خدارا!اب یہ مذاق بند کریں

ہما ری قومی بے حسی اورچشم پوشی انتہاکوپہنچی ہوئی ہے۔وقت کی پکار صدابصحراثابت ہورہی ہے۔کاش یہ صدا کسی گنبد میں دی گئی ہوتی،کم ازکم واپس تولوٹتی۔جہاں میں پوری قوت سے قوم کی مظلوم بیٹی عافیہ کانام لیکر پکارتاکہ تم کہاں ہو؟توسوال کاجواب نہ ملتا،سوال توواپس آتا۔آئیے حساب لگاکر دیکھیں کہ جس روزقوم کی اس مظلوم بیٹی کوجواپنے دومعصوم العمراور ایک گود میں لپٹے بچوں کے ساتھ تھی،ہماری خفیہ ایجنسیوں کے مستعد اور سائے کی طرح پیچھا کر تے بے رحم ہاکس نے پوری درندگی اور سفاکی سے اغواکیاتوان دنوں کون کون مسنداقتدارپرمتکمن تھا۔23جون 2003ءکے بدنصیب دن پرویزمشرف صدر،ظفراللہ جمالی وزیراعظم،فیصل صالح حیات وزیرداخلہ، خورشید محمود قصوری وزیرخارجہ تھے اور سید ضمیرجعفری کے فرزندارجمند جنرل احتشام ضمیر ایک اہم ترین قومی ایجنسی کے سربراہ تھے۔ان تمام اعلیٰ عہدیداروں کے علم کے بغیرایک پتہ بھی جنبش نہیں کرسکتاتھا۔ظفراللہ جمالی صاحب اس تا ریخ سے مزید ایک برس26 جون2004ء تک اپنے عہدہ جلیلہ پرفائزرہے۔

آج بھی اس ملک سے فاسق کمانڈوکی رخصتی کے بعدجمہوری اورعوامی حکومت کادعویٰ کرنے والے صدرآصف علی زرداری،وزیراعظم یوسف رضاگیلانی،حناربانی کھر وزیرخارجہ اوروزیر داخلہ رحمان ملک یہ سب افرادبھی اس حقائق سے انکار نہیں کر سکتے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور اس کے بچوں7 سالہ احمد،5 سالہ مریم اورچندماہ کا سلمان کے اغوأ حبس بیجا،او رامریکیوں سے قیمت کی سودے بازی اورحوالگی میں ملوث خفیہ ایجنسیوں کے کار پردازوں اورایوان اقتدار کے حاکموں میں ہونے وا لی ان کاروائیوں سے مکمل طورلاعلم ہیں۔شرم کامقام تویہ ہے کہ اس مظلوم اوربے گناہ خاتون کی وہ دردناک چیخیں جس نے بگرام ایئربیس کے درودیوارتک ہلاکررکھ دئیے، ان کی اذیت ناک ابتدأتواسلام آباد سے ہوئی ہوگی،وہ یہاں کسی کوسنائی کیوں نہیں دیں؟وہ تمام خفیہ ایجنسیاں جنہوں نے عزت وطن کایہ معرکہ سرکیا،براہ راست وزیراعظم کوجوابدہ تھیں اوراگروزیر اعظم،وزیرداخلہ اوروزیر خارجہ کے اختیارات کی حدودآگ کے اس دریا کے پارنہیں جاسکتی تھی توبھی ان کوکسی حدتک اعتمادمیں ضرورلیاہوگا۔

