساتھ کھڑاہے جبکہ تجارتی تعلقات کی ایک نئی
کڑی شروع ہونے والی ہے ۔جس سے یہ اندازہ کیاجاسکتاہے کہ بدلتے ہوئے حالات
میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کوتقویت مل رہی ہے ۔جس کاکریڈت پاک فوج ،عمران
خان اورشاہ محمودقریشی کوجاتاہے مگران اقدامات کومستقل شکل دینے کے لیے
پیشہ وارانہ اورپاکستان لونگ سفارتی کوششیں ہی کام دکھائین گی۔امریکی
سیکرٹری آف اسٹیٹ مائیک پومیو کے بیانات میں بھی کئی تضادات ہیں۔گویاامریکہ
نےWe Need Moreکی پالیسی کے بھی کئی رخ متعین کررکھے ہیں۔دباؤاستعمال
کرناہے۔شاباش دینی ہے۔یابہترتعلقات رکھنے ہیں۔آخری آپشن جوپاکستان کے
مفادمیں بھی ہے اوردیرپابھی ہے ۔اس طرف امریکی حکومت ،ارکان سینیٹ اورتھینک
ٹینکس کی زیادہ کوششیں نظرآتی ہیں ۔جیسے پولیس والے کی دوستی اوردشمنی
دونوں خطرے کاآلارم ہوتی ہیں ۔ایسے ہمارے لیے امریکی دوستی اوردشمنی دونوں
خطرناک ہوتی ہیں۔لہٰذابہترتعلقات قائم کرنے کیلئے سفارتی کوششیں ہونی چاہیے
اورامریکہ کومعاشی،علاقائی اورعالمی حالات کے پیش نظرمصروف رکھناچاہیے۔یہی
پاکستان کی ترقی اورعلاقائی امن کے لیے بہترین راستہ ہے ۔البتہ مودی کے
جنون پرکڑی نظررکھنے کی ضرورت ہے ۔ |