مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی اور گرفتاریوں
کے دوران بھارت نے محمد یاسین ملک کی سربراہی والی لبریشن فرنٹ پر بھی
پابندی عائد کر دی۔ 22 فروری کی شب جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر کی
مرکزی لیڈرشپ سمیت وادی کشمیر کے اضلاع اور تحصیلات میں پولیس نے امرائے
جماعت کو اپنے گھروں سے گرفتار کیا۔بغیر کسی چارج شیٹ کے یہ ایک ڈرامائی
کارروائی تھی اور وردی پوشوں کے ہاتھ میں گرفتار شدہ گان کے خلاف کوئی ایف
آئی آر بھی درج نہ تھی۔ محبوسین کے گھر والیہراساں تھے۔وہ اس ماحول میں جب
یہ گرفتاریاں ہوتی دیکھتے تو حیرت کے عالم میں پولیس سے گرفتاری کی وجوہات
پوچھتے، جواب اتنا ہی ملتا کہ’’اوپر سے آرڈر ہے‘‘۔ گرفتار شدہ گان میں کئی
زعماؤاراکین عمر رسیدہ ہیں، کئی ایک علیل ہیں اور کئی نے پولیس حکام سیکہا
کہ علی الصبح خود ہی تھانے میں رپورٹ کریں گے مگراُن کی ایک نہ سنی گئی۔
وادی کشمیر کے علاوہ جموں میں جماعت کے متعدد ارکان، ہمدردوں اور رفقاء کو
پابند سلاسل کیا جا چکا ہے۔ گرفتار شدہ گان میں سے زیادہ تر اس وقت قیدو
بند میں زیر حراست ہیں۔محبوسین میں جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر حمید فیاض،
نائب امیر احمد اﷲ پرے مکی،ترجمان اعلیٰ ایڈوکیٹ زاہد علی، سابق قیم جماعت
غلام قادر لون سمیت امرائے اضلاع اور امرائے تحصیل جات بھی پولیس تھانوں یا
جیلوں میں سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
جماعت اسلامی کی لیڈرشپ کو گرفتار کرنے کی وجوہات فی الفور کسی سرکاری یا
غیر سرکاری سطح پر ظاہر نہکی گئی۔ابو تراب الہلالی نے اس پر زبردست تبصرہ
کیا ہے کہ جونہی بھارتی حکومت نے جماعت پر پابندی عائد کی تو یہ سربستہ راز
کھلا کہ جماعت اسلامی کو کن ناکردہ گناہوں کے سبب اور کن سیاسی مقاصد کے
تحت سزادی جارہی ہے۔ ابتداء میں مقامی اخباروں نے پولیس ذرائع کا حوالہ
دیتے ہوئے یہ خبریں شائع کیں کہ کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ کے ضامن دستور
ہند کی دفعہ35اے کی سماعت اور مجوزہ انتخابات کے حوالے سے یہ قدم احتیاطی
طور اٹھایا گیا ہے۔قید وبند میں پڑے وابستگانِ جماعت میں سے کسی بھی ایک
فرد کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج ہے نہ ہی پارٹی کا کوئی رُکن یا زعیم کسی
غیر قانونی کاموں میں ملوث بتایاجاتا ہے۔ بایں ہمہ تاثر یہی دیا جاتارہا ہے
کہ اگر دفعہ35 اے کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ کی گئی تو زمینی سطح پر لوگوں کو
اس کے خلاف اُبھارنے میں جماعت کا اثر ورسوخ بہت زیادہ ہو گا، اس لیے ممکنہ
خطرہ ٹالنے کے لیے جماعت کی لیڈر شپ کو مقید کر دیا گیا ۔ نیزبھارتی
پارلیمان کے انتخابی عمل کو ’’بحسن و خوبی‘‘ انجام دینے کی خاطر بھی یہ پکڑ
دھکڑناگزیر تھی تاکہ جماعت اسلامی کے کارکنان الیکشن میں کوئی ’’خلل‘‘ نہ
ڈالیں۔ اسی خدشے سے انہیں قبل از وقت پابہ زنجیر کیا گیا ہے۔ حالیہ بلدیاتی
و پنچایتی انتخابات سے متعلق پوری وادی میں لوگوں کی سر دمہری نے اس عمل کو
اعتبار سے محروم کردیا۔ ان انتخابات کا وادی میں بہ حیثیت مجموعی زمینی سطح
پر کوئی اثر نہ ہوا۔ حد یہ ہے کہ ووٹروں کی ایک کثیر تعداد میں سے محض پانچ
دس ’’ووٹوں‘‘ سے کچھ افراد کو منتخب قرار دے کر’’نمائندہ اور لیڈر‘‘ بنایا
گیا۔ اب پارلیمانی اورا سمبلی الیکشن میں ودبارہ ایسی صورت حال پیدا نہ
ہو،اس لئے حکام کے نقطہ نظر سے یہ ضروری بن گیا کہ حریت پسند قیادت کو مقید