فاسق کمانڈوکی رخصتی کے بعدنئی جمہوری حکومت کے دورمیں عافیہ کو افغانستان سے امریکا لیجایاگیااورعوامی حکومت کادعویٰ کرنے والی حکومت کو توفیق نہ ہوسکی کہ عافیہ کی بازیابی کامطالبہ کرتی۔اس سنگین واردات کابقدر علم ہونے کے باوجودان کے دلوں میں ایک بیٹی سے فطری محبت کاکوئی گداز پیدانہیں ہوا؟ذہنوں میں کوئی تلاطم اوردلوں میں کوئی دردپیدا نہیں ہوا؟ کیا ان کے دست وپا،قلب وبصارت اورنطق سماعت پرمکمل طورپرقفل پڑگئے کہ زرداری کی جمہوری حکومت کے چاربرسوں میں کسی ایک موقع کی منا سبت سے کبھی ایک بار بھی اس رازکومنکشف نہ کرسکے؟حالانکہ ریمنڈڈیوس کی گرفتاری کے موقع پرعافیہ کی رہائی کاایک بہترین موقع تھا لیکن غلاموں کوہمت نہ ہوسکی کہ اپنے آقاؤں سے ایسی گزارش ہی کرسکتے ۔اس پرامریکاکی عدالت میں اس طرح مقدمہ چلایاگیاکہ تمام زمینی حقائق اوررپورٹس چیخ چیخ کرعافیہ کی مظلومیت کی دہائی دے رہی تھیں لیکن امریکاکی عدالت نےحا لات کی بے رحم زنجیروں میں جکڑی کمزور،نحیف اورمظلوم عافیہ کوعدم ثبوت کے باوجود87سال کی قیدسنادی۔

ڈاکٹرعا فیہ صدیقی صرف عصمت صدیقی کی ہی بیٹی تونہیں،وہ تواپنی ماں کے نام کی رعایت لفظی سے پا کستان کی عصمت کی بیٹی ہے۔بیٹیاں،جوسب کی ایک جیسی ہوتی ہیں،گڑیوں سے کھیلتی ہوئی،تتلیوں کے پیچھے بھاگتی ہوئی،باپ کے پیروں کی آہٹ پرلہراتے با لوں سے دوڑتی ہوئی،اس کے سینے سے لگ کردل میں اپنی بے لوث محبت اوراطاعت کی لازوال قندیلیں روشن کرتی ہوئی،اپنی ننھی سی عمرمیں ہی دلہن سی لگتی ہوئی،اورہما رے ایمان کے حوالے سے والدین کے گھروں میں رسالت مآبۖ کی مہمان کی حیثیت رکھتی ہوئی لیکن آج پابندِسلاسل ہونے کے باوجوداسے جنسی زیادتی کانشانہ بنادیا گیااوروہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلازندگی کے آخری سانس لے رہی ہے۔صدحیف کہ علمائے دین بھی اس واقعے پرمنہ میں خود غرضی کی گھنگھنیاں ڈالے بے حسی کا شکارہیں اورصد مبارک اورتحسین کے لائق ہیں ہماری وہ مجبوروبیکس کشمیری دختران ملت جنہوں نے اپنی ملی غیرت کامظاہرہ کرتے ہوئے سڑکوں پرآ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایاتھااورآج وہ خوددرندہ صفت بھارتی متعصب مودی کے حکم پربھارت کی سب سے بدترین جیل تراڑمیں قیدتنہائی میں اپنی شدیدبیماری کابھی مقابلہ کر رہی ہیں۔

ساری پاکستانی قوم اب بجاطورپرمطا لبہ کرتی ہے کہ فاسق کمانڈو پرویزمشرف کے محاسبے کی فردجرائم میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی زندگی تباہ کرنے کا جرم ،پا کستان کی بیٹی کی عزت وتوقیر پامال کرنے کاجرم اورغیرملکی درندوں کے ہاتھوں بیچنے کاجرم سرفہرست رکھاجائےاورعدالت عظمیٰ میں ان تمام اہلکاروں پرمقدمات قائم کئے جا ئیں جنہوں نے اپنے اعلیٰ افسران کے احکامات کی تعمیل میں ڈاکٹرعا فیہ صدیقی کودن دیہاڑے کراچی میں گلشن اقبال سے اپنے سفرپر جا تے ہوئے اغوأکیا،اسلام آباد کے کسی انٹیرو گیشن سنٹر کے عقوبت خا نے میں پہنچایا اورافغانستان کے بگرام ایئربیس میں قائم امریکی جیل میں منتقل کرنے کے گناہ عظیم میں برابرکے شریک رہے ہیں۔مملکت پاکستان کاخواب دیکھنے والاعلا مہ اقبال بھی اپنی قبرمیں تڑپ اٹھا ہوگاکہ اس کے نام سے منسوب گلشن سے اس کے دل کے پھول کے اس بے دردی سے ٹکڑے کر دئیے گئے۔

