ترقی و خوشحالی ہر انسان کا بنیادی حق اورخواب ہوتا ہے ،اپنے
ان مقاصد کیلئے انسان دن رات جدوجہد کرتا ہے ،محنت میں عظمت ہے محنت کا صلہ
تو ربِّ کائنات نے ہی دینا ہوتا ہے ۔باوقار قوم کیلئے خود انحصاری لازم ہے
،عظیم ہیں وہ لوگ جو دنیا میں باعزت زندگی بسر کرنے کیلئے اپنے دست ِبازو
پر انحصار کرتے ہیں ۔دنیا میں آنے والے ہر ذی روح کی کفالت کی اولین ذمہ
داری ریاست پر عائد ہوتی ہے ۔کہنے کو تو ہمارا وطن ''اسلامی جمہوریہ
پاکستان''ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے ،پاکستان میں پیدا ہونے والے کسی
بچے کی کفالت کی ذمہ داری حکومت لینے کو تیار نہیں ہوتی ۔بچوں کی ذمہ
داریاں پوری کرنے کیلئے والدین کو ''کرپشن ''کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔کیونکہ
فی زمانہ ملازمت کی صورت میں انساں کو ملنے والا معاوضہ اس قدر قلیل ہوتا
ہے کہ اس میں اسے اپنی اور اپنے زیر کفالت افراد کی پرورش میں دشواری پیش
آتی ہے ۔پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر حکمران نے اپنے مفادات کو مقدم
سمجھا ، دنیا کے تقریباً تمام ترقی پذیر ممالک کے حکمران اپنی رعایا کو
خوشحال بنانے کی بجائے انہیں سپر طاقتوں اور عالمی مالیاتی اداروں کا غلام
بنا کر اپنی ذاتی خوشیوں اور شادمانیوں کا سامان کرتے نظر آتے ہیں ۔اور یہ
بیماری پاکستان میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے ۔قیام پاکستان کے بعد سے اب
تک اسکندر مرزا، فیلڈ مارشل محمد ایوب خان،جنرل محمد یحٰیی خان،ذوالفقار
علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق،معین قریشی ،شوکت عزیز ،میاں نواز شریف، محترمہ
بینظیر بھٹو،جنرل پرویز مشرف،آصف علی زرداری سمیت جتنے بھی حکمران ہم پر
مسلط کئے گئے ،انہیں امریکہ اور عالمی مالیاتی اداروں کی سرپرستی حاصل رہی
۔ اسکندر مرزا، فیلڈ مارشل محمد ایوب خان،جنرل محمد یحٰیی خان ،جنرل ضیاء
الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں عوام و خواص کو لوٹ مار کی آزادی
حاصل رہی لیکن مجموعی طور پر ان میں سے کسی پر کرپشن کا کوئی الزام نہ لگ
سکا،البتہ جمہوریت پسندحکمرانوں کے دور میں جہاں خود حاکم دونوں ہاتھوں سے
قومی دولت لوٹنے میں لگے رہے وہاں ان کی سرپرستی میں ''کرپشن'' کی وہ وہ
کہانیاں سامنے آئیں کہ جنہیں سن کر انسان حیران و ششدر رہ جاتا ہے ، البتہ
غیر ملکی قوتوں کی سرپرستی میںاقتدار حاصل کرنے والے ہر حاکم کا'' انجام
کار'' بھی ساری دنیا کے سامنے ہے ۔
ہمارا مالیاتی سسٹم جس کا زیادہ تر انحصار غیرملکی قرضوں اور خیرات کی شکل
میں ملنے والی امداد پر ہے ۔اقتدار کے حصول کیلئے سپر طاقتوں اور اداروں کی
بیساکھیوں کا سہارا لینے والوں نے'' قومی مفاد ''کے نام پر اس پاک وطن اور
عوام کے ساتھ جو ''ظلم اور زیادتیاں''روا رکھیں، وہ دنیا کی تاریخ کا ایک
المناک باب ہے ،دنیا کی تاریخ لکھنے والا مورخ ان کے ان کارناموں کو کن
حروف سے لکھے گا اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا ،دکھ کی بات یہ ہے پاکستان
کے مظلوم اور سادہ لوح عوام ہمیشہ ہی ان غیر ملکی ایجنٹوں کی باتوں میں آ
کر انہیں اقتدار میں لانے میں اپنا تن من دھن لگا دیتے ہیں،بعد ازاں