کیا جائے۔ یہ جماعت اسلامی ہے جس کے خلاف حکام کے پاس کوئی ایسا ثبوت نہیں
کہ جس سے یہ عندیہ ملتا ہو کہ جماعت دعوتی، تعلیمی، اصلاحی اور رُفاہی کام
کو چھوڑ کر کوئی غیر قانونی کام کررہی ہے۔ جماعت اسلامی سے مخالفین کا
اختلافات اپنی جگہ لیکن حقیقت یہی ہے کہ جماعت اسلامی کا طریقہ کار نہایت
ہی پُرامن اور عوام دوستا نہ ہے۔ جماعت کا دستور اس بات کی گواہی دیتا ہے
کہ سماج میں اصلاحی تبدیلی لانے کی خاطر جماعت کسی زیر زمین کاروائی یا کسی
تخریب کاری کی براہ ِراست یا بلواسطہ حمایت و پذیرائی نہیں کرسکتی۔ نہ صرف
مذہبی اور سیاسی سطح پر بلکہ فلاحی و تعلیمی میدان میں بھی جماعت اسلامی اس
وقت اپنا بھر پور کر دار ادا کررہی ہے۔ ہزاروں بچوں کی تعلیم و تربیت،
یتامیٰ اور بیواؤں کی داد رسی، متاثرہ لوگوں کی حتی المقدور معاونت، غریبوں
کی امداد، بیماروں اور مسکینوں کاعلاج ومعالجہ، یہ انسان دوستی کے وہ مختلف
شعبے ہیں جن میں جماعت اسلامی اپنا رول ادا کر رہی ہے۔ 2005 ء کا تباہ کن
زلزلہ اور 2014ء کے وسیع الاثر سیلاب کا ریکارڈ بتاسکتا ہے کہ دیگر رفاہی
اُنجمنوں کے شانہ بشانہ جماعت اسلامی نے بھی انسانیت نواز رول اداکیا۔کشمیر
مسئلہ کے باب میں جماعت اسلامی کا نظریہ یہ ہے کہ اس کا حل اقوام متحدہ کی
قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کے اہتمام سے کیاجائے یا سہ فریقی امن
مذاکرات کاراستہ اختیار کیا جائے۔ جماعت کے نزدیک کشمیر کا پُر امن،قابل
قبول اور مذکراتی حل کشمیر یوں کے لئے ہی پیغامِ زندگی نہیں بلکہ یہ پورے
جنوبی ایشیا ء کے لئے امن و استحکام اور بھائی چارے کی شاہراہ کھول دیتا ہے
جو بقائے باہم اور خیرسگالی کی منزل پر منتج ہوگی۔ جماعت اسلامی وقتاً
فوقتاً اپنے اجتماعات ا ور اس بات کا اعادہ کرتی ہے کہ فریقین کو جنگ و جدل
سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا ہے۔
جماعت اسلامی کی قیادت کی گرفتاریوں کے ایک ہفتہ بعد جمعرات28فروری کی شام
بھارتی حکومت کی وزارتِ داخلہ کی طرف سے ایک آرڈر جاری ہوا جس میں جماعت
اسلامی جموں و کشمیر پر الزامات کی بوچھاڑ کی گئی کہ جماعت بھارت کی سا
لمیت اور امنِ عامہ کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے،یہ ملک میں افراتفری کی موجب
ہے، ملکی یکجہتی کو اس سے خطرہ لاحق ہے، اس کا عسکری تنظیموں سے قریبی تعلق
ہے، یہ ملک میں تخریبی کاروائیاں بھی انجام دیتی ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر اس
تنظیم پربھارتی قانون Unlawful Activities Act, 1967 کے تحت پانچ سال تک
پابندی عائد کی جاتی ہے۔ متعلقہ حکم نامے کے بعد ریاستی کٹھ پتلی سرکار کی
طرف سے ایک اور حکم نامہ نافذکیا گیا کہ جس میں جماعت کی سرگرمیوں پر
پابندی لگانے کے لئے ضلعی سطح پر افسروں کو بے پناہ اختیارات دیئے گئے۔
جماعت پر پابندیوں کا یہ سلسلہ عرصہ دراز سے آزمایا جاتارہا ہے۔ ماضی میں
بھی جماعت پر پابندیاں عائد کی گئیں، جماعت کے کارکنان کوشہید کیا گیا،’’
اخوان ‘‘کے دورِ ظلمت میں جماعت کے وابستگان کو چن چن کر مارا گیا، ستایا
گیا، لوٹا گیا، جیلوں کے نذر کر دیا گیا،جماعت کے لڑیچر کو بھی ا یک موقع
پر شرپسندوں کے ہاتھوں جلوایا گیا لیکن جماعت ظلم وستم کی ہرآندھی کے
مقابلے میں پہلے سے زیادہ نئے جذبوں اور نئے ولولوں کے ساتھ اُبھرتی رہی۔
پابندیوں کے بعد جماعت اسلامی سمیت لبریشن فرنٹ بھی مزید ابھرے گی۔ یہ دانہ
خاک میں ملانے والی بات ہے، جو گل گلزار ہو جاتا ہے۔
|