یہ کیسی قومی غیرت ہے،ہما ری متعدداین جی اوز،حقوق انسا نی کے علمبردار،غیرملکی قیدیوں کے غمگسارکہاں سوئے ہوئے ہیں؟شاید ڈاکٹرعا فیہ صدیقی کیلئے کوئی آوازاٹھا نے،کوئی احتجاجی تحریک اورریلی نکالنے میں کسی اقتصادی فائدے کی کوئی صورت نظرنہیں آرہی ہوگی۔وہ توہمسایہ ملک کے جا سوسوں اوردہشت گردوں کوسزائے موت کے باوجودرہاکروانے کیلئے اپنی تمام صلا حیتیں صرف کرکے واپسی کا محفوظ انتظام کرتے ہیں،جوہمیں جواب میں لاشوں کے تحا ئف دیتے ہیں۔ ہم امریکی قیدیوں کواپنی جیلوں میں وی آئی پی سہو لتیں دیتے ہیں۔برطانوی شہریت کے حامل قاتل کی سزائے موت معاف کرکے نہائت احترام سے واپس برطانیہ بھجواتے ہیں اورمہذب قوم ہونے پراصرارکرتے ہیں۔اگر ایشین ہیومن رائٹس کمیشن ،امریکی قیدی معظم بیگ کی کتاب کی اشاعت اورایوان رڈلی درست طورپرتصدیق نہ کرتے توشاید ہمیں خبرتک نہ ہوتی اورمعاملہ موجودہ صورت اختیارنہ کرتااور عافیہ کانام و نشان تک مٹادیاگیا ہوتا ۔اسی تشہیرکے نتیجے میں مظلوم اوربے بس ڈاکٹرعافیہ صدیقی کوامریکامنتقل کیاگیاجس پرحد درجہ واہیات اورمضحکہ خیزالزامات کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا۔

صرف اس تصورسے کلیجہ منہ کوآتاہے اورآنکھیں فرط غم سے خون کادریابن گئی ہیں کہ ا پنے خلاف ہونے والی غلیظ سا زش سے بے خبر،عفت مآب خاتون اپنے تین معصوم العمربچوں سمیت درندہ نماانسانوں کے حوا لے کردی گئی۔اس نے اپنے ہم وطن اغوأکاروں کوغیرت وطن کااحساس تودلایا ہوگا،بارباراپنا جرم توپوچھاہوگا،ا پنی بے گناہی کی قسمیں بھی توکھائیں ہوں گی،ا پنی عزت ونا موس کاواسطہ بھی دیاہوگا،ایک خوفزدہ،سہمی ہوئی نازک سی عا فیہ نے اپنے لبا س اوربدن پر لپٹی حیاکی چادرنوچنے پردہشت زدگی میں فریادتوکی ہوگی۔وہ خونخوار،بے مہرآنکھوں کی تاب نہ لا کرچلّائی توہوگی،اس نے اشک بھری آنکھوں سے بہن،بیٹی ہونے کاواسطہ بھی دیاہوگا۔کیااس وقت کی آمریت اورآج تک کی جمہوریت کے الاؤ میں پگھلے ہوئے سیسے نے سب کی سماعتیں سلب کرلی ہیں ؟کسی کی بصارت میں اپنی بیٹی،اپنی جوان بہن کاعکس نہیں ابھرا کہ ان میں کوئی عا فیہ صدیقی کی جگہ ہوتی توان کے جگرچھلنی نہ ہوتے؟دل خون نہ ہو تا؟ کیاوہ اس کی جگرپاش چیخیں برداشت کرلیتے؟