خوشحالی اور خودداری کے تمام سپنے تھوڑے ہی عرصے میں زمین بوس ہو جاتے ہیں
۔
ملک کی بربادی کی تاریخ رقم کرنے والے ہر حکمران کو امریکہ یا دوست مسلم
ممالک کے دباؤ کی بناء پر ہمیشہ ہی ''محفوظ راستہ'' فراہم کیا گیا ۔''کرپشن
کے خلاف جہاد ''کے دعوے بھی سفارشیوں کی وجہ سے صدا بصحرا ثابت ہو تے ہیں
۔''ڈیل'' اور ''ڈھیل'' کی پالیسی نے لٹیروں کو تحفظ فراہم کیا ہے ۔موجودہ
عمرانی حکومت کو اقتدار میں لانے والوں کا مقصد ''صاف شفاف احتساب ''ہی تھا
لیکن اب تک سامنے آنے والی کارروائیوں سے ایک بات بالکل عیاں ہوتی جا رہی
ہے کہ کرپشن میں ''لتھڑے'' ہو ئے سابقہ حکمران بھی ''کچھ دو ،کچھ لو'' کے
فارمولے پر ''جرمانے ''کی شکل میں ادائیگیاں کرکے اپنی جان چھڑا لیں گے ۔بعض
لٹیروں کو '' ڈیم فنڈ'' میں معقول رقم جمع کروانے کی صورت میں انہیں ریلیف
دئیے جانے کی اطلاعات بھی ہیں ۔ظاہر ہے کہ لوٹ کھسوٹ سے کی رقم سے جو ''ڈیم
''بنے گاوہ کس قدر دیرپا ہوگا ۔اس کا اندازہ کرنا اتنا مشکل بھی نہیں ۔
کرپشن اور لوٹ کھسوٹ نے ساری قوم کو زندہ درگور کر کے رکھ دیا ہے ۔حرام کی
کمائی سے پلنے والی قوم میں اخلاقی اقدار کا ناپید ہونا کوئی اَچھنبے کی
بات نہیں ،جب حکمران خود ملک میں ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ لوگ ناجائز
ذرائع سے دولت کمائیں اور اپنے بچوں کو حرام ہی کھلائیں تو اس میں قوم کا
کیا قصور ہے ۔؟قصور وار تو وہ حاکم ہیں کہ جو اقتدار حاصل کرنے کیلئے کچھ
بھی کر گذرنے کو تیار رہتے ہیں ۔آج ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ تقریباً
پونے2لاکھ روپے کا مقروض ہے اور دن بدن اس قرض میں اضافہ ہی کروایاجا رہا
ہے ۔ سابقہ حکومتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عمرانی حکومت بھی عالمی
مالیاتی اداروں ،مسلم و دوست ممالک سے قرض اور امداد لینے کی پالیسی پر عمل
پیرا ہے ۔پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اقتدار میں آنے سے پہلے تبدیلی کے
خواب دکھانے والوں کا مقصدصرف حکومت ہی حاصل کرنا تھا۔
خود انحصاری ہی تمام تر مصائب و آلام کو واحد حل ہے ،اپنے وطن میں بے بہا
معدنی ذخائر موجود ہیں ،جن کے ذریعے ہم پاکستان کو ایک خوددار و با وقار
ملک بناسکتے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے حکومت جہاں کرپشن اور لوٹ مار کی روک
تھام کیلئے اقدامات اٹھائے وہاں ملکی معدنی ذخائر کی تلاش کیلئے بھی قدم
اٹھائے ۔مرغیاں پالنے کے ترغیب دینا بھی اچھی بات سہی لیکن اب یہ وقت
مرغیوں کے کاروبار سے ترقی پانے کا نہیں ہے ،قوم کے70سال حکمرانوں کی ناقص
پالیسیوں کی وجہ سے برباد ہو چکے ،پاکستان کا بچہ ،بوڑھا اور جوان معاشی
بدحالی سے نالاںاور پریشان ہے ۔تعلیم ،روزگار،صحت اور رہائش کیلئے ایک چھت
فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے ،اس لئے وزیر اعظم عمران خان اپنی ترجیحات
میں معدنی وسائل کی تلاش اور عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کو ضرور
شامل کریں ۔سیاستدانوں کی ستائی ہوئی قوم کو عمران خان سے بہت زیادہ توقعات
وابستہ ہے ،یہ بات خود عمران خان اچھی طرح جانتے ہیں ۔اس لئے انہیں چاہئے
کہ وہ ان امور پر دھیان دیں ۔ |