عقوبت خا نے کی تاریک راتوں میں تنہائی کاعذاب اورنت نئی اذیتوں نے کیسے اس کی جسمانی توانائیاں کشید کی ہوں گی؟ ان کاحساب ہے کسی کےپاس؟اور پھرجب اسے اپنے جگرگوشوں کے بغیراسلام آبادکی کربلا سے پا بجولاں یزیدی دمشق جیسے بگرام ایئربیس پرزینب بنت علی کی سنت اداکرتے ہوئے منتقل کیا جارہاتھااوراس کی آہیں سسکیوں میں اورسسکیاں چیخوں میں تبدیل ہورہی تھیں توکسی کے ضمیرنے ملامت نہیں کی؟کسی کی آنکھ سے ندامت کاکوئی آنسونہیں گرا؟خوف اوردہشت سے ایک نازک سی عورت کے لرزتے ہوئے جسم کی حالت کسی دل میں کوئی گدازپیدانہ کرسکی ؟ کیاانسان ایساسنگدل بھی ہوسکتا ہے؟ یوسف رضاگیلانی،پرویز مشرف اوران کے بعدآج تک حکومت میں برسراقتدار آنے والے کئی افراد اپنے والد گرا می کے نام کے ساتھ سیّدبھی لکھتے ہیں،یہ تمام حضرات یوم آخرت کوسیّدالانبیاء کاسامناکیسے کریں گے جب ڈاکٹرعافیہ صدیقی سیّد الانبیاء کے سا ئے میں بیٹھی اپنے تمام مظالم کاذمہ داران کو ٹھہرا دے گی؟کبھی ایسابھی سوچاہے کہ ایساسوچنے کی مہلت بھی چھین لی گئی ہے؟چنگیراورہلاکوکے مظالم ہوں یاکربلا کی ظلمتیں،تا ریخ نویس اس خوف کابجاطورپر اظہارکرتے ہیں کہ شاید آئندہ آنے والی نسلیں ان کو دروغ گوکہیں گی لیکن عافیہ صدیقی کوپیش آنے وا لے شرمناک اورکرب انگیز حالات قرون وسطیٰ کی تاریخ کی تصدیق کرتے ہیں۔

آج جب وطن کے ہرباضمیرانسان کی آنکھیں ظلم کی اس داستان پراشکبارہیں،اس شرمناک داستان کاورق ورق ذرائع ابلاغ میں بکھراپڑاہے۔اس درجہ کی عملی بازگشت جس کایہ مطالبہ کرتی ہے، اقتدارکے ایوانوں سے برآمدنہیں ہورہی۔کیاوہ تمام مضا مین،کالم،ادارئیے اوراخباری بیانات کوئی جذباتی افسانہ طرازی ہے جواہل قلم ہما ری آگاہی کیلئے سپرد قلم کررہے ہیں!یقین کیجئے یہ ملک کی تاریخ کاایک شرمناک باب مرتب ہورہاہے اوراس کومرتب کرنے والے قابل ستائش واحترام ہیں ،جن کی تحریروں نے اہل وطن کی رگوں میں حمیت کاخون دوڑآیاہے۔قابل مبارکباد ہیں دخترانِ ملت اوربہت سے اہل قلم ،جن کے مضا مین عالم اسلام کوخواب غفلت سے جگانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن دوسری طرف عافیہ کی رہائی کا کریڈٹ اس موجودہ حکومت کو دینے کی جھوٹی دہائی دی جارہی ہے جس کاوزیرخارجہ بمشکل فوزیہ صدیقی سے اسلام آبادمیں ملنے کیلئے چندلمحوں میں ان کومایوس کردیتاہے۔خدارا!اب یہ مذاق بندکریں اورموجودہ حکومت کوسفارتی ذرائع سے بڑھ کرحکومتی سطح پراس اہم ترین مسئلے کواقوام متحدہ کے توسط سے اٹھانے کابندوبست کرناچاہئے تاکہ جلد ازجلد ڈاکٹر عا فیہ صدیقی کوپنجہ فرعون سے رہا کروایا جائے۔
 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355525 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.